سندھ: شیر، بلا بےاثر

حسان خان

لائبریرین
پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کے جادو کا اثر صوبہ سندھ میں سر چڑھ کر نہیں بول سکا۔ دوسرے صوبوں کے برعکس یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی گرفت مضبوط رہی ہے۔

گھوٹکی، سکھر، لاڑکانہ، قنبر شہداد کوٹ، جیکب آباد، کشمور/کندھ کوٹ، نوابشاہ، مٹیاری، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالہ یار، بدین، میرپورخاص، عمرکوٹ، جام شورو اور دادو اضلاع میں پاکستان پیپلز پارٹی نے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی تمام نشستیں سمیٹ لی ہیں۔

انتخابات میں صدر آصف علی زرداری کے خاندان کے تمام افراد کامیاب ہوگئے ہیں۔ ان کی بہن ڈاکٹر عذرا پیچوہو نوابشاہ سے، دوسری بہن فریال تالپور قمبر شہداد کوٹ سے اور زرداری کے بہنوئی میر منور تالپور ڈگھڑی کوٹ غلام محمد سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔

سندھ کے مخدوم خاندان نے بھی کامیابی حاصل کی ہے، پاکستان پیپلز پارلیمینٹرین کے سربراہ مخدوم امین فہیم قومی اور ان کے بھائی مخدوم رفیق اور بیٹے مخدوم جمیل الزماں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے ہیں، جب کہ مخدوم امین کے ایک اور بیٹے مخدوم نعمت اللہ کو ننگرپارکر شہر کی نشست پر برتری حاصل تھی۔

گھوٹکی کی دونوں قومی اسمبلی کی نشستوں پر مہر برادران علی گوہر مہر اور علی محمد مہر نے کامیابی حاصل کی ہے، اسی طرح بدین میں قومی اسمبلی کی نشست پر سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا اور صوبائی اسمبلی پر ان کے بیٹے حسنین مرزا نے کامیابی حاصل کی ہے۔

مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر الٰہی بخش سومرو ہار گئے ہیں، وہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 208 سے امیدوار تھے، یہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر اعجاز جکھرانی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

خیرپور میں سابق وزیرِاعلیٰ اور میاں نواز شریف کے جلاوطنی کے ساتھی غوث علی شاھ کو قومی اور صوبائی نشستوں پر شکست ہوئی ہے، صوبائی اسمبلی پر سابق وزیرِاعلیٰ سید قائم علی شاہ اور قومی اسمبلی پر پیپلز پارٹی کے نواب وسان نے کامیابی حاصل کی ہے۔

مسلم لیگ ن سے وابستہ سابق وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر لیاقت جتوئی قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے ہیں، انھیں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عمران لغاری نے شکست دی، لیاقت جتوئی کو خیرپور ناتھن شاہ کے صوبائی حلقے سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار پروین عزیز جونیجو امیدوار تھیں۔

سندھ میں مسلم لیگ ن کو کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 258 سے کامیابی حاصل کی ہے، یہاں سے حکیم بلوچ امیدوار تھے، جن کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ رزاق بلوچ سے تھا۔

1988 سے اس نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی یہاں کامیابی حاصل کرتی رہی ہے، لیکن تنظیمی کے اندرونی اختلافات کے باعث حکیم بلوچ پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے تھے۔

تحریکِ انصاف کے امیدوار شاہ محمود قریشی کو قومی اسمبلی کے حلقے این اے 228 پر شکست ہوئی ہے، یہاں ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر نواب یوسف ٹالپور سے تھا، شاہ محمود قریشی چھاچھرو تھر کی قومی اسمبلی کی نشست سے بھی امیدوار تھے، جہاں نتائج روک لیے گئے ہیں۔

سندھ میں عوام نے ایک بار پھر قوم پرستوں کو مسترد کر دیا ہے۔ قوم پرست مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ فنکشنل کے اتحادی تھے۔ پاکستان عوامی تحریک کے امیدوار ایاز لطیف پلیجو شکست کھا گئے ہیں، قاسم آباد حیدرآباد کے صوبائی حلقے میں ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جام خان شورو سے تھا۔

سندھ یونائٹڈ پارٹی کے سربراہ اور جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ انھیں این اے 231 پر پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک اسد سکندر نے شکست دی، سید جلال محمود شاہ کے بھائی زین شاہ کو سکرنڈ کے صوبائی حلقے سے شکست ہوئی ہے، یہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے غلام قادر چانڈیو نے کامیابی حاصل کی ہے۔

کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی ہے، گذشتہ انتخابات میں اے این پی نے صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں حاصل کی تھیں۔ حالیہ انتخابات میں اہل سنت و الجماعت سابق سپاہِ صحابہ کے امیدوار اورنگزیب فاروقی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا مقابلہ اے این پی کے امان اللہ محسود سے تھا، جن پر الیکشن کے دن حملہ کیا گیا تھا۔

مسلم لیگ فنکشنل سندھ کی تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ تنظیم کے رہنما پیر پگاڑا کے بیٹے صدر الدین شاہ نے قومی اسمبلی کی دو نشستوں خیرپور اور سانگھڑ سے کامیابی حاصل کی ہے، اس کے علاوہ جماعت کے شکارپور سے امیدوار سابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر، اور سانگھڑ سے پیر بخش جونیجو کامیاب ہوئے ہیں۔

ربط
 

حسان خان

لائبریرین
ن لیگ نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں خود کچھ کرنے کے بجائے وہ سیاسی بونے اکٹھے کیے تھے جن کا کوئی ووٹ بینک نہیں ہے۔ دوسری طرف تحریکِ انصاف نے تو سرے سے سندھ پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ایسے میں سندھ کا ان دونوں جماعتوں کو گھاس نہ ڈالنا فطری بات ہے۔
 
جمہوریت بہترین انتقام ثابت ہوئی ہے پنجاب کی حد تک۔۔۔۔ یہ جمہوریت نواز شریف سے بھی بہترین انتقام لے گی اگلے الیکشن میں ! عمرا ن خان کی پی ٹی آئی نے پی ایم ایل این کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔۔۔کسی چینل پر کس ی نے بڑی اچھی بات کہی کے پی پی پی کو 2007ء میں ناموں یا خاندانوں نہیں جتوایا تھا لیکن اس بار پی پی پی کو صرف ناموں اور خاندانوں نے جتوایا ہے۔۔۔ مہاجروں کے قائد نے مبارکباد کے ساتھ اپنی جماعت کی آئندہ سیاسیت کی راہ بھی متعین کردی ہے۔۔۔ اگر سمجھ ہے تو سمجھ لو۔۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
تحریکِ انصاف کا کراچی کا جلسہ ملتوی کرنا ایک بڑی غلطی تھی ۔ عمران خان کا زخمی ہونا بھی ایک بڑا نقصان ثابت ہوا
مگر بظاہر روایتی سیاست کا بُت توڑنے میں ہم ناکام رہے۔ بظاہر اس لئے کہ ہم نشستیں نہیں جیت سکے ۔
اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ بد دل ہو کر سیاست میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں یا پھر اس کے لئے کوشش جاری رکھتے ہیں
 

زبیر مرزا

محفلین
تحریکِ انصاف کا کراچی کا جلسہ ملتوی کرنا ایک بڑی غلطی تھی ۔ عمران خان کا زخمی ہونا بھی ایک بڑا نقصان ثابت ہوا

کراچی کے جوحالات تھے ان میں جلسہ بہت بڑا رسک ہوتا میں تواس کا ملتوی کرنا پی ٹی آئی کا دانشمندانہ اقدام سمجھتا ہوں​
 

حسان خان

لائبریرین
تحریکِ انصاف کا کراچی کا جلسہ ملتوی کرنا ایک بڑی غلطی تھی ۔

کراچی اور بقیہ سندھ کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کراچی میں وہ جلسے بھی کر لیتا تو کیا فرق پڑ جاتا؟ کراچی میں تو تحریکِ انصاف کی ویسے ہی کافی مقبولیت تھی۔

سندھ کے دل پر اثر انداز ہونے کے لیے اندرونِ سندھ کے شہروں اور دیہی علاقوں میں جلسے ضروری تھے۔
 

زرقا مفتی

محفلین

کراچی کے جوحالات تھے ان میں جلسہ بہت بڑا رسک ہوتا میں تواس کا متلوی کرنا پی ٹی آئی کا دانشمندانہ اقدام سمجھتا ہوں​
زبیر صاحب موت کا دن تو مقرر ہے ۔ لاہور میں بے وجہ حادثہ ہو گیا اللہ نے بچانا تھا بچا لیا۔ کراچی کے الیکشن کے لئے حکمتِ عملی خراب تھی ۔ متحدہ سے لوگ بہت تنگ ہیں پھر دو دو لاکھ ووٹ کہاں سے نکل رہے ہیں
 

زرقا مفتی

محفلین
کراچی اور بقیہ سندھ کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کراچی میں وہ جلسے بھی کر لیتا تو کیا فرق پڑ جاتا؟ کراچی میں تو تحریکِ انصاف کی ویسے ہی کافی مقبولیت تھی۔

سندھ کے دل پر اثر انداز ہونے کے لیے اندرونِ سندھ کے شہروں اور دیہی علاقوں میں جلسے ضروری تھے۔
آپ نے بجا فرمایا سندھ میں صرف تین چار جگہ ہی جلسے ہوئے۔ لیکن اگر نتائج پر نظر ڈالیں تو پنجاب اور سندھ میں روایتی سیاستدان کامیاب ہوئے ہیں ۔ جو ان کے ساتھ نہ تھے
 
تحریکِ انصاف کا کراچی کا جلسہ ملتوی کرنا ایک بڑی غلطی تھی ۔ عمران خان کا زخمی ہونا بھی ایک بڑا نقصان ثابت ہوا
مگر بظاہر روایتی سیاست کا بُت توڑنے میں ہم ناکام رہے۔ بظاہر اس لئے کہ ہم نشستیں نہیں جیت سکے ۔
اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ بد دل ہو کر سیاست میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں یا پھر اس کے لئے کوشش جاری رکھتے ہیں

میرا خیال ہے کہ تحریک انصاف نے راہ متعین کر دی ہے اور جو جوش اور ولولہ نوجوانوں میں پیدا ہو گیا ہے وہ اب جانے والا نہیں۔

پیپلز پارٹی کے جیالوں کے بعد اب چالیس سال بعد انصافین پیدا ہو گئے ہیں اور کچھ پرانے اور آزمودہ جیالے بھی پہلی پارٹی سے مایوس ہو کر اس نئی پارٹی میں پرانے جوش کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔

پہلی اننگز ختم ہوئی اور مسلم لیگ نے تحریک انصاف کو فالو آن پر مجبور کر دیا مگر باری خود ہی لے لی ہے ۔ :)

اب بیٹ کرے گی مسلم لیگ ن اور گیندیں کروائے گی تحریک انصاف :)۔
 
مت پوچھئیے کیا سوچ کے دل توڑ دیا ہے
جو توڑدیا، توڑدیا، توڑ دیا ہے۔۔۔۔۔
کیا غم ہے جو طوفان سے ہم ڈوب گئے ہیں
رخ دیکھئے طوفان کا، جو موڑ دیا ہے۔۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
اب تحریک انصاف کے پاس پانچ سال ہیں کہ سندھ پر کام کرے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ سندھ میں جاگیردارانہ نظام جو کہ دنیا میں ختم ہوئے سو سال ہو چکے ہیں ابھی تک قائم ہے اور اس ایشو پر کوئی بات نہیں کرتا۔ انڈیا میں نہرو نے سب سے پہلا کام لینڈ ریفارم کا کیا تھا۔ لیکن مسلم لیگ تو خیر جاگیرداروں سے بھری پڑی تھی تو وہ ایسا کیونکر کر سکتے تھے۔ لیکن اب تو وقت آ گیا ہے کہ اس مسئلے پر توجہ دی جائے۔
 
Top