باذوق
محفلین
مولانا اعظم ہاشمی کی داستانِ ہجرت (ترکستان تا پاکستان) بعنوان "سمرقند و بخارا کی خونیں سرگذشت" کتابی شکل میں سن 1969ء میں شائع ہوئی تھی جس کا تعارف مولانا مرحوم کے پوتے کفایت ہاشمی نے اردو محفل فورم پر یہاں کروایا ہے۔
یہ دلچسپ کتاب جو کہ دراصل تاریخ کا ایک باب بھی ہے ، archive.org پر پی۔ڈی۔ایف شکل میں موجود ہے۔
کتاب کے شروعاتی صفحات ہی سے طرز تحریر کا سحر طاری ہونے لگتا ہے۔ جبکہ اس کتاب کے سال اشاعت (1969ء) سے اندازہ ہوا تھا کہ قدیم اردو ہوگی مگر بہرحال اتنی قدیم تو نہیں ہے۔
اس کتاب کا پہلا باب میں نے ابھی ابھی کمپوز کیا ہے۔ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
***
وہ رات مجھے مرتے دم تک نہ بھولے گی۔
38 برس گزر چکے ہیں ، لیکن آج بھی اس رات کا ایک ایک لمحہ میرے ذہن کی تختی پر نقش ہے۔ شب و روز کی ہزاروں گردشوں کے باوجود اس رات کی یادوں کی چمک دمک میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امی جان احاطے کی دیوار کے پاس کھڑیں مجھے رخصت کر رہی ہیں اور فرما رہی ہیں :
"بیٹے ، اللہ تمہارا حافظ و نگراں ہو ، میری نصیحتوں کو مت بھولنا ، ورنہ میں تم سے خوش نہ ہوں گی۔"
یہ 1931ء کا ذکر ہے۔ آخر فروری یا شروع مارچ کی کوئی تاریخ تھی ، میں اپنے گھر میں کھلاوت (ترکی پلنگ) پر پڑا سو رہا تھا کہ امی جان نے مجھے آہستہ سے جھنجھوڑ کر جگایا۔ میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ فوراً ہی سارا معاملہ میری سمجھ میں آ گیا۔ وہ گھڑی آ پہنچی تھی جس کے لیے ہم ماں بیٹا کئی دنوں سے صلاح مشورہ کر رہے تھے۔
"بیٹا ، اٹھو وضو کرو۔" امی جان نے کہا۔
یہ کہہ کر وہ مڑیں اور کوزے میں پانی بھرنے لگیں۔ میں نے طہارت سے فارغ ہر کر وضو کیا، پھر خود امی جان نے بھی وضو کیا۔ اب ہم دونوں ماں بیٹا بارگاہ ایزدی میں جھک گئے ، دوگانہ ادا کیا ، امی جان نے اوراد و وضائف پڑھ کر مجھ پر پھونکا ، پھر باورچی خانے میں چلی گئیں۔ کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد دسترخوان اٹھائے تشریف لائیں۔ ایک ہاتھ میں بٹیر کے سیخ کباب تھے۔ ایک کباب اپنے ہاتھ سے کھلایا۔ کھانا کھا چکا ، تو کہنے لگیں :
"میرے جگر گوشے ، اٹھو اور اپنے معصوم بھائی بہنوں کا آخری زندہ دیدار کر لو۔"
میں بڑھ کر ان کی چارپائی کے قریب پہنچا۔ کم سن معصوم فرشتے دنیا جہاں سے بےخبر پڑے سو رہے تھے۔ معصومیت کی لو ان کے چہروں پر دمک رہی تھی۔ میں نے باری باری ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے خیر و عافیت کی دعا مانگی۔ وہ وقت میرے لیے بےحد صبر آزما تھا۔ محبت اور شفقت کے سوتے میرے دل کی گہرائیوں سے ابلنے لگے۔
"اب میں اپنے بھائی بہنوں کو شاید کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔" میں نے سوچا۔
معاً میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے جنہیں میں نے پلکوں ہی پلکوں میں خشک کرنے کی کوشش کی۔ امی جان تھیں تو 65 برس کی، لیکن جوانوں سے زیادہ باہمت تھیں۔ کچھ دیر تک دم سادھے میری طرف دیکھتی رہیں، پھر بولیں :
"آؤ بیٹا"۔۔۔
ان کی آواز میں ہلکا سا ارتعاش تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا وہ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا تکیہ نما بستر اٹھایا اور چل پڑیں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ کمرے سے نکل کر ہم صحن میں پہنچے ، صحن سے باغیچے کا رخ کیا، باغیچے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئے۔ اب ہم کھلے آسمان کے نیچے درختوں اور پودوں کے درمیان کھڑے تھے۔ امی جان نے میری پیشانی چومی اور فرمایا :
"بیٹے ، تم میرے بڑھاپے کا سہارا اور امیدوں کا مرکز ہو ، مگر جیسا کہ دیکھ رہے ہو ، تم وطن عزیز میں رہ کر ایک مسلمان کی حیثیت سے میری خدمت نہیں کر سکتے ، چنانچہ میں تمہیں دین و ایمان اور وطن عزیز کی خاطر کسی آزاد ملک میں چلے جانے کی اجازت دیتی ہوں ، البتہ ایک شرط ہے ، وہ یہ کہ جہاں تک ممکن ہو ، ترکستان کے مسلمانوں کی بےبسی اور دین کی بےحرمتی کی خبر تمام مسلمانوں اور آزاد قوموں تک پہنچا دو۔ بیٹے ، میں نے وضو کیے بغیر تمہیں کبھی دودھ نہیں پلایا۔ اگر تم نے اس مقصد کو فراموش کر دیا ، تو میں کبھی راضی نہ ہوں گی۔ انسان کا مجدد شرف یہ ہے کہ وہ اپنے قول و قرار کا پابند رہے۔"
پھر امی جان نے مجھے وہ چھوٹا سا تکیہ نما بستر دیا، کوئی دو سیر وزن ہوگا، کہنے لگیں :
"اس کی حفاظت کرنا۔ بالخصوص اس کے اندر جو قرآن کریم ہے ، اسے حرز جاں بنا کر رکھنا۔ منزل مقصود پر پہنچ جاؤ ، تو اس کی موجودہ جلد اتار کر نئی بنوا لینا۔ پرانے گتے کو اپنے ہاتھ سے توڑنا اور پھر اسے جلا ڈالنا اور راکھ کسی دریا یا کنویں میں ڈال دینا۔"
مزید تاکید کے طور پر فرمایا :
"دیکھو ، تمہیں کوئی چیز اپنے پیدائشی وطن سے غافل نہ کرے ، ہمدردوں کی ہمدردی فراموش نہ کرنا۔ جو تمہارے خدا کا دشمن اور ملک کا غاصب ہے وہ کبھی تمہارا دوست اور بہی خواہ نہیں ہو سکتا۔ بزدل انسان اپنی منزل مقصود سے محروم رہتا ہے۔ موت ایک بار آئے گی۔ ایمان سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ مرد اپنے قول سے نہیں پھرتے۔ جو شخص ان تین باتوں کو نظرانداز کر دیتا ہے ، اس کا وجود کوڑی کا نہیں رہتا۔"
امی جان دیر تک پند و نصیحت کرتی رہیں۔ کوئی تین سوا تین کا عمل ہوگا ، پچھلے پہر کے سناٹے میں کبھی کبھار کسی مرغ کی بانگ سنائی دیتی۔ چاندنی چٹکی ہوئی تھی ، درختوں کے سائے پھیلتے جا رہے تھے۔ باغیچے سے گزر کر ہم احاطے کی دیوار کے نیچے پہنچے۔ امی جان نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی ، پھر میرے سر پر دست شفقت پھیرا اور کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا :
"جاؤ بیٹا ، اللہ تمہارا ساتھی اور مددگار ہے"۔
میں نے ایک آخری نظر اپنے باغ اور گھر پر ڈالی۔ اس باغ میں کتنے ہی پودے میں نے اپنے ہاتھ سے لگائے تھے اور انہیں خون اور پسینے سے سینچا تھا۔ اس گھر میں میں پیدا ہوا ، پلا ، بڑھا اور پروان چڑھا ، وہ گھر جو ہماری صدیوں کی خاندانی روایات کا امین تھا ، جس کے ایک ایک پتھر سے ماضی کی داستانیں اور میرے اپنے بچپن کی یادیں وابستہ تھیں۔ میں نے ٹھنڈی سانس بھری۔ امی جان کو سلام عرض کیا ، دیوار پر چڑھا اور باہر کود گیا۔ ہمارے باغیچے اور بڑی سڑک کے درمیان قبرستان تھا۔ قبرستان میں ہو کا عالم تھا۔ شکستہ قبریں اور اونچے نیچے مٹی کے ڈھیر دیکھ کر ہول سا طاری ہو گیا ، تاہم دل کڑا کر کے قبرستان میں داخل ہوا۔ ہاتھ میں امی جان کا دیا ہوا عطیہ تھا۔ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ باغیچے میں سے ایک لمبی "ہو" کی آواز آئی۔ فوراً پلٹا اور باغ میں آیا۔ امی جان دیوار کے نیچے بےہوش پڑی تھیں۔ منہ پر پانی چھڑکا ، تو آنکھیں کھول دیں۔ مجھے اپنے پاس دیکھ کر کہا :
"تم واپس کیوں آ گئے؟ اپنی منزل کھوٹی نہ کرو ، ہمارا نگہان وہ قادر و توانا ہے جس کے وجود پر یقین ہر ذی علم کا سرمایۂ زندگی ہے۔"
میں باغ سے نکلا اور نامعلوم منزل کی طرف چل پڑا۔
***