کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام عليكم
استادِ محترم جناب الف عین سر ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔۔۔۔ محفل میں تمام دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ اپنے مشوروں اور تجاویز سے مستفید فرمائیں ۔۔۔
استادِ محترم جناب الف عین سر ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔۔۔۔ محفل میں تمام دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ اپنے مشوروں اور تجاویز سے مستفید فرمائیں ۔۔۔
بحر جمیل مثمن سالم
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
برے رویّے کے چبھتے کانٹے ہٹا کے رکھنا، کمال یہ ہے
سماعتوں میں شہد سے جملے دعا کے رکھنا کمال یہ ہے
قدم قدم پر یہاں پہ بُت ہیں، وہ بت جو بھٹکا دیں زاہدوں کو
بتوں سے ہٹ کر قدم جمانا، جما کے رکھنا، کمال یہ ہے
غموں کی فوجیں ہوں، دکھ کے نرغے میں، امتحانوں کا سلسلہ ہو
خدا سے اُس پر بھی اپنے مَن کو منا کے رکھنا، کمال یہ ہے
نظر پہ سجتی ہیں صورتیں دو، بچا کے رکھنا، جھکا کے چلنا
دل و زباں کو غلاظتوں سے بچا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوس کی فتنہ طرازیوں سے بچا کے دامن بڑے نگر میں
رویّے اکّیسویں صدی میں حیا کے رکھنا، کمال یہ ہے !
جو دوست معیار پر نہ اترے، جو آزمائش پہ لڑکھڑائے
اسے کشادہ دلی سے اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
غموں کی گھٹری اُٹھا کے محفل میں مسکرانا ہے پھر بھی ممکن
اگرچہ تنہائی میں بھی آنسو بچا کے رکھنا کمال یہ ہے
مقابلہ ہو شباب پر اور گرے جو کوئی، تو پھر اسی پل
مدد کو رکنا، مسابقت کو دبا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہزار مشکل ہو پھر بھی منزل پہ اپنی نظریں جمائے رکھنا
اخیر تک اپنے حوصلے ابتدا کے رکھنا، کمال یہ ہے
قدم کے پیچھے قدم کو رکھ کر چلو تو آسان ہی ہے سب کچھ
نئی ڈگر پر نئے قدم ابتدا کے رکھنا، کمال یہ ہے
گزر گئے ہیں جو دَور مشکل وہ ایک حصّہ تھے تربیت کا
انھیں بھی کاشف سمجھ کے عطیے خدا کے رکھنا، کمال یہ ہے!
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
برے رویّے کے چبھتے کانٹے ہٹا کے رکھنا، کمال یہ ہے
سماعتوں میں شہد سے جملے دعا کے رکھنا کمال یہ ہے
قدم قدم پر یہاں پہ بُت ہیں، وہ بت جو بھٹکا دیں زاہدوں کو
بتوں سے ہٹ کر قدم جمانا، جما کے رکھنا، کمال یہ ہے
غموں کی فوجیں ہوں، دکھ کے نرغے میں، امتحانوں کا سلسلہ ہو
خدا سے اُس پر بھی اپنے مَن کو منا کے رکھنا، کمال یہ ہے
نظر پہ سجتی ہیں صورتیں دو، بچا کے رکھنا، جھکا کے چلنا
دل و زباں کو غلاظتوں سے بچا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوس کی فتنہ طرازیوں سے بچا کے دامن بڑے نگر میں
رویّے اکّیسویں صدی میں حیا کے رکھنا، کمال یہ ہے !
جو دوست معیار پر نہ اترے، جو آزمائش پہ لڑکھڑائے
اسے کشادہ دلی سے اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
غموں کی گھٹری اُٹھا کے محفل میں مسکرانا ہے پھر بھی ممکن
اگرچہ تنہائی میں بھی آنسو بچا کے رکھنا کمال یہ ہے
مقابلہ ہو شباب پر اور گرے جو کوئی، تو پھر اسی پل
مدد کو رکنا، مسابقت کو دبا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہزار مشکل ہو پھر بھی منزل پہ اپنی نظریں جمائے رکھنا
اخیر تک اپنے حوصلے ابتدا کے رکھنا، کمال یہ ہے
قدم کے پیچھے قدم کو رکھ کر چلو تو آسان ہی ہے سب کچھ
نئی ڈگر پر نئے قدم ابتدا کے رکھنا، کمال یہ ہے
گزر گئے ہیں جو دَور مشکل وہ ایک حصّہ تھے تربیت کا
انھیں بھی کاشف سمجھ کے عطیے خدا کے رکھنا، کمال یہ ہے!
آخری تدوین: