سمرقند و بخارا کی خونیں سرگذشت : باب اول

باذوق

محفلین
مولانا اعظم ہاشمی کی داستانِ ہجرت (ترکستان تا پاکستان) بعنوان "سمرقند و بخارا کی خونیں سرگذشت" کتابی شکل میں سن 1969ء میں شائع ہوئی تھی جس کا تعارف مولانا مرحوم کے پوتے کفایت ہاشمی نے اردو محفل فورم پر یہاں کروایا ہے۔
یہ دلچسپ کتاب جو کہ دراصل تاریخ کا ایک باب بھی ہے ، archive.org پر پی۔ڈی۔ایف شکل میں موجود ہے۔

کتاب کے شروعاتی صفحات ہی سے طرز تحریر کا سحر طاری ہونے لگتا ہے۔ جبکہ اس کتاب کے سال اشاعت (1969ء) سے اندازہ ہوا تھا کہ قدیم اردو ہوگی مگر بہرحال اتنی قدیم تو نہیں ہے۔
اس کتاب کا پہلا باب میں نے ابھی ابھی کمپوز کیا ہے۔ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

***
وہ رات مجھے مرتے دم تک نہ بھولے گی۔
38 برس گزر چکے ہیں ، لیکن آج بھی اس رات کا ایک ایک لمحہ میرے ذہن کی تختی پر نقش ہے۔ شب و روز کی ہزاروں گردشوں کے باوجود اس رات کی یادوں کی چمک دمک میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امی جان احاطے کی دیوار کے پاس کھڑیں مجھے رخصت کر رہی ہیں اور فرما رہی ہیں :
"بیٹے ، اللہ تمہارا حافظ و نگراں ہو ، میری نصیحتوں کو مت بھولنا ، ورنہ میں تم سے خوش نہ ہوں گی۔"

یہ 1931ء کا ذکر ہے۔ آخر فروری یا شروع مارچ کی کوئی تاریخ تھی ، میں اپنے گھر میں کھلاوت (ترکی پلنگ) پر پڑا سو رہا تھا کہ امی جان نے مجھے آہستہ سے جھنجھوڑ کر جگایا۔ میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ فوراً ہی سارا معاملہ میری سمجھ میں آ گیا۔ وہ گھڑی آ پہنچی تھی جس کے لیے ہم ماں بیٹا کئی دنوں سے صلاح مشورہ کر رہے تھے۔
"بیٹا ، اٹھو وضو کرو۔" امی جان نے کہا۔
یہ کہہ کر وہ مڑیں اور کوزے میں پانی بھرنے لگیں۔ میں نے طہارت سے فارغ ہر کر وضو کیا، پھر خود امی جان نے بھی وضو کیا۔ اب ہم دونوں ماں بیٹا بارگاہ ایزدی میں جھک گئے ، دوگانہ ادا کیا ، امی جان نے اوراد و وضائف پڑھ کر مجھ پر پھونکا ، پھر باورچی خانے میں چلی گئیں۔ کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد دسترخوان اٹھائے تشریف لائیں۔ ایک ہاتھ میں بٹیر کے سیخ کباب تھے۔ ایک کباب اپنے ہاتھ سے کھلایا۔ کھانا کھا چکا ، تو کہنے لگیں :
"میرے جگر گوشے ، اٹھو اور اپنے معصوم بھائی بہنوں کا آخری زندہ دیدار کر لو۔"
میں بڑھ کر ان کی چارپائی کے قریب پہنچا۔ کم سن معصوم فرشتے دنیا جہاں سے بےخبر پڑے سو رہے تھے۔ معصومیت کی لو ان کے چہروں پر دمک رہی تھی۔ میں نے باری باری ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے خیر و عافیت کی دعا مانگی۔ وہ وقت میرے لیے بےحد صبر آزما تھا۔ محبت اور شفقت کے سوتے میرے دل کی گہرائیوں سے ابلنے لگے۔
"اب میں اپنے بھائی بہنوں کو شاید کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔" میں نے سوچا۔
معاً میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے جنہیں میں نے پلکوں ہی پلکوں میں خشک کرنے کی کوشش کی۔ امی جان تھیں تو 65 برس کی، لیکن جوانوں سے زیادہ باہمت تھیں۔ کچھ دیر تک دم سادھے میری طرف دیکھتی رہیں، پھر بولیں :
"آؤ بیٹا"۔۔۔
ان کی آواز میں ہلکا سا ارتعاش تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا وہ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا تکیہ نما بستر اٹھایا اور چل پڑیں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ کمرے سے نکل کر ہم صحن میں پہنچے ، صحن سے باغیچے کا رخ کیا، باغیچے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئے۔ اب ہم کھلے آسمان کے نیچے درختوں اور پودوں کے درمیان کھڑے تھے۔ امی جان نے میری پیشانی چومی اور فرمایا :
"بیٹے ، تم میرے بڑھاپے کا سہارا اور امیدوں کا مرکز ہو ، مگر جیسا کہ دیکھ رہے ہو ، تم وطن عزیز میں رہ کر ایک مسلمان کی حیثیت سے میری خدمت نہیں کر سکتے ، چنانچہ میں تمہیں دین و ایمان اور وطن عزیز کی خاطر کسی آزاد ملک میں چلے جانے کی اجازت دیتی ہوں ، البتہ ایک شرط ہے ، وہ یہ کہ جہاں تک ممکن ہو ، ترکستان کے مسلمانوں کی بےبسی اور دین کی بےحرمتی کی خبر تمام مسلمانوں اور آزاد قوموں تک پہنچا دو۔ بیٹے ، میں نے وضو کیے بغیر تمہیں کبھی دودھ نہیں پلایا۔ اگر تم نے اس مقصد کو فراموش کر دیا ، تو میں کبھی راضی نہ ہوں گی۔ انسان کا مجدد شرف یہ ہے کہ وہ اپنے قول و قرار کا پابند رہے۔"
پھر امی جان نے مجھے وہ چھوٹا سا تکیہ نما بستر دیا، کوئی دو سیر وزن ہوگا، کہنے لگیں :
"اس کی حفاظت کرنا۔ بالخصوص اس کے اندر جو قرآن کریم ہے ، اسے حرز جاں بنا کر رکھنا۔ منزل مقصود پر پہنچ جاؤ ، تو اس کی موجودہ جلد اتار کر نئی بنوا لینا۔ پرانے گتے کو اپنے ہاتھ سے توڑنا اور پھر اسے جلا ڈالنا اور راکھ کسی دریا یا کنویں میں ڈال دینا۔"
مزید تاکید کے طور پر فرمایا :
"دیکھو ، تمہیں کوئی چیز اپنے پیدائشی وطن سے غافل نہ کرے ، ہمدردوں کی ہمدردی فراموش نہ کرنا۔ جو تمہارے خدا کا دشمن اور ملک کا غاصب ہے وہ کبھی تمہارا دوست اور بہی خواہ نہیں ہو سکتا۔ بزدل انسان اپنی منزل مقصود سے محروم رہتا ہے۔ موت ایک بار آئے گی۔ ایمان سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ مرد اپنے قول سے نہیں پھرتے۔ جو شخص ان تین باتوں کو نظرانداز کر دیتا ہے ، اس کا وجود کوڑی کا نہیں رہتا۔"

امی جان دیر تک پند و نصیحت کرتی رہیں۔ کوئی تین سوا تین کا عمل ہوگا ، پچھلے پہر کے سناٹے میں کبھی کبھار کسی مرغ کی بانگ سنائی دیتی۔ چاندنی چٹکی ہوئی تھی ، درختوں کے سائے پھیلتے جا رہے تھے۔ باغیچے سے گزر کر ہم احاطے کی دیوار کے نیچے پہنچے۔ امی جان نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی ، پھر میرے سر پر دست شفقت پھیرا اور کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا :
"جاؤ بیٹا ، اللہ تمہارا ساتھی اور مددگار ہے"۔

میں نے ایک آخری نظر اپنے باغ اور گھر پر ڈالی۔ اس باغ میں کتنے ہی پودے میں نے اپنے ہاتھ سے لگائے تھے اور انہیں خون اور پسینے سے سینچا تھا۔ اس گھر میں میں پیدا ہوا ، پلا ، بڑھا اور پروان چڑھا ، وہ گھر جو ہماری صدیوں کی خاندانی روایات کا امین تھا ، جس کے ایک ایک پتھر سے ماضی کی داستانیں اور میرے اپنے بچپن کی یادیں وابستہ تھیں۔ میں نے ٹھنڈی سانس بھری۔ امی جان کو سلام عرض کیا ، دیوار پر چڑھا اور باہر کود گیا۔ ہمارے باغیچے اور بڑی سڑک کے درمیان قبرستان تھا۔ قبرستان میں ہو کا عالم تھا۔ شکستہ قبریں اور اونچے نیچے مٹی کے ڈھیر دیکھ کر ہول سا طاری ہو گیا ، تاہم دل کڑا کر کے قبرستان میں داخل ہوا۔ ہاتھ میں امی جان کا دیا ہوا عطیہ تھا۔ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ باغیچے میں سے ایک لمبی "ہو" کی آواز آئی۔ فوراً پلٹا اور باغ میں آیا۔ امی جان دیوار کے نیچے بےہوش پڑی تھیں۔ منہ پر پانی چھڑکا ، تو آنکھیں کھول دیں۔ مجھے اپنے پاس دیکھ کر کہا :
"تم واپس کیوں آ گئے؟ اپنی منزل کھوٹی نہ کرو ، ہمارا نگہان وہ قادر و توانا ہے جس کے وجود پر یقین ہر ذی علم کا سرمایۂ زندگی ہے۔"
میں باغ سے نکلا اور نامعلوم منزل کی طرف چل پڑا۔

***
 

باذوق

محفلین
مولانا اعظم ہاشمی کی داستانِ ہجرت (ترکستان تا پاکستان) بعنوان "سمرقند و بخارا کی خونیں سرگذشت" کتابی شکل میں سن 1969ء میں شائع ہوئی تھی جس کا تعارف مولانا مرحوم کے پوتے کفایت ہاشمی نے اردو محفل فورم پر یہاں کروایا ہے۔
پتا نہیں لنک کیوں نہیں لگ سکا؟
کفایت ہاشمی صاحب کے تعارفی دھاگے کا ربط یہ رہا :
من این حروف نویستم ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
 
مولانا اعظم ہاشمی کی داستانِ ہجرت (ترکستان تا پاکستان) بعنوان "سمرقند و بخارا کی خونیں سرگذشت" کتابی شکل میں سن 1969ء میں شائع ہوئی تھی جس کا تعارف مولانا مرحوم کے پوتے کفایت ہاشمی نے اردو محفل فورم پر یہاں کروایا ہے۔

**
***
بہت خوب ۔۔ ماشاءاللہ ۔ آپ کا شکریہ
لیکن یہ تصحیح کرلیں کہ یہ ہجرت صرف ترکستان تا افغانستان ہے (اس سے آگے کی داستان حیات پر راقم کام کر رہا ہے ) اور کتاب 1969ء میں قسط وار شائع ہوئی تھی جبکہ کتابی شکل میں 1970ءمیں شائع ہوئی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
صفحہ 31 سے 34 تک کا متن
پیر افغانی حضرت سید جلال الدین ، ماموں حضرت سے بڑی پریشانی کے عالم میں رخصت ہوئے ، کہنے لگے : "میں کچھ مدت کے لیے بخارا جا نا چاہتا ہوں ، زندہ رہا تو واپسی پر ملاقات ہوگی" تقریبا ڈیڑھ مہینے کے بعد واپس آئے۔ انہوں نے صورت حال کا بنفسِ نفیس جائزہ لینے کے لیے بڑا لمبا دورہ کیا۔ شہر سبز سے کتاب اور کتاب سے کوہستانی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے درواز پہنے جو دریائے آمو کے منبع پر واقع ہے پھر حصار ، بالیسوں ، لنگراتا اور غذار ہوتے ہوئے قرشی گئے جس شہر اور بستی سے گزرے ، سوشلسٹوں کی اسلام دشمنی کی نئی داستان سنی۔ قرشی سے بخارا کا قصد کیا تو سوشلسٹ حکومت نے نہ جانے دیا ، چناچہ بخارا سے اپنے ایک معتمد ساتھی کو طلب کیا اور وہاں کے حالات سنے۔ ڈیڑھ ماہ کے اس دورے نے پیر افغانی کی آنکھیں کھول دیں۔ انہیں کمونسٹوں نے باور کرایا تھا کہ سوشلزم یا کمونزم محض ایک اقتصادی نظام ہے۔ مذہب سے انہیں کوئی دشمنی نہیں وہ توخلقِ خدا کو اقتصادی بدحالی سے نجات دلانا اور سرمایہ داری کو مٹانا چاہتے ہیں۔ سید جلال الدین اُن کے دامِ فریب میں گرفتار ہو گئے۔ مرید ان سے دریافت کرتے حضرت ، سوشلزم اور کمونزم کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ تو وہ یہی جواب دیتے کہ ان کا تعلق صرف مال و دولت کی مساوی تقسیم سے ہے ، مذہب سے اُن کا کوئی واسطہ نہیں۔ اب جو جگہ جگہ اپنی آنکھوں سے اسلام اور دیندار لوگوں کا حشر دیکھا ، تو کمونسٹوں کی اس فریب دہی پر اُن کا خون کھول اٹھا اور انہیں پتہ چلا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور۔ سوشلزم اور کمونزم ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ مارکسٹ نظریے کے مطابق خدا و مذہب کا تصور نہ صرف لغو ہے ، بلکہ انسان کے حق میں افیون کا کام کرتا ہے اور اس کا قلع قمع پارٹی کا اولین فرض ہے ، لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ کمونسٹ ان کی تائید و حمایت حاصل کر کے اپنے چُنگل ملتِ اسلامیہ ترکستان کے جسد میں بہت گہرے گاڑ چکے تھے۔ اب انہیں اپنے ملک افغانستان کی فکر دامنگیر ہوئی جہاں کمونزم کے گماشتے ان کے نام پر اپنی دسیسہ کاریوں میں مصروف تھے۔ انہوں نے افغانستان جانے کا فیصلہ کرلیا تا کہ وہاں کے مسلمانوں کو کمونسٹوں کے جعل و فریب سے آگاہ کر سکیں۔ جناچہ ماموں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس دورے میں جو کچھ آنکھوں سے دیکھا اور لوگوں سے سنا تھا بالتفصیل بیان کیا۔ مسلمانوں کی بیچارگی اور دینِ اسلام کی کس مپرسی کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی ، کہنے لگے
"حضرت ، ہجرت فرضِ عین ہوگئی ہے ، آپ بھی رختِ سفر باندھیں اور میرے ساتھ چلیں۔ آج تک آپ میری خاطر مدارت کرتے رہے ہیں،
اب میں آپ کی خدمت کروں گا۔"
ماموں حضرت بڑے سکوں سے پیر افغانی کی باتیں سنتے رہے ، پھر فرمایا:
ترکستان کے علما اور خواص فیصلہ کر چکے ہیں وہ ہجرت نہیں کریں گے اور آخر دم تک اُن کے ساتھ رہیں گے"
پیر افغانی نے ماموں حضرت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور روتے ہوئے بولے:
"اب میں اپنی زندگی مسلمان ملکوں کو اس خطرناک فتنے سے آگاہ کرنے کے لیے وقف کر دوں گا۔ سلام اللہ علیکم "
پیر افغانی رخصت ہوئے تو فضا بڑی بوجھل اور غمناک تھی۔
اس سارے عرصے میں میں شہر سبز ہی میں تیمیر بیگ کے پاس مقیم رہا ۔ حالات بظاہر معمول پر آگئے تھے۔ لوگ اطمینان سے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ ڈیڑھ دو ماہ پہلے کے خونیں واقعات ذہنوں سے محو ہو گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے خلافِ اسلام اقدامات محض اتفاقی حوادث تھے۔ ان کے پیچھے نہ تو کوئی سوچا سمجھا منصوبہ تھا اور نہ حکومت کا ہاتھ۔ سوشلسٹ حکومت نے مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے لیے چند غنڈوں کو شوریدہ سر قرار دے کر سخت ترین سزا دے دی تھی، بعض کو پھانسی پر لٹکا دیا تھا ، سادہ لوح اس فریب میں آگئے۔ وہ سوشلسٹ حکومت کو بے قصور گردانتے اور کہتے کہ یہ چند سر پھرے بدمعاشوں کی کارستانی تھی ، اگر حکومت کا اس میں ہاتھ ہوتا ، تو وہ ان بدمعاشوں کو سزا کیوں دیتی؟
عوام کو مزید مطمئن کرنے کے لیے کمونسٹوں نے ایک ہتھکنڈا اور اختیار کیا ۔ ہر شہر میں محلے وار کمیٹیاں قائم کیں۔ ان کمیٹیوں کا نام بھی عربی رکھا گیا "اصحاب العدل" یعنی عادل اور انصاف پسند لوگ۔ بظاہر ان کا کام بہت نیک تھا۔ یہ لوگ اہلِ محلہ کے باہمی جھگڑوں اور شکر رنجیوں کو دور کرتے اور ان کے درمیان میل ملاپ کراتے۔ اس طرح بھولے بھالے عوام کو یہ تاثر دیتے کہ یہ تو بڑے انصاف پسند اور اچھے لوگ ہیں ، فتنہ و فساد سے نفرت کرتے اور امن چاہتے ہیں ، لیکن ان کا اصل مقصد محلے والوں کو کمونسٹوں کے دامِ فریب میں گرفتار اور کمونزم کے لیے زمین ہموار کرنا تھا۔ ان کمیٹیوں کے ارکان بالعموم محلے کے نامی گرامی اوباش اور ماں باپ کے نافرمان نوجوان ہوتے تھے۔ ایک ممبر کمونسٹ پارٹی نامزد کرتی اور وہی اپنی کمیٹی کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتا اور ان کی رپورٹ بڑی باقاعدگی کے ساتھ پارٹی اور پولیس کو بھیجتا۔ اگرچہ ان کمیٹیوں کی ہیئتِ ترکیبی انہیں بے نقاب کرنے کے لیے کافی تھی ؛ تاہم سادہ لوح لوگوں کی کچھ کمی نہ تھی ، وہ اس فریب میں مبتلا ہوگئے کہ ان کمیٹیوں کے ذریعے ایک اچھے کام کا آغاز ہوگیا ہے۔
زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ان کی اس خوش فہمی کا پردہ چاک ہوگیا اور وہ اپنے معاملات ان کے پاس لے جانے سےگریز کرنے لگے۔ پارٹی کی ہدایات کے مطابق ان کمیٹیوں نے اپنے اپنے محلے کے باشندوں کو تعلیم ، فکر و ذہن اور عقیدے کی بنیاد پر مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا ، پھر بڑے وسیع پیمانے پر یہ جائزہ لیا کہ ان مردوں اور عورتوں میں سے کون حکومت کے کام کا ہے ، کون پارٹی کے راستے میں رُکاوٹ بن سکتا ہے ، کس کو زور و زر اور ترغیب و تہدیدسے قابو میں لایا جاسکتا ہے اور کون لوگ ایسے ہیں جو کسی صورت قابو میں نہیں آسکتے۔ کمیٹیوں نے لوگوں کے باہمی تعلقات ، دوستیوں اور دشمنیوں کی چھان بین بھی کی اور ایسی تدابیر بھی سوچیں جن کے ذریعے ان میں انتشار و افتراق پیدا کرکے انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔ "اصحاب العدل" کا ایک فرض یہ بھی تھا کہ وہ علما پر نظر رکھیں اور ان کے متعلق تمام ضروری معلومات پولیس اور پارٹی کو فراہم کریں۔ "اصحاب العدل" نے اپنے فرائض بڑی خوبی سے انجام دیے۔
جلد ہی ہر شہر اور ہر محلے میں ایک ایک شخص کے بارے میں مکمل معلومات پولیس اور پارٹی کے دفتر میں جمع ہو گئیں۔ ہر شخص کی فائل کھل گئی جس میں اس کا نام ، حسب و نسب ، رشتہ داروں کے نام ، پیشہ ، تعلیم ، خیالات اور دلچسپیاں حتی کہ مزاج اور طبیعت کی ساخت اور طور اطوار تک کا تذکرہ تھا۔ رفتہ رفتہ ان کمیٹیوں کی کارکردگی کے نتائج سامنے آنے لگے۔ کمونسٹوں کے اردگرد دو قسم کے افراد جمع ہو رہے تھے۔
ایک تو اوباش ، لا ابالی ، بے علم اور جاہ پسند لوگ جن کا کام ہی دوسروں پر رعب گانٹھنا ہوتا ہے۔ دوسرے عالم دین اور صوفی کہلانے والے وہ "بزرگ" جن کا علم محدود ، سوجھ بوجھ بالکل سطحی اور کردار بے حد کمزور اور بودا تھا۔ لینن نے ایک بار کہا تھا:
"مشرق میں مذہب کے دروازے سے آو"
اس ہدایت پر یہاں ٹھیک ٹھیک عمل ہو رہا تھا۔ ترغیب و ترہیب اور مختلف ہتھکنڈوں سے ہر جگہ چند مذہبی لوگوں پر قابو پالیا گیا۔ ان میں بڑے بڑے زاہد و عابد ، صوفی اور ملا تھے۔ شکل و صورت میں مومنِ قانت ، چہروں پر بڑی بڑی ڈاڑھیاں ، پیشانیوں پر چمکتے ہوئے سیاہ گٹے۔ یہ لوگ ایک طرف سوشلزم اور کمونزم کی حمایت میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے اور صحابہ کرام کی زندگیاں پیش کرتے ، دوسری طرف سوشلزم کے مخالف علما کو سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا ایجنٹ قرار دیتے۔ اس طرح جن علاقوں میں علما اب تک بنیان مرصوص بنے اسلام کا دفاع کر رہے تھے ، وہاں بھی انتشار پھیل گیا۔ عام مسلمان دو ٹکڑوں میں بٹ گئے۔
مسلمانوں کی دینی و تہذیبی زندگی پر کمونسٹوں کے حملوں کی مزاحمت کو شدید نقصان پہنچا۔
ان کمونسٹوں کے حقیقی خد و خال کا پتہ مجھے ایک گاوں یعقوب چرخی کے ایک امام صاحب سے چلا۔ یہ گاوں شہر سبز سے تقریبا 16 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں کے لوگ قبیلہ کناگاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دنوں ہم چار طالب علم سہر سبز کے گرد و نواح کا دورہ کر رہے تھے۔ جب ہم یعقوب چرخی پہنچے تو امام صاحب کسی شادی میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ کوئی آدھی رات کے قریب واپس آئے۔ مسجد ہی میں ملاقات ہوئی۔ بڑے تپاک سے ملے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں حضرت خوقندی کا خواہر زادہ ہوں ، تو ان کی اس گرمجوشی میں عقیدت کا جذبہ بھی شامل ہوگیا۔ امام صاحب نے اپنی داستانِ مصیبت بڑی تفصیل سے بیان کی ، کہنے لگے:
"ہم تو حالات پر خون کےآنسو بہا رہے ہیں۔ میں اس مسجد کے علاوہ چار اور مسجدوں کا امام بھی ہوں"
"وہ کیسے؟" میں سوال کیے بغیر نہ رہ سکا۔
"اس طرح کہ لوگ اب نماز نہیں پڑھتے ، بس شادی بیاہ ، موت فوت اور جنازے کے موقع پر امام کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے فصل کٹنے پر گندم وغیرہ مل جاتی تھی ، اب چار پانچ سال سے کمونسٹوں نے امام مسجدوں کے لیے فصل کا مخصوص حصہ کم کر دیا ہے۔ چناچہ پانچ مسجدوں کی آمدنی مل کر بھی پوری نہیں ہوتی اور فاقوں پر فاقے کرنا پڑتے ہیں" امام صاحب نے کہا
آدھی رات گزر چکی تھی۔ ہر طرف خاموشی طاری تھی۔ میرے تینوں طالب علم ساتھی صحرا کے باشندے تھے۔ ان کی دنیا بس شہر سبز تک محدود تھی۔ انہوں نے اخبار کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔ انہیں نہ تو گرد و پیش رونما ہونے والے سیاسی واقعات سے کوئی دلچسپی تھی ، نہ وہ کبھی کسی مجلس میں شریک ہوئے تھے۔ ہماری گفتگو ان کی سمجھ سے بالاتر تھی ، چناچہ وہ سو گئے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
"آو صحنِ مسجد میں چل کر بیٹھیں تا کہ ان لوگوں کے آرام میں خلل نہ ہو" امام نے کہا ؛ چناچہ ہم دونوں باہر صحنِ مسجد میں بیٹھ گئے اور باتیں ہونے لگیں۔ امام نے بتایا:
ڈیڑھ دو ماہ پہلے حکومت نے شہر شہر اور گاوں گاوں میں محلے وار کمیٹیاں قائم کی تھیں ، ایک کمیٹی یہاں بھی قائم ہے۔ دوسرے شہروں کے متعلق تو مجھے کچھ خبر نہیں ، ہمارے گاوں کی کمیٹی میں سب کے سب اوباش اور چھٹے ہوئے غنڈے شریک کیے گئے ہیں، ایک شخص بھی معقول نہیں ہے۔
کسی کو پڑھنا لکھنانہیں آتا؛ چناچہ اپنی تمام رپورٹیں مجھ سے لکھواتے ہیں ، حالانکہ میں اس کمیٹی کا ممبر نہیں ہوں۔ مجھے ان لوگوں نے دھمکی دے دکھی ہے کہ کوئی بات باہر نکلنے نہ پائے ، ورنہ اس کا خمیازہ بھگتو گے۔
"آپ کو یہ لوگ کیا دیتے ہیں؟"
کچھ نہیں ،بس زبانی طور پر یہ ضمانت دے رکھی ہے کہ تمہیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے گی۔ ہاں ، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہارا نام روحانی لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا"
امام صاحب خاصے سمجھدار تھے ، از خود کہنے لگے:
"دین میں نئی نئی باتیں داخل کی جارہی ہیں جن کا یہاں کبھی چلن نہیں رہا۔ حکومت ان باتوں کی حمایت کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص ان کو باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو مجرم گردانتی ہے کہ تم نے آزاد شخص کے ذہن کو مقید کرنے کی کوشش کی ،" تم مشتوم زور )غنڈے( ہو"
امام صاحب نے مثال بھی دی۔
"طوافِ قبور ہمارے ہاں کبھی مروج نہیں رہا ، لیکن اب بڑے زور و شور سے ہونے لگا ہے۔ اس کا آغاز کس طرح ہوا؟ یہ بھی سن لیجیے۔ گاوں کے ایک آدمی نے خواب میں دیکھا کہ اس کے مرحوم مرشد فرما رہے ہیں اُن کی قبر کا طواف کرو، چناچہ اس نے طواف شروع کر دیا۔ قبر پر ایک مجاور رکھا اور زائرین کو بھی اپنے مرشدِ مرحوم کی وصیت سنائی اور انہیں طواف پر مجبور کیا۔ اس طرح یہ سلسلہ چل نکلا۔ وہ شخص کون تھا ، گاوں کا سب سے بڑا بدمعاش اور "اصحاب العدل" کا سرگرم رُکن۔ پہلے پہل لوگوں نے جب اسے ٹوکا ، تو انہیں کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ کمیٹی نے سرزنش کی اور کہا کہ آئندہ لوگوں کی آزادی فکر و عمل میں ٹانگ اڑائی تو جیل بھیج دیے جاو گے"
امام صاحب نے آہ بھری اور کہا:
"اس کمیٹی کو وجود میں آئے ہوئے بمشکل دو مہینے ہوئے ہیں ، لیکن کئی ضخیم رجسٹر بھر کر پولیس اور پارٹی کو بھیجے جا چکے ہیں۔ ان میں ایک ایک شخص کے کوائف درج ہیں۔ علما اور دیندار لوگوں اور ان کے ساتھ میل جول رکھنے والوں کے مکمل تعارف نے سب سے زیادہ جگہ لی ہے۔ ان کے حالات میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کون کون لوگ ان کے مخالف ہیں اور ان مخالفین سے کیا کام لیا جاسکتا ہے۔"
میں نے ماموں حضرت کے متعلق دریافت کیا ، کہنے لگے:
"ان جیسے بڑے لوگوں کے کوائف ، ان کے نام ، ولدیت ، پیدائش ، مکمل پتے اور پیشے تک محدود رکھے گئے ہیں ۔ علاقے کی کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے۔ آپ کےماموں جان کو سخت خطرناک روحانی قرار دیا گیا ہے اور تمام کمیٹیوں کے نام حکم جاری ہوا ہے کہ ان سے ملنے جلنے والے لوگوں سے خبردار رہیں"
اب میں نے فرغانہ ، سمر قند ، بخارا اور قرشی وغیرہ پر جو کچھ گزری تھی ، اس کی مکمل روداد کہہ سنائی۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ پیر افغانی سوشلسٹوں کے فریب سے آگاہ ہو کر افغانستان چلے گئے ہیں۔ امام صاحب حیرت سے بولے:
"یہ تو معجزہ ہوا۔ پیر افغانی ، غازی امان اللہ خان کا مرشد زادہ ہونے کا دعوی کرتا تھا۔ سوشلسٹوں کا زبردست حامی ہی نہ تھا ، بلکہ کہتا تھا سوشلزم ، انسان کو دنیا ہی میں اعلی علیین )جنت( میں پہنچا دینے والا نظام ثابت ہوگا"
امام صاحب نے اگلے روز ہمیں بڑے شفقت بھرے جذبات کے ساتھ رخصت کیا۔
ٹھیک اس زمانے میں کمونسٹوں نے علما میں پھوٹ ڈالنے ،
 
بہت شکریہ اپ لوگوں کا۔
یہ کتاب کل ہی ڈاونلوڈ کرکےپڑھی ۔ اللہ اللہ۔
کئی ازبک و وسط ایشیا کے لوگوں سے ملاقات ہوئی اور ہمیشہ ان کی حالت ابتر ہی پائی۔ یہ بیچارے اج بھی اپنے ملک میں قرآن شریف نہیں لے جاسکتے۔ زنا اور شراب نوشی کا دور دورہ ہے۔ پھر بھی کئی لوگ بہت کوشش کرتے ہیں کہ اسلام سے ان کا رابطہ نہ ٹوٹے۔
اللہ پاکستان کو سلامت رکھے اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنادے۔
 
Top