حسن داور سراج
محفلین
ایک بڑی کمپنی کے گیٹ کے سامنے ایک مشہور سموسے کی دکان تھی.
لنچ ٹائم میں اکثر کمپنی کے ملازم وہاں آکر سموسے کھا یا کرتے تھے.
ایک دن کمپنی کے ایک منیجر، سموسے کھاتے کھاتے سموسےوالے سے مذاق کے موڈ میں آ گئے.
منیجر صاحب نے سموسےوالے سے کہا، “یار شاھد، تمہاری دکان تم نےبہت اچھی طرح سے سیٹ کی ھے، لیکن کیا تمہیں نہیں لگتا کے تم اپنا وقت اور ٹیلینٹ سموسے بیچ کر برباد کر رہے ھو؟ سوچو، اگر تم میری طرح اس کمپنی میں کام کر رہے ہوتے تو آج کہاں ہوتے؟ .. ھو سکتا ہے شاید آپ بھی آج منیجر ہوتے میری طرح .. “
اس بات پر سموسےوالے شاھد نے بڑا سوچا. اور بولا، “سر یہ میرا کام ااپكے کام سے کہیں بہتر ہے. 10 سال پہلے جب میں ٹوکری میں سموسے فروخت کرتا تھا تبھی آپ کی جاب لگی تھی، تب میں مہینہ بھر میں ہزار روپے کماتا تھا اور آپ کی تنخواہ تھی 10 ہزار.
ان 10 سالوں میں ہم دونوں نے خوب محنت کی ..
آپ سپروائزر سے منیجر بن گئے.
اور میں ٹوکری سے اس مشہور دکان تک پہچ گیا.
آج آپ مہینے کے 50،000 کماتے ہیں
اور میں مہینے کے 2،00،000 روپے…..
لیکن اس لئے میں اپنے کام کو آپ کے کام سے بہتر نہیں کہہ رہا ہوں.
بلکہ یہ تو میں بچوں کی وجہ سے کہہ رہا ہوں.
ذرا سوچئے…! کہ سر میں نے تو بہت کم روپوں سے دھندہ شروع کیا تھا. مگر میرے بیٹے کو یہ سب نہیں جھیلنا پڑے گا.
میری دکان میرے بیٹے کو ملے گی. میں نے زندگی میں جو محنت کی ہے، اس کا فائدہ میرے بچے اٹھائیں گے.
جبکہ آپ کی زندگی بھر کی محنت کا فائدہ آپ کے مالک کے بچے اٹھائیں گے ..
اب آپ اپنے بیٹے کو ڈائریکٹ اپنی پوسٹ پر تو نہیں بٹھا سکتے نا ..؟
اسے بھی آپ ہی طرح زیرو سے شروعات کرنی پڑے گی .. اور اپنی مدت کے اختتام میں وہیں پہنچ جائے گا جہاں ابھی آپ ھو.
جبکہ میرا بیٹا بزنس کو یہاں سے اور آگے لے جائے گا ..
اور اپنے دور میں ہم سب سے بہت آگے نکل جائے گا ..
اب آپ ہی بتائیے کہ کیسے میراوقت اور ٹیلنٹ برباد ہو رہا ھے؟ “
منیجر صاحب نے سموسےوالے کو 2 سموسے کے 20 روپے دیئے اور بغیر کچھ بولے وہاں سے کھسک لیے …
لنچ ٹائم میں اکثر کمپنی کے ملازم وہاں آکر سموسے کھا یا کرتے تھے.
ایک دن کمپنی کے ایک منیجر، سموسے کھاتے کھاتے سموسےوالے سے مذاق کے موڈ میں آ گئے.
منیجر صاحب نے سموسےوالے سے کہا، “یار شاھد، تمہاری دکان تم نےبہت اچھی طرح سے سیٹ کی ھے، لیکن کیا تمہیں نہیں لگتا کے تم اپنا وقت اور ٹیلینٹ سموسے بیچ کر برباد کر رہے ھو؟ سوچو، اگر تم میری طرح اس کمپنی میں کام کر رہے ہوتے تو آج کہاں ہوتے؟ .. ھو سکتا ہے شاید آپ بھی آج منیجر ہوتے میری طرح .. “
اس بات پر سموسےوالے شاھد نے بڑا سوچا. اور بولا، “سر یہ میرا کام ااپكے کام سے کہیں بہتر ہے. 10 سال پہلے جب میں ٹوکری میں سموسے فروخت کرتا تھا تبھی آپ کی جاب لگی تھی، تب میں مہینہ بھر میں ہزار روپے کماتا تھا اور آپ کی تنخواہ تھی 10 ہزار.
ان 10 سالوں میں ہم دونوں نے خوب محنت کی ..
آپ سپروائزر سے منیجر بن گئے.
اور میں ٹوکری سے اس مشہور دکان تک پہچ گیا.
آج آپ مہینے کے 50،000 کماتے ہیں
اور میں مہینے کے 2،00،000 روپے…..
لیکن اس لئے میں اپنے کام کو آپ کے کام سے بہتر نہیں کہہ رہا ہوں.
بلکہ یہ تو میں بچوں کی وجہ سے کہہ رہا ہوں.
ذرا سوچئے…! کہ سر میں نے تو بہت کم روپوں سے دھندہ شروع کیا تھا. مگر میرے بیٹے کو یہ سب نہیں جھیلنا پڑے گا.
میری دکان میرے بیٹے کو ملے گی. میں نے زندگی میں جو محنت کی ہے، اس کا فائدہ میرے بچے اٹھائیں گے.
جبکہ آپ کی زندگی بھر کی محنت کا فائدہ آپ کے مالک کے بچے اٹھائیں گے ..
اب آپ اپنے بیٹے کو ڈائریکٹ اپنی پوسٹ پر تو نہیں بٹھا سکتے نا ..؟
اسے بھی آپ ہی طرح زیرو سے شروعات کرنی پڑے گی .. اور اپنی مدت کے اختتام میں وہیں پہنچ جائے گا جہاں ابھی آپ ھو.
جبکہ میرا بیٹا بزنس کو یہاں سے اور آگے لے جائے گا ..
اور اپنے دور میں ہم سب سے بہت آگے نکل جائے گا ..
اب آپ ہی بتائیے کہ کیسے میراوقت اور ٹیلنٹ برباد ہو رہا ھے؟ “
منیجر صاحب نے سموسےوالے کو 2 سموسے کے 20 روپے دیئے اور بغیر کچھ بولے وہاں سے کھسک لیے …