اختر شیرانی سمجھتا ہوں میں سب کچھ، صرف سمجھانا نہیں‌آتا - اختر شیرانی

کاشفی

محفلین
غزل
(اختر شیرانی)

سمجھتا ہوں میں سب کچھ، صرف سمجھانا نہیں‌آتا
تڑپتا ہوں مگر اَوروں کو تڑپانا نہیں آتا

مرے اشعار مثلِ آئینہ شفاف ہوتے ہیں
مجھے مفہوم کو لفظوں میں اُلجھانا نہیں‌ آتا

میں اپنی مشکلوں کو دعوتِ پیکار دیتا ہوں
مجھے یُوں عاجزی کے ساتھ غم کھانا نہیں آتا

میں ناکامِ مسّرت ہوں مگر ہنستا ہی رہتا ہوں
کروں کیا مجھ کو قبل از موت مر جانا نہیں آتا

یہ میری زیست خود اک مستقل طوفان ہے اختر
مجھے اِن غم کے طوفانوں سے گھبرانا نہیں آتا

(کاشفی کی پسندیدہ شاعری)
 

کاشفی

محفلین
دل پاکستانی صاحب۔۔۔

عمران شناور صاحب۔۔

شاہ صاحب۔۔

سخنور صاحب۔۔۔

ظفری صاحب۔۔۔

آپ سب کا بیحد شکریہ۔۔
 

کاشفی

محفلین
غزل
(اختر شیرانی)
سمجھتا ہوں میں سب کچھ، صرف سمجھانا نہیں‌آتا
تڑپتا ہوں مگر اَوروں کو تڑپانا نہیں آتا

مرے اشعار مثلِ آئینہ شفاف ہوتے ہیں
مجھے مفہوم کو لفظوں میں اُلجھانا نہیں‌ آتا

میں اپنی مشکلوں کو دعوتِ پیکار دیتا ہوں
مجھے یُوں عاجزی کے ساتھ غم کھانا نہیں آتا

میں ناکامِ مسّرت ہوں مگر ہنستا ہی رہتا ہوں
کروں کیا مجھ کو قبل از موت مر جانا نہیں آتا

یہ میری زیست خود اک مستقل طوفان ہے اختر
مجھے اِن غم کے طوفانوں سے گھبرانا نہیں آتا
 

منذر رضا

محفلین
محمد وارث اور کاشفی صاحبان۔اگر میں غلط نہیں تو یہ غالباً میرزا یاس یگانہ چنگیزی صاحب کی غزل پر تضمین ہے، جس کا مطلع کچھ یوں ہے:
مجھے دل کی خطا پر یاس، شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
 
Top