سمندر پار آبیٹھے، مگر کیا - عبداللہ جاوید

کاشفی

محفلین
غزل
(عبداللہ جاوید)

سمندر پار آبیٹھے، مگر کیا
نئے ملکوں میں بن جاتے ہیں گھر کیا

نئے ملکوں میں لگتا ہے نیا سب
زمیں کیا، آسماں کیا، اور شجر کیا

اُدھر کے لوگ کیا کیا سوچتے ہیں
اِدھر بستے ہیں خوابوں کے نگر کیا

ہر اک رستے پہ چل کر سوچتے ہیں
یہ رستہ جارہا ہے اپنے گھر کیا

کبھی رستے یہ ہم سے پوچھتے ہیں
مسافر ہورہے ہیں، دربدر کیا

کبھی سوچا ہے، مٹی کے علاوہ
ہمیں کہتے ہیں یہ دیوار و در کیا

یہاں اپنے بہت رہتے ہیں
کسی کو بھی کسی کی ہے خبر کیا

کسے فرصت کہ ان باتوں پہ سوچے
مشینوں نے کیا ہے جان پر کیا

مشینوں کے گھنیرے جنگلوں میں
بھٹکتی روح کیا، اس کا سفر کیا

یہاں کے آدمی ہیں دو رخے کیوں
مہذب ہو گئے ہیں‌جانور کیا

ادھورے کام چھوڑے جارہے ہیں
ادھر کو آئیں گے بارِ دگر کیا

یہ کس کے اشک ہیں اوجِِ فلک تک
کوئی روتا رہا ہے رات بھر کیا

چمن میں ہر طرف آنسو ہیں جاوید
تری حالت کی سب کو ہے خبر کیا

بشکریہ: علیگڑھ اردو کلب - دیدہ ور​
 
Top