رضوان
محفلین
سندھ کی تاریخ اور ثقافت کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھنے کا کام سندھیالوجی( Sindhalogy) والوں نے بڑی عرق ریزی سے انجام دیا ہے۔ محدود وسائل اور انتظامی و سیاسی مشکلات کے باوجود تاریخ کے اس گراں مایہ سرمائے کو سنبھال رکھنا اور طلباء و عوام کو رہنمائی فراہم کرنا قابلِ تعریف امر ہے۔
سندھیالوجی میوزیم(Sindhalogy )جامشورو میں سپر ہائی وے سے سہون کو جانے والی سڑک کے کنارے واقع ہے اس تک رسائی بہت ہی آسان ہے اور مشہور عمارت ہے ۔کراچی سے اگر آ رہے ہوں تو حیدرآباد کے قریب پہلے ہی ٹول پلازہ کے بعدسپر ہائی وے سے الٹے ہاتھ کو ایک دو رویہ سڑک سہون کی طرف جاتی ہوئی ملے گی جس پر درجنوں کے حساب سے رکشے کھڑے ہوں گے مگر لائن سے سواریوں کا انتظار کرتے ہوئے۔ اسی راستہ پر سندھیالوجی سے پہلے مہران انجیئنرنگ یونیورسٹی کا ایگزٹ (مخرج) ملے گا اور پھر بائیں ہاتھ ہی کو سندھیالوجی کی عمارت املتاس اور ناری کے درختوں میں گھری ہالہ کی مخصوص نیلی ٹائلوں سے مزین آپ کا استقبال کریگی۔ سپر ہائی وے سے اسکا فاصلہ بمشکل 5 کلومیٹر ہے اور کراچی سے 160 کلومیٹر۔
اس عجائب گھر میں وادی مہران کی تہزیب (Indus valley Civilization ) کے حوالے سے تصاویر، تحاریر، مجسموں کے علاوہ آڈیو ویڈیو مواد بھی موجود ہے۔
گراؤنڈ فلور پر جہاں ( Moen jo Darou) اور سندھ کے دیگر تاریخی مقامات سے برآمد ہونے والے نوادرات ڈسپلے کیے گئے ہیں وہیں ساتھ ہی گندھارا (Gandhara) عہد اور دیگر پڑوسی ہمعصر تہزیبوں کے نمونے بھی موجود ہیں۔
سندھہ کی تہزیب و ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے اور یہاں آباد مختلف قبائل اور لسانی گروہوں کا رہن سہن دکھانے کے لیے سیکنڈ فلور کو حقیقی زندگی کی تجسیم کر کے مختلف پیشوں سے وابستہ گھرانوں کو دکھایا گیا ہے۔
زندگی کے تقریباً تمام ہی شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد کی تصاویر اور روزمرہ استعمال کی اشیاء جمع کر کے انکی نمائش کی گئی ہے۔ ایک پوری گیلری بھٹو خاندان کے متعلق ہے جسمیں ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی استعمال کی اشیاء کے علاوہ بینظیر بھٹو کو ملنے والے تحائف بھی رکھے گئے ہیں۔