فرخ منظور
لائبریرین
سلیم احمد کی یاد..........
دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہے
اندھیری رات میں کیسا ستارہ جگمگاتا ہے
کبھی اشعار کاغذ پر بیاضِ دل سے لکھتا ہوں
میاں اس کے سوا ہم کو نہ کچھ آتا نہ جاتاہے
وہ اک ہستی محبت کی اکائی جس کو کہہ لیجے
دل اس سے فیض پاتا ہے اسی کے گیت گاتاہے
چراغِ نیم شب کی روشنی دل میں اتر تی ہے
اسی سے جوہرِ ادراک آئینہ بناتاہے
کبھی رونق تھی جن کے دم قدم سے شہرِ جاناں میں
وہ ہر چہرہ تصور میں جھلک اپنی دکھاتاہے
میاں اس شہر سے جو بھی گیا واپس نہیں آیا
کہیں سے اک صدا آتی ہے ویرانہ بلاتاہے
گئے وہ دن کہ تھا شورِ عنادل صحنِ گلشن میں٭
خزاں کاوقت ہے بیٹھا کوئی کوے اڑاتا ہے
(معین الدین احمد)
٭یہ آخری شعر کسی قدیم محترم استاد کاہے.تھوڑے سے تصرف کے لے معذرت.
دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہے
اندھیری رات میں کیسا ستارہ جگمگاتا ہے
کبھی اشعار کاغذ پر بیاضِ دل سے لکھتا ہوں
میاں اس کے سوا ہم کو نہ کچھ آتا نہ جاتاہے
وہ اک ہستی محبت کی اکائی جس کو کہہ لیجے
دل اس سے فیض پاتا ہے اسی کے گیت گاتاہے
چراغِ نیم شب کی روشنی دل میں اتر تی ہے
اسی سے جوہرِ ادراک آئینہ بناتاہے
کبھی رونق تھی جن کے دم قدم سے شہرِ جاناں میں
وہ ہر چہرہ تصور میں جھلک اپنی دکھاتاہے
میاں اس شہر سے جو بھی گیا واپس نہیں آیا
کہیں سے اک صدا آتی ہے ویرانہ بلاتاہے
گئے وہ دن کہ تھا شورِ عنادل صحنِ گلشن میں٭
خزاں کاوقت ہے بیٹھا کوئی کوے اڑاتا ہے
(معین الدین احمد)
٭یہ آخری شعر کسی قدیم محترم استاد کاہے.تھوڑے سے تصرف کے لے معذرت.