حمیرا عدنان
محفلین
مجھے بچپن سے ہی سمندر دیکھنے کا شوق تھا اور میٹرک میں آ کر میں نے ضد پکڑ لی کہ مجھے کراچی دیکھنا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے. گھر میں کبھی ابو کو کہنا مجھے ایک دن کے لیے ہی کراچی لے جائیں بس سمندر دیکھ کر واپس آ جائیں گے کبھی بھائی کو کہنا اور کبھی امی سے کہنا تب ایک دن امی نے بتایا کہ ان کے ماموں زاد بھائی جی کراچی میں رہائش پذیر ہیں ان کے ہاں چلے جانا گرمیوں کی چھٹیوں میں لیکن پہلے اپنے بڑے بھائی کو راضی کر لو اچھا پھر کیا تھا کی دن رات بھائی کا سر کھانا شروع کر دیا آخر کار بھائی کو بھی انتھک کوشیش کے ساتھ راضی کر لیا بھائی نے کہا کہ اپنی اور میری ہوائی جہاز کی ٹکٹ کے پیسے جمع کر لو تو لے چلوں گا..
اچھا جناب پھر کیا تھا کہ مجھے پیسے جمع کرنے کا شوق سوار ہوگیا کبھی ابو سے لیے پیسے کبھی امی سے لیے پیسے کبھی بھائیوں سے جیسے تیسے کرتے میں نے کوئی چار ہزار روپے اکٹھے کر لیے وہ سارے پیسے میں نے اپنی سائڈ ٹیبل کی دراز میں رکھے ہوئے تھے جو میں اکثر و بیشتر گنتی رہتی تھی اور میں نے دراز کے اند اخبار بچھیا ہوا تھا تاکہ نیچے کی لکڑی نظر نا آئے جیسا اکثر گھروں میں ہوتا ہے خدا کی کرنی ایسی ہوئی کی صفائی کرتے ہوئے یاں کچھ نکالتے ہوئے ایک ہزار کا نوٹ اس اخبار کی تہہ کے اند چلا گیا مجھے پتا نہیں چلا ایک دو دن تو میں نے دراز نہیں کھولا لیکن جیسےہی میں نے دراز کھولا اور پیسوں کو دیکھا تو میرے سارے طوطے اڑ گئے میرا آدھا خون خشک ہو گیا آنکھوں کے سامنے اندھیرا آنا شروع ہو گیا اسی گھبراہٹ میں کوئی دس بار ہر چیز کی تلاشی لی لیکن اخبار کی طرف دھیان ہی نہیں دیا کئی بار اخبار کے اپر ہاتھ مارا کبھی اخبار کو اٹھا کر دیکھوں لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا..
جو سمندر میں نے کراچی میں دیکھنے جانا تھا وہی سمندر میری آنکھوں میں آ گیا اتنا روئی کے پوچھو مت چند گھنٹوں میں آنکھیں سوج گئی رو رو کر سارا دن اپنے کمرے میں بند رہی شام کو امی نے کئی آوازیں دی لیکن میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور بس اپنے بیڈ پر لیٹی رہی آخر امی خود آئی کمرے میں اور میری حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی پوچھتی رہی کے کیا ہو ہے لیکن میرے آنسو تھے جو خشک ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے اُسی ٹائم پر بھائی بھی گھر آ گئے اور امی کو دیکھتے ہوئے میرے کمرے میں داخل ہوئے اور میری حالت دیکھ کر امی سے پوچھتے ہیں اس کو کیا ہوا ہے امی نے کہا کہ تم کچھ پوچھو کیا ہوا ہے بھائی نے پوچھا کیا ہوا ہے موٹی کیوں رو رہی ہو تو میں نے روتے ہوئے کہا بھائی اب میں سمندر نہیں دیکھ پاؤ گی میں نے جو پیسے جمع کئے تھے ٹکٹ کے لیے اس میں سے ایک ہزار روپیہ پتا نہیں کہاں گم ہو گئے بھائی کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی مجھے بھائی کی مسکراہٹ ایک تیر کی طرح لگی اور میں نے پوچھا بھائی پیسے آپ نے لیے ہیں تو بھائی نے کہا نہیں موٹی مجھے تو پتا بھی نہیں کہ تم پیسے بھی جمع کر رہی ہو کتنے پیسے جمع کیے تھے اب تک میں نے بتایا چار ہزار تھے اب تین ہزار رہ گئے ہیں پوچھا پیسے کہاں رکھے تھے تو ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں میر بیڈ پر بیٹھ کر جب دراز کھولا تو اخبار پکڑ کر جھاڑا تو ایک ہزار کا نوٹ زمین پر گر پڑا جو مجھے دس بارہ جھاڑنے پر بھی نہیں ملا تھا
وہ نوٹ دیکھ کر امی پنجابی میں بولی ائے کڑی ہیگی ہی پاگل آئے کیتھوں جم گئی سی میرے ول..
بھائی نوٹ کو پکڑ کر بولتے ہیں یہ تو اب نہیں ملے گا تم کو اس کی تو آج آئسکریم لے کر آتے ہیں سب کے لیے میں نے میں نے نوٹ جھپٹے سے چھین کیا اور کہا بھائی یہ میں نے کرائے کے لیے رکھا ہے....
یوں ہی وہ دن بھی آ گیا جب بھائی ٹکٹ لینے گئے کراچی کی اورمجھ سے پیسے بھی نہیں لیے جب ٹکٹ لے کر گھر آئے تو میں نے پوچھا کتنے کی ملی تو کہتے ہیں پینتیس سو کی ایک میں نے پیسے دینے کی کوشیش کی تو کہا بیٹا تم اپنی شاپنگ کر لینا...
وہ خوشی اور بھائی کا پیار میرے لیے اُس سمندر سے بڑھ کر تحفہ تھی آج احساس ہوتا ہے
اچھا جناب پھر کیا تھا کہ مجھے پیسے جمع کرنے کا شوق سوار ہوگیا کبھی ابو سے لیے پیسے کبھی امی سے لیے پیسے کبھی بھائیوں سے جیسے تیسے کرتے میں نے کوئی چار ہزار روپے اکٹھے کر لیے وہ سارے پیسے میں نے اپنی سائڈ ٹیبل کی دراز میں رکھے ہوئے تھے جو میں اکثر و بیشتر گنتی رہتی تھی اور میں نے دراز کے اند اخبار بچھیا ہوا تھا تاکہ نیچے کی لکڑی نظر نا آئے جیسا اکثر گھروں میں ہوتا ہے خدا کی کرنی ایسی ہوئی کی صفائی کرتے ہوئے یاں کچھ نکالتے ہوئے ایک ہزار کا نوٹ اس اخبار کی تہہ کے اند چلا گیا مجھے پتا نہیں چلا ایک دو دن تو میں نے دراز نہیں کھولا لیکن جیسےہی میں نے دراز کھولا اور پیسوں کو دیکھا تو میرے سارے طوطے اڑ گئے میرا آدھا خون خشک ہو گیا آنکھوں کے سامنے اندھیرا آنا شروع ہو گیا اسی گھبراہٹ میں کوئی دس بار ہر چیز کی تلاشی لی لیکن اخبار کی طرف دھیان ہی نہیں دیا کئی بار اخبار کے اپر ہاتھ مارا کبھی اخبار کو اٹھا کر دیکھوں لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا..
جو سمندر میں نے کراچی میں دیکھنے جانا تھا وہی سمندر میری آنکھوں میں آ گیا اتنا روئی کے پوچھو مت چند گھنٹوں میں آنکھیں سوج گئی رو رو کر سارا دن اپنے کمرے میں بند رہی شام کو امی نے کئی آوازیں دی لیکن میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور بس اپنے بیڈ پر لیٹی رہی آخر امی خود آئی کمرے میں اور میری حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی پوچھتی رہی کے کیا ہو ہے لیکن میرے آنسو تھے جو خشک ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے اُسی ٹائم پر بھائی بھی گھر آ گئے اور امی کو دیکھتے ہوئے میرے کمرے میں داخل ہوئے اور میری حالت دیکھ کر امی سے پوچھتے ہیں اس کو کیا ہوا ہے امی نے کہا کہ تم کچھ پوچھو کیا ہوا ہے بھائی نے پوچھا کیا ہوا ہے موٹی کیوں رو رہی ہو تو میں نے روتے ہوئے کہا بھائی اب میں سمندر نہیں دیکھ پاؤ گی میں نے جو پیسے جمع کئے تھے ٹکٹ کے لیے اس میں سے ایک ہزار روپیہ پتا نہیں کہاں گم ہو گئے بھائی کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی مجھے بھائی کی مسکراہٹ ایک تیر کی طرح لگی اور میں نے پوچھا بھائی پیسے آپ نے لیے ہیں تو بھائی نے کہا نہیں موٹی مجھے تو پتا بھی نہیں کہ تم پیسے بھی جمع کر رہی ہو کتنے پیسے جمع کیے تھے اب تک میں نے بتایا چار ہزار تھے اب تین ہزار رہ گئے ہیں پوچھا پیسے کہاں رکھے تھے تو ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں میر بیڈ پر بیٹھ کر جب دراز کھولا تو اخبار پکڑ کر جھاڑا تو ایک ہزار کا نوٹ زمین پر گر پڑا جو مجھے دس بارہ جھاڑنے پر بھی نہیں ملا تھا
وہ نوٹ دیکھ کر امی پنجابی میں بولی ائے کڑی ہیگی ہی پاگل آئے کیتھوں جم گئی سی میرے ول..
بھائی نوٹ کو پکڑ کر بولتے ہیں یہ تو اب نہیں ملے گا تم کو اس کی تو آج آئسکریم لے کر آتے ہیں سب کے لیے میں نے میں نے نوٹ جھپٹے سے چھین کیا اور کہا بھائی یہ میں نے کرائے کے لیے رکھا ہے....
یوں ہی وہ دن بھی آ گیا جب بھائی ٹکٹ لینے گئے کراچی کی اورمجھ سے پیسے بھی نہیں لیے جب ٹکٹ لے کر گھر آئے تو میں نے پوچھا کتنے کی ملی تو کہتے ہیں پینتیس سو کی ایک میں نے پیسے دینے کی کوشیش کی تو کہا بیٹا تم اپنی شاپنگ کر لینا...
وہ خوشی اور بھائی کا پیار میرے لیے اُس سمندر سے بڑھ کر تحفہ تھی آج احساس ہوتا ہے