سمندر خان، اک پشتو کا شاعر
جا رہا تھا گاؤں سے دور ایک ویرانے میں
یک دم اک جھپاکا سا ہوا
اور ذہن کے پردے پہ اک دھندلا ہیولا بننے اور مٹنے لگا
پر شومیِقسمت، قلم ہی جیب میںتھا اورنہ کاغذ کا کوئی پرزہ
سمندر خان رک کر، اور اک پتھر پہ ٹک کر، میچ کر آنکھوںکو
دنیا اور مافیہا سے بیگانہ ہوا
پھر شام کو گاؤںکے لوگوں نے عجب نظارہ دیکھا
ڈھلتے سایوںمیںسمندر خان، وہ پشتو کا شاعر
ڈگمگاتا، ہانپتا، اپنے پسینے میںنہاتا
پیٹھ پر دو من کی اک چٹان لادے
گاؤںکی سرحد میںداخل ہو رہا ہے۔۔۔
اور اس کے بعد عادت بن گئی اس کی
سمندر خان ویرانے سے بھاری سل
کوئی جب تک اٹھا کے گھر نہ لاتا تھا
تو اس پر نظم کی اک سطر تک القا نہ ہوتی تھی
سو رفتہ رفتہ اس کی کوٹھڑی، دالان اور چھت
ان گھڑی بے ڈھب سلوں کے بوجھ سے دبتے گئے
اک دن سمندر خان، وہ پشتو کا شاعر
کھردری نظموں کے اس انبار کے نیچے دبا پایا گیا
جا رہا تھا گاؤں سے دور ایک ویرانے میں
یک دم اک جھپاکا سا ہوا
اور ذہن کے پردے پہ اک دھندلا ہیولا بننے اور مٹنے لگا
پر شومیِقسمت، قلم ہی جیب میںتھا اورنہ کاغذ کا کوئی پرزہ
سمندر خان رک کر، اور اک پتھر پہ ٹک کر، میچ کر آنکھوںکو
دنیا اور مافیہا سے بیگانہ ہوا
پھر شام کو گاؤںکے لوگوں نے عجب نظارہ دیکھا
ڈھلتے سایوںمیںسمندر خان، وہ پشتو کا شاعر
ڈگمگاتا، ہانپتا، اپنے پسینے میںنہاتا
پیٹھ پر دو من کی اک چٹان لادے
گاؤںکی سرحد میںداخل ہو رہا ہے۔۔۔
اور اس کے بعد عادت بن گئی اس کی
سمندر خان ویرانے سے بھاری سل
کوئی جب تک اٹھا کے گھر نہ لاتا تھا
تو اس پر نظم کی اک سطر تک القا نہ ہوتی تھی
سو رفتہ رفتہ اس کی کوٹھڑی، دالان اور چھت
ان گھڑی بے ڈھب سلوں کے بوجھ سے دبتے گئے
اک دن سمندر خان، وہ پشتو کا شاعر
کھردری نظموں کے اس انبار کے نیچے دبا پایا گیا