سید شہزاد ناصر
محفلین
کراچی کے رہنے والے روز دیکھتے ہیں کہ تقریبا” ادھر شام کے چار بجے اور سائے لمبے ہونے شروع ہوئے وہاں ہر محلے بازار اور گلی کوچے میں مٹھائ کی دکانوں، بیکریوں کے باہر بڑے بڑے تیل بھرے کڑھاؤ چولہوں پر چڑھ جاتے پیں جن میں آلو بھرے سموسوں کے تلنے کی سوندھی اشتہا انگیز خوشبو ہر سو پھیل جاتی ہے- تقریبا” ہر دوسرے گھر میں شام کی چائے کے ساتھ یہ سموسے پیش کئے جاتے ہیں- مہمانوں کی خاطر تواضع کا لازمی جز یہ سموسہ ہے—- بچے بڑے سب ہی اس ذائقے دار گرما گرم سموسے کو بہت شوق سے کھاتے ہیں- ان سموسو کے ساتھ جلیبیاں، اسپرنگ رولز، اندرسے کی گولیاں اور امرتیاں بھی تیار ہورہی ہوتی ہیں لیکن ھاٹ آئٹم یہی سموسہ ہوتا ہے- صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان و ہندوستان کے تقریبا” ہر علاقے میں یہ مقبول عام شام کی چائے کا سنیک ہے- اسکول کی کینٹین سے یونیورسٹی کی کینٹین تک، اور گھروں سے لے کر آفس تک۔۔۔ سموسہ ہر جگہ یکساں مقبول۔۔۔۔ خاص طور پر رمضان میں افطاری تو بغیر سوسہ ادھوری سمجھی جاتی ہے۔۔ سوسے کی کئ اقسام ہیں۔۔۔ سب سے مقبول تو آلو سموسہ ہے لیکن ساتھ ساتھ قیمہ سموسہ، دال سموسہ ، چکن سموسہ بھی مقبول ہیں۔۔۔ جب سے سموسے والوں نے سموسے میں قیمہ کی جگہ چھیچھڑے اور گوشت کا بچا کھچا کچرا ڈالنا شروع کیا ہے قیمے کے سموسوں سے طبیعت جھک گئ ہے اور اب بہت کم لوگ بازاری قیمے کے سموسے کھانا پسند کرتے ہیں۔۔آلو کے سموسے میں ابلے ہوئے آلو کے بھرتے میں نمک مرچ ھلدی ہری مرچ ثابت دھنیا وغیرہ ملا کر اس کو میدے کی پتلی روٹی بیل کر اس میں بھرا جاتا ہے اور پھر ایک خاص تکونی شکل دے کر تیز گرم کھولتے ہوئے تیل میں سنہرا ہونے تک تلا جاتا ہے جس سے سموسے کی اوپر کی میدے کی پرت خستہ کراری اور اندر کا بھرتہ بھاپ میں خوب پک جاتا ہے- سموسہ کھانے کے بھی مختلف طریقے ہیں- کراچی میں تو سموسہ عام طور پر دہی کے پتلے رائتے اور کیچپ کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور عام طور پر چائے کے ساتھ کھایا جاتا ہے لیکن کئ شہروں اور علاقوں میں سموسہ پلیٹ میں رکھ کر اس کے اوپر ڈھیر سارا رائتہ ڈال کر چمچے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور لوگ اس کو چاٹ کی طرح توڑ کر مکس کر کے چمچے سے کھاتے ہیں-
عام طور پر سموسے کو برصغیر کا پکوان سمجھا جاتا ہے لیکن سموسے کا اصل وطن وسطی ایشیا ہے اور یہ وہیں سے سفر کرتا ہوا ہند و پاک میں پہنچا ہے۔۔چائنیز ڈمپلنگز ہوں یا انگریزی پیٹیز۔۔۔ سموسہ ان میں سب سے زیادہ مقبول ہے اور ایشیا سے لے کر عربی ممالک تک مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے اور عوام میں مقبول ہے۔۔
یہ کوئ نیا پکوان نہیں بلکہ دسویں اور تیرھویں صدی کی کھانوں کی کتابوں میں '' سن بوسک''، سنبوسق یا سنبوسج کے نام سے اس کا ذکر ملتا ہے۔۔ ایران میں سموسے کو سمبوز کہا جاتا ہے۔۔
سموسے کا نام کی اصل دراصل سمسا ہے۔۔ وسطی ایشیا میں تکونے اہراموں کو سمسا کہا جاتا ہے اور وہیں سے سموسے کو یہ نام دیا گیا۔۔
پرانے زمانے میں یہ مسافروں کے لئے ایک پسندیدہ سنیک تھا۔۔۔ وہ دوران سفر قیمہ بھرے سمسا آگ کے الائو پر بھونتے اور پیٹ کی آگ بجھاتے۔۔
آج کے دور میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سموسہ ایک انڈین نمکین ڈش ہے لیکن اس سے وابستہ تاریخ کچھ اور ہی داستان بتاتی ہے۔
سموسے کا تعلق بنیادی طور سے ایران کی قدیم سلطنت سے ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سموسہ دہلی تک کیسے پہنچا؟ کہا جاتا ہے کہ چودھویں صدی کے شہنشاہ محمد تغلق کے دور میں سموسہ شاہی باورچی خانے کا لازمی سنیک تھا۔۔محمد شاہ تغلق اکثر گھی، پیاز اور قیمہ سے تیار شدہ سموسے کی فرمائش کرتا تھا۔۔
امیر خسرو نے بھی اپنی تحریروں میں اس کا ذکر کیا ہے کہ دہلی کا شاہی خاندان اس کو بے حد پسند کرتا تھا۔۔۔ امیر خسرو نے اپنی ایک پہیلی میں بھی سوسے کا ذکر کیا ہے۔۔
'' سموسہ کھایا نہیں جوتا پہنا نہیں''
وجہ دونوں کی ایک ہی ہے یعنی کہ تلا نہ تھا۔۔
سموسے کا پہلی بار ذکر 11 ویں صدی کے فارسی مورخ ابو الفضل بیہقی کی تحریروں میں ملتا ہے۔
انھوں نے غزنوي سلطنت کے شاہی دربار میں پیش کی جانے والی ’نمکین پیسٹری‘ کا ذکر کیا ہے۔ اس میں قیمہ اور خشک میوہ بھرا ہوتا تھا۔
اس پیسٹری کو اس وقت تک پکایا جاتا تھا جب تک کہ وہ خستہ نہ ہو جائے۔ لیکن مسلسل بر صغیر آنے والے تارکین وطن نے سموسے کی طرز اور رنگ کو بدل کر رکھ دیا۔
ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں اس کا ذکر سمبوسک کے نام سے کیا ہے۔۔وہ لکھتا ہے، "قیمے کو باداموں، پستوں، پیاز اور مصالحوں کے ساتھ پکا کر گندم کے ایک پتلے سے لفافے میں بھر کر گھی میں تلا جاتا اور تغلق کے شاہی محل میں پلاﺅ کے تیسرے دور سے قبل پیش کیا جاتا۔"
ابو الفضل نے اپنے مقبول اکبرنامہ جسے آئین اکبری بھی کہا جاتا ہے میں سنبوسہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے "گندم کا پکوان قطب بھی ایک ایسی چیز ہے جس سے شاہی گھرانے کو محبت ہے، اسے ہند کے عوام سن بوسہ کہتے ہیں اور ہم اسے سموسہ کہتے ہیں، مگر نام جو بھی ہو اس کا ذائقہ بے مثال ہے۔"
سموسہ بر صغیر اسی راستے پہنچا جس راستے سے دو ہزار برس پہلے آریائي نسل کے لوگ ہندوستان پہنچے تھے۔ سموسہ ہندوستان میں وسطی ایشیا کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے پہنچا جس علاقے کو آج افغانستان کہتے ہیں۔
باہر سے آنے والے ان تارکین وطن نے ہندوستان میں کافی کچھ تبدیل کیا اور ساتھ ہی ساتھ سموسے کی شکل میں بھی کافی تبدیلی آئی۔
وقت کے ساتھ جیسے ہی سموسہ تاجکستان اور ازبکستان پہنچا اس میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ اور جیسا کہ انڈیا میں کھانوں کے ماہر پرفیسر پوشپیش پنت بتاتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کسانوں کی ڈش بن گیا۔
صدیوں کے بعد سموسے نے ہندو کش کے برفانی دررو کو عبور کرتے ہوتے ہوئے برصغیر تک کا سفر طے کیا۔
سموسے کے سفر میں جو کچھ ہوا وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ پروفیسر پنت سموسے کو ’سم دھرمي ڈش‘ یعنی تمام ثقافتوں کے سنگم والا پکوان کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ سموسہ آپ کو بتاتا ہے کہ کس طرح سے یہ ڈش ہم تک پہنچی ہیں اور کس طرح انڈیا نے انھیں اپنی ضرورت کے حساب سے پورے طور پر تبدیل کر کے اپنا بنا لیا ہے۔‘
بھارت میں سموسے کو یہاں کے ذائقے کے حساب سے اپنائے جانے کے بعد یہ دنیا کا پہلا ’فاسٹ فوڈ‘ بن گیا۔ اس میں بھری جانی والی چیزیں بدل گئیں اور گوشت کی جگہ سبزیوں نے لے لی ہے۔
اب بھارت اور پاکستان میں آلو کے ساتھ مرچ اور مزیدار مصالحے بھر کر سموسے بنائے جاتے ہیں۔ سولہویں صدی میں پرتگالیوں کی طرف سے آلو لائے جانے کے بعد سے سموسے میں اس کا استعمال شروع ہوا۔
اس کے بعد سے سموسے میں اب تک تبدیلیاں جاری ہیں۔ انڈیا میں آپ جہاں کہیں بھی جائیں گے یہ آپ کو مختلف ہی شکل میں وہاں موجود ملےگا۔
مختلف علاقوں میں الگ الگ طرح کے سموسے ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ہی بازار میں مختلف دکانوں پر ملنے والے سموسوں کے ذائقہ میں کافی فرق ہوتا ہے۔
سموسہ کبھی اتنا بڑا ہوتا ہے کہ لگتا ہے کہ پورا کھانا ایک سموسے میں ہی نمٹ جائے گا اور کہیں اتنا ذرا سا کہ ایک ہی بائیٹ میں پورا ہوجاتا ہے-
سموسے کا سفر صرف ہندوستان میں ہی ختم نہیں ہوتا۔ برطانیہ کے لوگ بھی سموسہ خوب شوق سے کھاتے ہیں اور ہندوستانی تارکین وطن پچھلی چند صدیوں میں دنیا میں جہاں کہیں بھی گئے اپنے ساتھ سموسہ لے کر گئے ہیں۔
اس طرح سے ایرانی بادشاہوں کے اس شاہی پکوان کا آج تمام ممالک میں لطف اٹھایا جا رہا ہے۔
آج بھی سموسہ ممبئ سے کراچی تک عوام و خواص میں مقبول ہے۔۔ سموسہ گرما گرم کھایا جاتا ہے۔۔۔ ٹھنڈا سموسہ کھانے سے بہتر ہے انسان گالی کھا لے۔۔ گرما گرم خستہ اور کراری میدے کی سنہری بادامی سوندھی پرت کے ساتھ جب مزیدار قیمہ یا بھرتا دہی کی چٹنی کے ساتھ ہو تو ایک الگ ہی سواد ملتا ہے۔۔۔اکثر لوگ لنچ کی جگہ دو سموسے کھا کر اپنی بھوک مٹا لیتے ہیں۔۔
پاکستان کے زیادہ تر علاقوں اور ہندوستان میں دہلی، پنجاب، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش، اُتر پردیش اور شمالی ہند میں زیادہ تر آلو کے سموسے پسند کیے جاتے ہیں۔ مغربی بنگال میں اسے شنگاڑا بھی کہتے ہیں۔ سمومہ بنگال میں پہنچ کر شنگاڑا ہوجاتا ہے وہیں اس کی شکل بھی بدل جاتی ہے۔حیدرآباد دکن میں سموسہ چھوٹی شکل اختیار کرجاتا ہے جسے ’’لقمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ جنوبی ہند میں تیار ہونے والے سموسے پرتگالی انداز کے زیادہ قریب ہیں اور ان کی ترکیب میں بھی فرق ہے۔ پاکستان میں کراچی کے سموسے اپنے مصالحوں کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن حجم کے اعتبار سے فیصل آباد کے سموسوں کا کوئ مقابل نہیں۔
کراچی یونیورسٹی کی فارمیسی کی کنٹین جہاں پورا جامعہ امڈ پڑتا ہے، گرم گرم سموسے ٹائپ ٹکیہ جس کو ساتھ ملنے والی دہی کی چٹنی کے ساتھ پلیٹ میں چور مور کر کے چمچے کےساتھ کھانے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔۔۔۔
سموسوں کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس خبر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ وزارت اطلاعات و نشریات نے ایک سال میں صحافیوں پر60 لاکھ روپے مالیت کے سموسے ،پکوڑے اور چائے کی تواضع پر اڑا دیئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف وزارت اطلاعات و نشریات کی دستاویزات میں ہوا ہے۔
سموسہ بنانے میں مہارت درکار ہے کہ اس کا آٹا بیل کر ایک خاص شکل دینا اور پھر اس میں بھرتہ یا قیمہ وغیرہ بھر کر تکونی شکل بنانا۔۔ آجکل بازار میں سموسہ پٹی دستیاب ہے کہ جس کی مدد سے آپ مزیدار ورقی سموسے گھر پر بنا سکتے ہیں ہر شہر اور قصبے میں آپ کو مارکیٹ اور بازاروں کے نکڑ پر یا مٹھائ اور نمکو کی دکانوں پر شام تین بجے سے سموسوں کی تیاری میں مصروف کاریگر نظر آئیں گے جو انتہائ مہارت سےمیدے کی پتلی تہہ میں آلو کا مصالحہ دار بھرتا بھرتے نظر آئیں گے۔۔ ایک ساتھ درجنوں سموسے کھولتے ہوئے تیل کی دیو ہیکل کڑھائ میں ڈال دئے جاتے ہیں جو ذرا سی دیر میں سنہرا بادامی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔۔۔۔ شام کی چائے کے ساتھ یا مہمانوں کی تواضع کے لئے سموسہ لازمی سنیک سمجھا جاتا ہے۔۔کراچی میں حیدرآباد کالونی،فریسکو، یونائٹڈ کنگ کے سموسے کافی پسند کئے جاتے ہیں۔۔۔ فریسکو سوئٹ جو کہ کراچی کے برنس روڈ پر ایک قدیم مٹھائ کی دکان ہے کا عربی پراٹھا بھی سموسے کی ہی ایک شکل ہے لیکن وہ ایک گول اور خستہ پراٹھے کی
صورت میں ہوتا ہے جس مییں پیاز اور ہری مرچ کے ساتھ انڈا اور قیمہ بھرا ہوتا ہے۔
ایک جگہ پڑھا کہ جس نے سموسہ ایجاد کیا تھا۔۔۔۔اسکو قیامت کے دن بغیر حساب کتاب کے جنت میں بھیج دیا جانا چاہئے۔۔۔
عامر خاں اپنی فلم دنگل میں سموسے کے بارے میں کہتے ہیں کہ۔۔۔
پکوڑے کی ہا ہا کار کے بدلے ۔۔۔سموسے کی ایک دھاڑ ہے پیارے۔۔۔۔
مرزا غالب نے سموسے نہی بس آم ہی کھائے تھے۔۔۔۔ورنہ یک آدھا شعر سموسوں پر ضرور کہہ دیتے ۔۔۔۔یا یہ ضرور خواہش کرتے کہ سموسے ہوں۔۔۔۔کافی سارے ہوں۔۔۔اور ساتھ کھٹی میٹھی چٹنیاں ہوں۔۔۔۔۔اور مکس سلاد بھی۔۔۔۔اور چنے بھی۔۔۔۔اور کوک بھی۔۔۔اور ہری چٹنی بھی۔۔۔۔اور موٹیلئم کی ٹیبلٹ بھی۔۔۔۔!
تو پھر کیا خیال ہے، ہو جائے ایک سموسہ۔۔۔۔
( اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب اور ویب سائٹس کے علاوہ bbc.com میں شائع ہونے والے مضمون سے بھی اقتباسات شامل ہیں)
بشکریہ فیس بک
گھر کا بنا لاہوری اچار
عام طور پر سموسے کو برصغیر کا پکوان سمجھا جاتا ہے لیکن سموسے کا اصل وطن وسطی ایشیا ہے اور یہ وہیں سے سفر کرتا ہوا ہند و پاک میں پہنچا ہے۔۔چائنیز ڈمپلنگز ہوں یا انگریزی پیٹیز۔۔۔ سموسہ ان میں سب سے زیادہ مقبول ہے اور ایشیا سے لے کر عربی ممالک تک مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے اور عوام میں مقبول ہے۔۔
یہ کوئ نیا پکوان نہیں بلکہ دسویں اور تیرھویں صدی کی کھانوں کی کتابوں میں '' سن بوسک''، سنبوسق یا سنبوسج کے نام سے اس کا ذکر ملتا ہے۔۔ ایران میں سموسے کو سمبوز کہا جاتا ہے۔۔
سموسے کا نام کی اصل دراصل سمسا ہے۔۔ وسطی ایشیا میں تکونے اہراموں کو سمسا کہا جاتا ہے اور وہیں سے سموسے کو یہ نام دیا گیا۔۔
پرانے زمانے میں یہ مسافروں کے لئے ایک پسندیدہ سنیک تھا۔۔۔ وہ دوران سفر قیمہ بھرے سمسا آگ کے الائو پر بھونتے اور پیٹ کی آگ بجھاتے۔۔
آج کے دور میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سموسہ ایک انڈین نمکین ڈش ہے لیکن اس سے وابستہ تاریخ کچھ اور ہی داستان بتاتی ہے۔
سموسے کا تعلق بنیادی طور سے ایران کی قدیم سلطنت سے ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سموسہ دہلی تک کیسے پہنچا؟ کہا جاتا ہے کہ چودھویں صدی کے شہنشاہ محمد تغلق کے دور میں سموسہ شاہی باورچی خانے کا لازمی سنیک تھا۔۔محمد شاہ تغلق اکثر گھی، پیاز اور قیمہ سے تیار شدہ سموسے کی فرمائش کرتا تھا۔۔
امیر خسرو نے بھی اپنی تحریروں میں اس کا ذکر کیا ہے کہ دہلی کا شاہی خاندان اس کو بے حد پسند کرتا تھا۔۔۔ امیر خسرو نے اپنی ایک پہیلی میں بھی سوسے کا ذکر کیا ہے۔۔
'' سموسہ کھایا نہیں جوتا پہنا نہیں''
وجہ دونوں کی ایک ہی ہے یعنی کہ تلا نہ تھا۔۔
سموسے کا پہلی بار ذکر 11 ویں صدی کے فارسی مورخ ابو الفضل بیہقی کی تحریروں میں ملتا ہے۔
انھوں نے غزنوي سلطنت کے شاہی دربار میں پیش کی جانے والی ’نمکین پیسٹری‘ کا ذکر کیا ہے۔ اس میں قیمہ اور خشک میوہ بھرا ہوتا تھا۔
اس پیسٹری کو اس وقت تک پکایا جاتا تھا جب تک کہ وہ خستہ نہ ہو جائے۔ لیکن مسلسل بر صغیر آنے والے تارکین وطن نے سموسے کی طرز اور رنگ کو بدل کر رکھ دیا۔
ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں اس کا ذکر سمبوسک کے نام سے کیا ہے۔۔وہ لکھتا ہے، "قیمے کو باداموں، پستوں، پیاز اور مصالحوں کے ساتھ پکا کر گندم کے ایک پتلے سے لفافے میں بھر کر گھی میں تلا جاتا اور تغلق کے شاہی محل میں پلاﺅ کے تیسرے دور سے قبل پیش کیا جاتا۔"
ابو الفضل نے اپنے مقبول اکبرنامہ جسے آئین اکبری بھی کہا جاتا ہے میں سنبوسہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے "گندم کا پکوان قطب بھی ایک ایسی چیز ہے جس سے شاہی گھرانے کو محبت ہے، اسے ہند کے عوام سن بوسہ کہتے ہیں اور ہم اسے سموسہ کہتے ہیں، مگر نام جو بھی ہو اس کا ذائقہ بے مثال ہے۔"
سموسہ بر صغیر اسی راستے پہنچا جس راستے سے دو ہزار برس پہلے آریائي نسل کے لوگ ہندوستان پہنچے تھے۔ سموسہ ہندوستان میں وسطی ایشیا کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے پہنچا جس علاقے کو آج افغانستان کہتے ہیں۔
باہر سے آنے والے ان تارکین وطن نے ہندوستان میں کافی کچھ تبدیل کیا اور ساتھ ہی ساتھ سموسے کی شکل میں بھی کافی تبدیلی آئی۔
وقت کے ساتھ جیسے ہی سموسہ تاجکستان اور ازبکستان پہنچا اس میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ اور جیسا کہ انڈیا میں کھانوں کے ماہر پرفیسر پوشپیش پنت بتاتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کسانوں کی ڈش بن گیا۔
صدیوں کے بعد سموسے نے ہندو کش کے برفانی دررو کو عبور کرتے ہوتے ہوئے برصغیر تک کا سفر طے کیا۔
سموسے کے سفر میں جو کچھ ہوا وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ پروفیسر پنت سموسے کو ’سم دھرمي ڈش‘ یعنی تمام ثقافتوں کے سنگم والا پکوان کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ سموسہ آپ کو بتاتا ہے کہ کس طرح سے یہ ڈش ہم تک پہنچی ہیں اور کس طرح انڈیا نے انھیں اپنی ضرورت کے حساب سے پورے طور پر تبدیل کر کے اپنا بنا لیا ہے۔‘
بھارت میں سموسے کو یہاں کے ذائقے کے حساب سے اپنائے جانے کے بعد یہ دنیا کا پہلا ’فاسٹ فوڈ‘ بن گیا۔ اس میں بھری جانی والی چیزیں بدل گئیں اور گوشت کی جگہ سبزیوں نے لے لی ہے۔
اب بھارت اور پاکستان میں آلو کے ساتھ مرچ اور مزیدار مصالحے بھر کر سموسے بنائے جاتے ہیں۔ سولہویں صدی میں پرتگالیوں کی طرف سے آلو لائے جانے کے بعد سے سموسے میں اس کا استعمال شروع ہوا۔
اس کے بعد سے سموسے میں اب تک تبدیلیاں جاری ہیں۔ انڈیا میں آپ جہاں کہیں بھی جائیں گے یہ آپ کو مختلف ہی شکل میں وہاں موجود ملےگا۔
مختلف علاقوں میں الگ الگ طرح کے سموسے ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ہی بازار میں مختلف دکانوں پر ملنے والے سموسوں کے ذائقہ میں کافی فرق ہوتا ہے۔
سموسہ کبھی اتنا بڑا ہوتا ہے کہ لگتا ہے کہ پورا کھانا ایک سموسے میں ہی نمٹ جائے گا اور کہیں اتنا ذرا سا کہ ایک ہی بائیٹ میں پورا ہوجاتا ہے-
سموسے کا سفر صرف ہندوستان میں ہی ختم نہیں ہوتا۔ برطانیہ کے لوگ بھی سموسہ خوب شوق سے کھاتے ہیں اور ہندوستانی تارکین وطن پچھلی چند صدیوں میں دنیا میں جہاں کہیں بھی گئے اپنے ساتھ سموسہ لے کر گئے ہیں۔
اس طرح سے ایرانی بادشاہوں کے اس شاہی پکوان کا آج تمام ممالک میں لطف اٹھایا جا رہا ہے۔
آج بھی سموسہ ممبئ سے کراچی تک عوام و خواص میں مقبول ہے۔۔ سموسہ گرما گرم کھایا جاتا ہے۔۔۔ ٹھنڈا سموسہ کھانے سے بہتر ہے انسان گالی کھا لے۔۔ گرما گرم خستہ اور کراری میدے کی سنہری بادامی سوندھی پرت کے ساتھ جب مزیدار قیمہ یا بھرتا دہی کی چٹنی کے ساتھ ہو تو ایک الگ ہی سواد ملتا ہے۔۔۔اکثر لوگ لنچ کی جگہ دو سموسے کھا کر اپنی بھوک مٹا لیتے ہیں۔۔
پاکستان کے زیادہ تر علاقوں اور ہندوستان میں دہلی، پنجاب، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش، اُتر پردیش اور شمالی ہند میں زیادہ تر آلو کے سموسے پسند کیے جاتے ہیں۔ مغربی بنگال میں اسے شنگاڑا بھی کہتے ہیں۔ سمومہ بنگال میں پہنچ کر شنگاڑا ہوجاتا ہے وہیں اس کی شکل بھی بدل جاتی ہے۔حیدرآباد دکن میں سموسہ چھوٹی شکل اختیار کرجاتا ہے جسے ’’لقمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ جنوبی ہند میں تیار ہونے والے سموسے پرتگالی انداز کے زیادہ قریب ہیں اور ان کی ترکیب میں بھی فرق ہے۔ پاکستان میں کراچی کے سموسے اپنے مصالحوں کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن حجم کے اعتبار سے فیصل آباد کے سموسوں کا کوئ مقابل نہیں۔
کراچی یونیورسٹی کی فارمیسی کی کنٹین جہاں پورا جامعہ امڈ پڑتا ہے، گرم گرم سموسے ٹائپ ٹکیہ جس کو ساتھ ملنے والی دہی کی چٹنی کے ساتھ پلیٹ میں چور مور کر کے چمچے کےساتھ کھانے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔۔۔۔
سموسوں کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس خبر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ وزارت اطلاعات و نشریات نے ایک سال میں صحافیوں پر60 لاکھ روپے مالیت کے سموسے ،پکوڑے اور چائے کی تواضع پر اڑا دیئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف وزارت اطلاعات و نشریات کی دستاویزات میں ہوا ہے۔
سموسہ بنانے میں مہارت درکار ہے کہ اس کا آٹا بیل کر ایک خاص شکل دینا اور پھر اس میں بھرتہ یا قیمہ وغیرہ بھر کر تکونی شکل بنانا۔۔ آجکل بازار میں سموسہ پٹی دستیاب ہے کہ جس کی مدد سے آپ مزیدار ورقی سموسے گھر پر بنا سکتے ہیں ہر شہر اور قصبے میں آپ کو مارکیٹ اور بازاروں کے نکڑ پر یا مٹھائ اور نمکو کی دکانوں پر شام تین بجے سے سموسوں کی تیاری میں مصروف کاریگر نظر آئیں گے جو انتہائ مہارت سےمیدے کی پتلی تہہ میں آلو کا مصالحہ دار بھرتا بھرتے نظر آئیں گے۔۔ ایک ساتھ درجنوں سموسے کھولتے ہوئے تیل کی دیو ہیکل کڑھائ میں ڈال دئے جاتے ہیں جو ذرا سی دیر میں سنہرا بادامی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔۔۔۔ شام کی چائے کے ساتھ یا مہمانوں کی تواضع کے لئے سموسہ لازمی سنیک سمجھا جاتا ہے۔۔کراچی میں حیدرآباد کالونی،فریسکو، یونائٹڈ کنگ کے سموسے کافی پسند کئے جاتے ہیں۔۔۔ فریسکو سوئٹ جو کہ کراچی کے برنس روڈ پر ایک قدیم مٹھائ کی دکان ہے کا عربی پراٹھا بھی سموسے کی ہی ایک شکل ہے لیکن وہ ایک گول اور خستہ پراٹھے کی
صورت میں ہوتا ہے جس مییں پیاز اور ہری مرچ کے ساتھ انڈا اور قیمہ بھرا ہوتا ہے۔
ایک جگہ پڑھا کہ جس نے سموسہ ایجاد کیا تھا۔۔۔۔اسکو قیامت کے دن بغیر حساب کتاب کے جنت میں بھیج دیا جانا چاہئے۔۔۔
عامر خاں اپنی فلم دنگل میں سموسے کے بارے میں کہتے ہیں کہ۔۔۔
پکوڑے کی ہا ہا کار کے بدلے ۔۔۔سموسے کی ایک دھاڑ ہے پیارے۔۔۔۔
مرزا غالب نے سموسے نہی بس آم ہی کھائے تھے۔۔۔۔ورنہ یک آدھا شعر سموسوں پر ضرور کہہ دیتے ۔۔۔۔یا یہ ضرور خواہش کرتے کہ سموسے ہوں۔۔۔۔کافی سارے ہوں۔۔۔اور ساتھ کھٹی میٹھی چٹنیاں ہوں۔۔۔۔۔اور مکس سلاد بھی۔۔۔۔اور چنے بھی۔۔۔۔اور کوک بھی۔۔۔اور ہری چٹنی بھی۔۔۔۔اور موٹیلئم کی ٹیبلٹ بھی۔۔۔۔!
تو پھر کیا خیال ہے، ہو جائے ایک سموسہ۔۔۔۔
( اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب اور ویب سائٹس کے علاوہ bbc.com میں شائع ہونے والے مضمون سے بھی اقتباسات شامل ہیں)
بشکریہ فیس بک
گھر کا بنا لاہوری اچار