فرحان محمد خان
محفلین
قطعات
اسی کے گرد گردش کر رہا ہوں
جو طے ہوتا نہیں وہ فاصلہ ہوں
مرا اس سے تعلق دائمی ہے
وہ مرکز ہے میں اس کا دائرہ ہوں
--------------------
مکاں کے دائروں کا ناپتا ہے
کراں سے تا کراں پھیلا ہوا ہے
یہ نقطہ جس کی ہیں شکلیں ہزاروں
خود اپنی وسعتوں میں چھپ گیا ہے
--------------------
کوئی تازہ تمنا چاہتا ہوں
مرا دل ایک غم سے تھک گیا ہے
میں اس کو شاخ پر رہنے تو دیتا
مگر یہ پھل زیادہ پک گیا ہے
--------------------
ستارے آسماں سے گر رہے ہیں
یقیناََ اک قیامت بھی اُٹھے گی
یہ دنیا جو بظاہر مر رہی ہے
یہ خاکستر سے اپنے جی اٹھے گی
--------------------
مجھے خود میری ہستی کی خبر دی
مسرت میرے جان و دل میں بھر دی
وہ اخفائے محبت چاہتا تھا
دیا بوسہ لبوں پر مُہر کر دی
--------------------
شعاعیں جذب اس میں ہو رہی ہیں
یہ ذرّہ جو ابھی کجلا رہا ہے
کوئی اس کی توانائی تو دیکھے
یہ سورج کو زمیں پر لا رہا ہے
--------------------
بگولا بن کے ہر سو پھر رہا ہوں
اشارے پر ہوا کے ناچتا ہوں
حقیقت میری ہستی کی ہے اتنی
خود اپنی گرد سے پیدا ہوا ہوں
--------------------
بات کی ہے مختلف اوقات میں
خامشی بڑھتی گئی ہے ذات میں
خود بخود چھپتا گیا ہوں اس قدر
جس قدر ظاہر ہوا ہوں بات میں
--------------------
کسی ذرے کو تابندہ کیا ہے
کسی لمحے کو پائبدہ کیا ہے
فنا سے صرف وہ چیزیں ہیں محفوظ
محبت نے جنھیں زندہ کیا ہے
--------------------
مسلسل دید بھی شاید کبھی ہو
ابھی تو اس کے ڈر سے کانپتا ہوں
مرا دل جیسے ہمسائے کا گھر ہے
کبھی روزن سے خود کو جھانکتا ہوں
--------------------
جو ذرّہ ہوں تو تا بندہ کریں گے
جو لمحہ ہوں تو پایندہ کریں گے
نہ جانے دور ہے کتنی محبت
نہ جانے کب مجھے زندہ کریں گے
--------------------
طبعیت صبر کی خوگر ہوئی تھی
غموں کا مرحلہ سر کر لیا تھا
یہ اس میں ڈال دیں کس نے دراڑیں
کہ میں نے دل کو پتھر کر لیا تھا
اسی کے گرد گردش کر رہا ہوں
جو طے ہوتا نہیں وہ فاصلہ ہوں
مرا اس سے تعلق دائمی ہے
وہ مرکز ہے میں اس کا دائرہ ہوں
--------------------
مکاں کے دائروں کا ناپتا ہے
کراں سے تا کراں پھیلا ہوا ہے
یہ نقطہ جس کی ہیں شکلیں ہزاروں
خود اپنی وسعتوں میں چھپ گیا ہے
--------------------
کوئی تازہ تمنا چاہتا ہوں
مرا دل ایک غم سے تھک گیا ہے
میں اس کو شاخ پر رہنے تو دیتا
مگر یہ پھل زیادہ پک گیا ہے
--------------------
ستارے آسماں سے گر رہے ہیں
یقیناََ اک قیامت بھی اُٹھے گی
یہ دنیا جو بظاہر مر رہی ہے
یہ خاکستر سے اپنے جی اٹھے گی
--------------------
مجھے خود میری ہستی کی خبر دی
مسرت میرے جان و دل میں بھر دی
وہ اخفائے محبت چاہتا تھا
دیا بوسہ لبوں پر مُہر کر دی
--------------------
شعاعیں جذب اس میں ہو رہی ہیں
یہ ذرّہ جو ابھی کجلا رہا ہے
کوئی اس کی توانائی تو دیکھے
یہ سورج کو زمیں پر لا رہا ہے
--------------------
بگولا بن کے ہر سو پھر رہا ہوں
اشارے پر ہوا کے ناچتا ہوں
حقیقت میری ہستی کی ہے اتنی
خود اپنی گرد سے پیدا ہوا ہوں
--------------------
بات کی ہے مختلف اوقات میں
خامشی بڑھتی گئی ہے ذات میں
خود بخود چھپتا گیا ہوں اس قدر
جس قدر ظاہر ہوا ہوں بات میں
--------------------
کسی ذرے کو تابندہ کیا ہے
کسی لمحے کو پائبدہ کیا ہے
فنا سے صرف وہ چیزیں ہیں محفوظ
محبت نے جنھیں زندہ کیا ہے
--------------------
مسلسل دید بھی شاید کبھی ہو
ابھی تو اس کے ڈر سے کانپتا ہوں
مرا دل جیسے ہمسائے کا گھر ہے
کبھی روزن سے خود کو جھانکتا ہوں
--------------------
جو ذرّہ ہوں تو تا بندہ کریں گے
جو لمحہ ہوں تو پایندہ کریں گے
نہ جانے دور ہے کتنی محبت
نہ جانے کب مجھے زندہ کریں گے
--------------------
طبعیت صبر کی خوگر ہوئی تھی
غموں کا مرحلہ سر کر لیا تھا
یہ اس میں ڈال دیں کس نے دراڑیں
کہ میں نے دل کو پتھر کر لیا تھا
سلیم احمد
آخری تدوین: