طارق شاہ
محفلین
غزلِ
اکبر الٰہ آبادی
سمجھے وہی اِس کو جو ہو دِیوانہ کسی کا
اکبر، یہ غزل میری ہے افسانہ کسی کا
گر شیخ و برہمن سُنیں افسانہ کسی کا
معبد نہ رہیں کعبہ و بُتخانہ کسی کا
اﷲ نے دی ہے جو تمھیں چاند سی صُورت
روشن بھی کرو جا کے سیہ خانہ کسی کا
اشک آنکھوں میں آ جائیں عِوضِ نیند کے صاحب
ایسا بھی کسی شب سُنو افسانہ کسی کا
عشرت جو نہیں آتی مِرے دل میں، نہ آئے
حسرت ہی سے آباد ہے ویرانہ کسی کا
کرنے جو نہیں دیتے بیاں حالتِ دِل کو
سُنیے گا لبِ غور سے افسانہ کسی کا
کوئی نہ ہُوا رُوح کا ساتھی دمِ آخر
کام آیا نہ اُس وقت میں، یارانہ کسی کا
ہم جان سے بے زار رہا کرتے ہیں، اکبر
جب سے دلِ بیتاب ہے دِیوانہ کسی کا
اکبر الٰہ آبادی
اکبر الٰہ آبادی
سمجھے وہی اِس کو جو ہو دِیوانہ کسی کا
اکبر، یہ غزل میری ہے افسانہ کسی کا
گر شیخ و برہمن سُنیں افسانہ کسی کا
معبد نہ رہیں کعبہ و بُتخانہ کسی کا
اﷲ نے دی ہے جو تمھیں چاند سی صُورت
روشن بھی کرو جا کے سیہ خانہ کسی کا
اشک آنکھوں میں آ جائیں عِوضِ نیند کے صاحب
ایسا بھی کسی شب سُنو افسانہ کسی کا
عشرت جو نہیں آتی مِرے دل میں، نہ آئے
حسرت ہی سے آباد ہے ویرانہ کسی کا
کرنے جو نہیں دیتے بیاں حالتِ دِل کو
سُنیے گا لبِ غور سے افسانہ کسی کا
کوئی نہ ہُوا رُوح کا ساتھی دمِ آخر
کام آیا نہ اُس وقت میں، یارانہ کسی کا
ہم جان سے بے زار رہا کرتے ہیں، اکبر
جب سے دلِ بیتاب ہے دِیوانہ کسی کا
اکبر الٰہ آبادی