ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
سلیم شہزاد کے ناولوں کا سرسری جائزہ
دنیاے اردو ادب میں سلیم شہزاد یوں تو بنیادی طور پر ناقد اور محقق کے روپ میں مشہور و معروف ہیں ۔شہرِ ادب مالیگاؤں کے اس فن کا ر کو تنقید و تحقیق کے میدان میں جو امتیازی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ نقد و تحقیق کے ساتھ آپ نے اپنا اشہبِ فکر و نظر ناول نگاری کی طرف بھی کام یابی سے دوڑایاہے۔ جس طرح تنقید و تحقیق میں آپ کاا نداز جداگانہ نظر آتا ہے اُسی طرح ناول نگاری میں بھی آپ اپنے ہم عصروں میں الگ تھلگ لیکن نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔
آپ کے کئی ناول مختلف ماہ ناموں میں قسط وار شائع ہوکر مقبولیت پاچکے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ ’’دشتِ آدم‘‘- ’’ویر گاتھا‘‘- ’’ سانپ اور سیڑھیاں‘‘ جیسے ناول بہ صورتِ کتاب طبع ہوچکے ہیں ۔ مؤخر الذکر ناول ’’سانپ اور سیڑھیاں‘‘ جودھپور سے نکلنے والے ہندی رسالے ’’شیش‘‘میں دیوناگری رسم الخط میں قسط وار ہندی قارئین تک اپنی رسائی حاصل کرچکا ہے۔
’’دشتِ آدم‘‘ ٹیکنک اور اسلوبِ بیان کے اعتبار سے نثری بیانیہ کے جِلو میں کہیں کہیں نظم کی چھوٹی بڑی سطروں کا طلوع کرتے ہوئے دل چسپی کا سامان پیدا کرتا نظر آتا ہے۔ اس ناول کی لفظیات میں تنوع کے ساتھ اشکال اور شعریت کے اثرات نمایاں ہیں ۔ اس ’’دشت‘‘ کی سیاحی میں قاری ناول میں بیان کردہ موضوعات اور خیالات سے اپنا رشتہ قائم رکھنے میں کام یاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ ویسے افسانے اور شاعری کی ٹوٹتی حد بندیوں کے درمیان سلیم شہزاد کے اِس ناول کو نثر میں شعریت کے رچاو سے بھرپور ایک خوب صورت تجربہ قرار دینے میں ناقد کو تامل نہیں ہونا چاہیے۔
’’دشتِ آدم‘‘ کے بعد سلیم شہزاد کی ناول نگاری کا سلسلہ ’’ویر گاتھا‘‘ تک دراز ہوتا ہے ۔ جدید فکشن میں اظہار و بیان کے تجربے کو ناول کی نمایاں شناخت قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ سلیم شہزاد کا دوسرا ناول’’ ویر گاتھا‘‘ ناول کی روایتی ٹیکنک سے پرے اظہارِ خیال کی نئی لسانی تشکیل کے وسیلے سے اسلوب اور ٹیکنک کے تجربوں کی جدید روایت کا ایک اچھوتا حصہ نظر آتا ہے۔
’’ ویر گاتھا ‘‘ کا بنیادی موضوع ’’ جنگ‘‘ ہے۔ جسے ناول نگار نے مذہبی کتابوں، کلاسیکی رزمیوں، ادبی و فنی نمونوں اور تاریخِ عالم میں وقوع پذیر ہونے والے منظم و مسلح تصادمات ، حادثات و واقعات وغیرہ کو تخیلی بیانیہ کا رنگ دے کر بیان کرنے میں ممکن حد تک کام یابی حاصل کی ہے۔ ’’ ویرگاتھا‘‘ میں کیا گیا لسانی، ہیئتی اور اظہاری تجربہ اپنے عصر سے ہم آہنگ نہ ہونے یا پھر فی زمانہ زبان و پیرایۂ بیان اور لسانی تشکیل میں ہونے والی تبدیلیوں کی سطحی معلومات کے سبب بعض قارئین کو محض بے رَس ، مشکل اور اعداد و شمار کی روداد نظر آتا ہے۔ جب کہ اس تجرباتی ناول کو اگر تجرباتی لحاظ سے جانچا اور پرکھاجائے تو ناول کی ٹیکنک اور طرزِ اظہار میں ہونے والی نو بہ نو تبدیلیوں کے ضمن میں بہت سے نئے گوشے واہوسکتے ہیں۔
’’ دشتِ آدم‘‘ اور ’’ویر گاتھا‘‘ کے بعد سلیم شہزاد کا مرقومہ ’’سانپ اور سیڑھیاں‘‘ اپنے موضوع و مواد، زبان و بیان ، طرزِ اظہار اور ٹیکنک کے لحاظ سے دونوں ماقبل ناولوں سے آسان تر اور عصری حسیت سے ہم آہنگ اپنے عہد کا ترجمان ایک ایسا شاہ کار تمثیلی اورعلامتی اظہاریہ لیے ہوئے ہے جسے عصرِ رواں کا قاری پڑھتے ہوئے اپنے عہد میں پیش آنے والے حقیقی کرداروں ، واقعات و حادثات، سیاست کے گلیاروں میں ہونے والی سودے بازیوں ، سماج کے بہ ظاہر بااثر افرادکی ہوس ناکیوں، سیاسی بازی گروں کے ہاتھوں فن اور فن کاروں کی نیلامیوں، روز بہ روز ظاہر و باطن میں ہونے والی تخریبی تبدیلیوں اور زندگی میں بپا نا ختم ہونے والے مسلسل عروج و زوال کی کہانیوں کا ایک چلتا پھرتا خاکہ اپنی نظروں کے سامنے گردش کرتا ہوا دیکھتا ہے۔
’’ سانپ اور سیڑھیاں‘‘ یہ ایک ایسا تمثیلی سرنامہ ہے جو مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والے مسلسل عروج و زوال کا اشاریہ ہے۔ سانپ اور سیڑھی یہ ایک ایسا کھیل ہے جو ہر کھیلنے والے کو ہر لمحہ غیر یقینی عروج و زوال کی کیفیات میں مبتلا رکھتا ہے اور یہ سماج کے ہر طبقے کے ساتھ مشتر ک ہے۔ سلیم شہزاد نے اس ناول کے سہارے سیاسی نیتاوں کی ادبی دنیا میں گھس پیٹھ اور ادب کے گلیاروں میں اپنے فن بل کہ اپنے ضمیر کی سودے بازی کرنے والے ادیبوں اور فن کاروں پر علامتی نشتر چلائے ہیں۔ فسطائیت کے فروغ اور انسانیت کے مقابل حیوانیت کے ابلاغ کے لیے کس طرح اپنے فکر وفن کو سرِ عام فروخت کرتے ہوئے آج کے بعض ادیب اور فن کار مخربِ اخلاق حرکتوں پر اتر آتے ہیں ، اِن عناصر کو بڑی بے باکی سے بیان کرتے ہوئے ناول نگارسلیم شہزاد’’سانپ اور سیڑھیاں‘‘ کو عصری حسیت سے ہم رشتہ ایک سچا اظہاریہ بنانے میں کام یاب نظر آتے ہیں۔
سلیم شہزاد کایہ ناول بیانیہ ماحول کی واقعیت سے گریز نہیں کرتا ۔ اس کے کردار اپنے علاقے کی مخصوص زبان بولتے اور تہذیبی ، لسانی اور علاقائی غیر یکسانیت کے باوجود ایک ہمہ گیر گلوبل منظر نامے کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی سیاسی اتھل پتھل اوران پر غیرملکی اثرات کے اظہار میں سلیم شہزاد نے جو لسانیاتی تنوع اختیار کیا ہے وہ قاری کو متاثر کرتا ہے۔ ہندوستان کی علاقائی زبانوں اور بولیوں کی فن کارانہ اور ادیبانہ آمیزش سے ناول کا اسلوبیاتی پہلو دو چند ہوگیا ہے۔ چوں کہ سلیم شہزاد ’’شاعری اور افسانے کی علامتوں میں معنوی تفریق کے قائل ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اس ناول میں کہیں بھی علامتوں اور تمثیلوں کے انسلاک میں شعریت کا ہلکا پھلکا امتزاج بھی نظر نہیں آتا۔ ’’ دشتِ آدم‘‘ اور ’’ویرگاتھا‘‘ کی بہ نسبت اپنے عصر سے ہم رشتہ ’’سانپ اور سیڑھیاں‘‘ قاری کو نہ صرف اپنی طرف کشش کرنے میں کام یاب ہوتا نظر آتا ہے بل کہ اُسے اپنے عہد سے باخبر کرتا بھی دکھائی دیتاہے۔ (۱۰؍ دسمبر ۲۱۱ء بروزسنیچر)