با ادب
محفلین
سلیم الفطرتی
انسان زندگی کے کسی بھی دور میں ہو محبت کی کشش اور محبت کا احساس اسے ہمیشہ مسحور کیے رکھتا ہے ۔
کوئی ایسا چاہنے والا جو آپکا خیال رکھتا ہے آپکی خوشی میں آپ ہی کی طرح کھل اٹھتا ہے اور آپکے غم میں آپکے دکھ کو محسوس کرتا ہے ۔ یہ احساس دنیا کے ہر خوبصورت احساس سے بڑھ کر ہے ۔
اظہار محبت کے بے پناہ طریقے بے بہا انداز شاعروں ادیبوں نے بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی ۔
لیکن محبت کی کچھ کہانیاں سن کر آپ کی آنکھیں یکدم نم ہو جاتی ہیں ۔ دل محبت کے جذبے کا معترف ہوجاتا ہے ۔ یہ وہی کہانیاں ہوتی ہیں جہاں محب اور محبوب دونوں حقیقت میں ایک دوسرے کا احساس کرنے والے ہوتے ہیں ۔
ہیر رانجھا ' سسی پنوں ' مرزا صاحباں کی محبت کی کہانیاں مجھے کبھی اپنا اسیر نہیں کر پائیں ۔
میرے خیال میں محبت سب سے پہلے انسان کو ضبط سکھاتی ہے ۔ نرمی اور حلاوت سے آشنائی کراتی ہے ۔ حیا کے خوبصورت رنگوں سے مزین کرتی ہے ۔ ایک دوسرے کا احساس سکھاتی ہے ۔
آپ کسی بندھن میں نہیں بندھے اور آہیں بھر بھر کے زندگی تمام کیے جا رہے ہیں ۔ نہ صرف یہ کہ آہیں بھریں بلکہ پورے زمانے میں رسوائی کا باب بن جائیں یہ محبت میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔
ایسی محبتوں کا انجام عموماً لڑائیوں گلوں شکووں کی صورت میں نکلتا ہے ۔ محبت اگر واویلا ہے تو محب اور محبوب کے ملنے پر یہ ماتم بن جاتا ہے ۔ محبت کی کہانی تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک محب اور محبوب زندگی کے سبھی رنگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہ جی لیں ۔
عامیانہ اور ظاہری محبت کی شادیوں کے بعد جب عملی زندگی کی حقیقتوں کا سامنا ہوتا ہے تو تمام خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں ۔ بارش ٹی وی کی اسکرین پہ تو خوبصورت لگ سکتی ہے لیکن گٹر کے ابلتے پانی سے پاؤں بچا کے چلنے ہوں یا اسی بارش میں گاڑیوں کے چھینٹوں سے بچنا ہو یا جا بجا کھڑے پانی سے اپنی گاڑی ہی بچا نی ہو تو بارش سے زیادہ فضول شے دنیا میں کوئی اور نہیں لگتی۔محبت میں جھک جانا ،محبوب کی مرضی کو اپنی مرضی جان لینا ان ماڈرن خواتین کے لیے انتہائی مشکل امر ہے جو کھانا گرم کرنے کو آزار سمجھتی ہوں اور جن کی زندگی کا ماٹو
"میری زندگی ،میری مرضی "
ہوتا ہو ۔
" زندگی کا ساتھی " خوبصورت اصطلاح ہے ۔ دنیا کا ہر انسان ایک ایسے ساتھ کو پا ناچاہتا ہے کہ جس کی معیت میں زندگی سکون اور خوشی سے بسر ہو ۔ جب جب زمانے کی تکلیفات کا سامنا کرنا پڑے تو وہ ساتھی آپکے حوصلے اور ہمت کو بندھانے والا ہو ۔ جب محبوب شوہر ایک خا ص عالم میں گھر میں داخل ہوتے ہیں ۔
اور زملونی ۔ زملونی ۔ کی پکار آتی ہے تو غمگسار بیوی کی غمگساری کا انداز سبھی کا دل موہ لیتا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیموں کا خیال رکھتے ہیں۔ شفیق ہیں مہربان ہیں۔بے کسوں کی مدد فرماتے ہیں اللہ آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
بیوی کی غمگساری کا یہ بہترین انداز ، شوہر پہ یقین کا یہ عالم کہ اسلام لانے والی پہلی خاتون بن جاتی ہیں اور جب آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے
خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیسی محبت تھی
تو آپ جناب صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب دینا کہ "
رزقتُ حبھا
"مجھے انکی محبت رزق کے طور پہ دی گئی تھی ۔کیا محبت بھی رزق کے طور پہ دی جاتی ہے؟
ہاں محبت بھی رزق کے طور پہ ہوتی ہے ۔جب رفیقہ حیات وفات پاتی ہیں تو وہ سال غم کا سال کہلاتا ہے ۔
یہ ساتھ نبھانے والی محبت دل کے دریچوں کو جھنجوڑ ڈالتی ہے ۔محبتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ امر ہونے والی
۔کتنی پیاری لگتی ہے وہ محبت جو پاکیزہ خوبصورت اور شفاف
ہو ۔ لیکن سنتے ہیں کہ محبت کا مفہوم آہستہ آہستہ بدل گیا ہے
نوجوانوں کے دل بغیر کسی رشتے کے دھڑکتے ہوں تو ایک دن انکے لیے مخصوص کیا جائے جس دن انھیں محبت کو بدنام کرنے کی آزادی ملے اور اگلے دن وہ چاہے ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوں یا خود چھپ جاتے ہوں ۔
شاید محبت اب آخری سانس تک ساتھ نبھادینے کا نام نہیں رہا ۔
ایک کہانی وہ بھی تو تھی
جس میں ایک گناہ وقوع پذیر ہوا اور جب لوگوں کو علم ہوا تو گناہ کی پاداش میں سزا دی گئی ۔محبت کو بھی مادی شے سمجھنے والے جنونی اس انجام سے خوش نہیں تھے احتجاجاً اس دن کو محبت کے نام سے منانے لگے ۔اب سنتے ہیں محبت فقط مادی شے بن کر رہ گئی ہے ۔ اسکی اجازت نہیں ملتی تو واویلا کرنے والوں میں نام لکھوا لیں ۔
پوری زندگی نباہ کرنے کی انتہائی مشقت والی محبت کی نسبت ایک دن کے عیش والی محبت کو زندگی جان لینا بے وقوفی تو ہوسکتی ہے محبت نہیں ۔
محبتوں کو دنوں سے منسوب کر لینا خود محبت کے جذبے کی توہین ہے ۔
یہ دن محبت کے متوالوں کے نام نہیں بلکہ بے مہار آزادی مانگنے والوں کے نام سے منسوب ہے ۔جنہیں جبلی تقاضے پورے کرنے کے لیے فقط ایک جسم کی ضرورت ہو ۔
کیا کوئی سلیم فطرت اسے محبت کا نام دے سکتا ہے؟ ؟
آپ ہی بتائیے
#سمیراامام
#سلیم_الفطرتی
انسان زندگی کے کسی بھی دور میں ہو محبت کی کشش اور محبت کا احساس اسے ہمیشہ مسحور کیے رکھتا ہے ۔
کوئی ایسا چاہنے والا جو آپکا خیال رکھتا ہے آپکی خوشی میں آپ ہی کی طرح کھل اٹھتا ہے اور آپکے غم میں آپکے دکھ کو محسوس کرتا ہے ۔ یہ احساس دنیا کے ہر خوبصورت احساس سے بڑھ کر ہے ۔
اظہار محبت کے بے پناہ طریقے بے بہا انداز شاعروں ادیبوں نے بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی ۔
لیکن محبت کی کچھ کہانیاں سن کر آپ کی آنکھیں یکدم نم ہو جاتی ہیں ۔ دل محبت کے جذبے کا معترف ہوجاتا ہے ۔ یہ وہی کہانیاں ہوتی ہیں جہاں محب اور محبوب دونوں حقیقت میں ایک دوسرے کا احساس کرنے والے ہوتے ہیں ۔
ہیر رانجھا ' سسی پنوں ' مرزا صاحباں کی محبت کی کہانیاں مجھے کبھی اپنا اسیر نہیں کر پائیں ۔
میرے خیال میں محبت سب سے پہلے انسان کو ضبط سکھاتی ہے ۔ نرمی اور حلاوت سے آشنائی کراتی ہے ۔ حیا کے خوبصورت رنگوں سے مزین کرتی ہے ۔ ایک دوسرے کا احساس سکھاتی ہے ۔
آپ کسی بندھن میں نہیں بندھے اور آہیں بھر بھر کے زندگی تمام کیے جا رہے ہیں ۔ نہ صرف یہ کہ آہیں بھریں بلکہ پورے زمانے میں رسوائی کا باب بن جائیں یہ محبت میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔
ایسی محبتوں کا انجام عموماً لڑائیوں گلوں شکووں کی صورت میں نکلتا ہے ۔ محبت اگر واویلا ہے تو محب اور محبوب کے ملنے پر یہ ماتم بن جاتا ہے ۔ محبت کی کہانی تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک محب اور محبوب زندگی کے سبھی رنگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہ جی لیں ۔
عامیانہ اور ظاہری محبت کی شادیوں کے بعد جب عملی زندگی کی حقیقتوں کا سامنا ہوتا ہے تو تمام خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں ۔ بارش ٹی وی کی اسکرین پہ تو خوبصورت لگ سکتی ہے لیکن گٹر کے ابلتے پانی سے پاؤں بچا کے چلنے ہوں یا اسی بارش میں گاڑیوں کے چھینٹوں سے بچنا ہو یا جا بجا کھڑے پانی سے اپنی گاڑی ہی بچا نی ہو تو بارش سے زیادہ فضول شے دنیا میں کوئی اور نہیں لگتی۔محبت میں جھک جانا ،محبوب کی مرضی کو اپنی مرضی جان لینا ان ماڈرن خواتین کے لیے انتہائی مشکل امر ہے جو کھانا گرم کرنے کو آزار سمجھتی ہوں اور جن کی زندگی کا ماٹو
"میری زندگی ،میری مرضی "
ہوتا ہو ۔
" زندگی کا ساتھی " خوبصورت اصطلاح ہے ۔ دنیا کا ہر انسان ایک ایسے ساتھ کو پا ناچاہتا ہے کہ جس کی معیت میں زندگی سکون اور خوشی سے بسر ہو ۔ جب جب زمانے کی تکلیفات کا سامنا کرنا پڑے تو وہ ساتھی آپکے حوصلے اور ہمت کو بندھانے والا ہو ۔ جب محبوب شوہر ایک خا ص عالم میں گھر میں داخل ہوتے ہیں ۔
اور زملونی ۔ زملونی ۔ کی پکار آتی ہے تو غمگسار بیوی کی غمگساری کا انداز سبھی کا دل موہ لیتا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیموں کا خیال رکھتے ہیں۔ شفیق ہیں مہربان ہیں۔بے کسوں کی مدد فرماتے ہیں اللہ آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
بیوی کی غمگساری کا یہ بہترین انداز ، شوہر پہ یقین کا یہ عالم کہ اسلام لانے والی پہلی خاتون بن جاتی ہیں اور جب آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے
خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کیسی محبت تھی
تو آپ جناب صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب دینا کہ "
رزقتُ حبھا
"مجھے انکی محبت رزق کے طور پہ دی گئی تھی ۔کیا محبت بھی رزق کے طور پہ دی جاتی ہے؟
ہاں محبت بھی رزق کے طور پہ ہوتی ہے ۔جب رفیقہ حیات وفات پاتی ہیں تو وہ سال غم کا سال کہلاتا ہے ۔
یہ ساتھ نبھانے والی محبت دل کے دریچوں کو جھنجوڑ ڈالتی ہے ۔محبتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ امر ہونے والی
۔کتنی پیاری لگتی ہے وہ محبت جو پاکیزہ خوبصورت اور شفاف
ہو ۔ لیکن سنتے ہیں کہ محبت کا مفہوم آہستہ آہستہ بدل گیا ہے
نوجوانوں کے دل بغیر کسی رشتے کے دھڑکتے ہوں تو ایک دن انکے لیے مخصوص کیا جائے جس دن انھیں محبت کو بدنام کرنے کی آزادی ملے اور اگلے دن وہ چاہے ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوں یا خود چھپ جاتے ہوں ۔
شاید محبت اب آخری سانس تک ساتھ نبھادینے کا نام نہیں رہا ۔
ایک کہانی وہ بھی تو تھی
جس میں ایک گناہ وقوع پذیر ہوا اور جب لوگوں کو علم ہوا تو گناہ کی پاداش میں سزا دی گئی ۔محبت کو بھی مادی شے سمجھنے والے جنونی اس انجام سے خوش نہیں تھے احتجاجاً اس دن کو محبت کے نام سے منانے لگے ۔اب سنتے ہیں محبت فقط مادی شے بن کر رہ گئی ہے ۔ اسکی اجازت نہیں ملتی تو واویلا کرنے والوں میں نام لکھوا لیں ۔
پوری زندگی نباہ کرنے کی انتہائی مشقت والی محبت کی نسبت ایک دن کے عیش والی محبت کو زندگی جان لینا بے وقوفی تو ہوسکتی ہے محبت نہیں ۔
محبتوں کو دنوں سے منسوب کر لینا خود محبت کے جذبے کی توہین ہے ۔
یہ دن محبت کے متوالوں کے نام نہیں بلکہ بے مہار آزادی مانگنے والوں کے نام سے منسوب ہے ۔جنہیں جبلی تقاضے پورے کرنے کے لیے فقط ایک جسم کی ضرورت ہو ۔
کیا کوئی سلیم فطرت اسے محبت کا نام دے سکتا ہے؟ ؟
آپ ہی بتائیے
#سمیراامام
#سلیم_الفطرتی