حسان خان
لائبریرین
گورِ امیر کے نام سے مشہور عمارت ازبکستان کے بیش قیمت تاریخی آثار میں سے ایک اور تیمور لنگ سے پیوستگی رکھنے کی وجہ سے سمرقند کے معماری گنجینے کی سب سے معروف یادگار ہے۔ یہ عمارت ۸۰۷ ہجری میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس عمارت کا گنبد اور اندرونی حصہ ایرانی کاشی کاری سے مزین ہے۔
اولاً امیر تیمور نے اس مقبرے کی تعمیر کا فرمان ۱۴۰۳ء میں وفات پانے والے اپنے محبوب بھتیجے محمد سلطان کی یاد میں جاری کیا تھا۔ تیمور نے ۱۴۰۵ء میں اپنی وفات تک اس عمارت کی تعمیر کی نگرانی کی۔ بعدازاں، اس عمارت نے ایک خاندانی مقبرے کی شکل اختیار کر لی جس میں تیموری سلسلے کے اکثر سلاطین مدفون ہیں۔
پندرہویں صدی عیسوی کے اواسط تک اس عمارت کی توسیع ہوتی رہی۔ مسجد نما یہ عمارت اپنے گنبد، دیواروں پر ہونے والی اعلیٰ معیار کی کاشی کاری، نیز لکڑیوں اور مرمر پر موجود عمدہ نقش و نگار کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔
خاندانی مقبرہ ہونے کی وجہ سے تیموری خاندان اس عمارت کی جانب بہت توجہ دیا کرتا تھا۔ اسی لیے اُنہوں نے ایران کے مشہور معمار عبداللہ بن محمد بن محمود اصفہانی کو اس عمارت پر کام کرنے کے لیے اصفہان سے سمرقند بلایا تھا۔
یہاں تیمور اور حافظ شیرازی کے درمیان ہونے والی ملاقات کی حکایت کا ذکر کرنا لطف سے خالی نہیں ہو گا۔ کہتے ہیں کہ جب ۷۸۵ ہجری میں تیمور نے فارس کو مسخر کیا تو اُس نے حافظ کو بلایا اور کہا کہ اے خواجۂ شیراز، میں نے آبدار شمشیر کی ضرب سے ہزاروں ولایتیں ویران کی ہیں تاکہ سمرقند اور بخارا کو آباد کر سکوں، اور تم اپنے شعر میں ایک تُرکِ شیرازی کے خال کے عوض سمرقند اور بخارا کو مفت بخش رہے ہو؟ خواجہ حافظ شیرازی نے کہا کہ اے سلطانِ عالم! میں اسی فیاضی کی وجہ سے تو آج کنگال ہو گیا ہوں۔
اگر آن تُرکِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بہ خالِ ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
سیدہ شگفتہ سارہ خان
اولاً امیر تیمور نے اس مقبرے کی تعمیر کا فرمان ۱۴۰۳ء میں وفات پانے والے اپنے محبوب بھتیجے محمد سلطان کی یاد میں جاری کیا تھا۔ تیمور نے ۱۴۰۵ء میں اپنی وفات تک اس عمارت کی تعمیر کی نگرانی کی۔ بعدازاں، اس عمارت نے ایک خاندانی مقبرے کی شکل اختیار کر لی جس میں تیموری سلسلے کے اکثر سلاطین مدفون ہیں۔
پندرہویں صدی عیسوی کے اواسط تک اس عمارت کی توسیع ہوتی رہی۔ مسجد نما یہ عمارت اپنے گنبد، دیواروں پر ہونے والی اعلیٰ معیار کی کاشی کاری، نیز لکڑیوں اور مرمر پر موجود عمدہ نقش و نگار کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔
خاندانی مقبرہ ہونے کی وجہ سے تیموری خاندان اس عمارت کی جانب بہت توجہ دیا کرتا تھا۔ اسی لیے اُنہوں نے ایران کے مشہور معمار عبداللہ بن محمد بن محمود اصفہانی کو اس عمارت پر کام کرنے کے لیے اصفہان سے سمرقند بلایا تھا۔
یہاں تیمور اور حافظ شیرازی کے درمیان ہونے والی ملاقات کی حکایت کا ذکر کرنا لطف سے خالی نہیں ہو گا۔ کہتے ہیں کہ جب ۷۸۵ ہجری میں تیمور نے فارس کو مسخر کیا تو اُس نے حافظ کو بلایا اور کہا کہ اے خواجۂ شیراز، میں نے آبدار شمشیر کی ضرب سے ہزاروں ولایتیں ویران کی ہیں تاکہ سمرقند اور بخارا کو آباد کر سکوں، اور تم اپنے شعر میں ایک تُرکِ شیرازی کے خال کے عوض سمرقند اور بخارا کو مفت بخش رہے ہو؟ خواجہ حافظ شیرازی نے کہا کہ اے سلطانِ عالم! میں اسی فیاضی کی وجہ سے تو آج کنگال ہو گیا ہوں۔
اگر آن تُرکِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بہ خالِ ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
سیدہ شگفتہ سارہ خان
آخری تدوین: