دوسری سطر میں لکھا ہے :
۔۔۔ ۔ مہاجر گزشتہ ۶۵ برس سے سندھ میں آباد ہیں ۔۔۔ ۔
بندہ پوچھے کہ ۶۵ سے آباد بھی ہیں اور ابھی بھی مہاجر ہی ہیں۔
مجھے صرف ایک ہی کام کا بندہ ملا ایم کیو ایم میں وہ ہے مصظفی کمال ۔ پر جو رپورٹ پہنچی اس مین یہ بھی شامل ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ ترقیاتی کام مہاجر آبادی مین کرائے جناب نےبالکل اسی طرح جس طرح کالے امریکیوں کو عمومی طور پر ایفریکن امیریکنز کہا جاتاہے۔۔۔ ۔ مجھے افسوس ہے کہ سندھ کے تعصب پرست قوم پرست سیاست دانوں اور عوام کی طرح پاکستان کی پڑھی لکھی عوام بھی تعصب برتتی ہے۔ اگر انہیں پاکستانی مانتے ہو تو بھائی حق کیوں نہیں دیتے؟ کیوں سندھی بولنے والے اپنے تسلط کی خاطر کمشنری نظام اور کوٹہ نظام پر مصر ہیں؟؟ اگر ایم کیو ایم 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں شہری حکومت نہ بنا پاتی تو کراچی 1947 سے بھی کئی دہائیاں پیچھے ہوتا آج۔ میں جانتا ہوں اس لیے کہ میں کراچی میں رہتا ہوں یہاں کماتا ہوں۔ بہت آسان ہے باہر سے تنقید کرنا۔ صرف سڑکوں، پانی، نکاسی وغیرہ کو ہی لے لیں تو مصطفیٰ کمال کے 4،5 سال کراچی کو بچا گئے ہیں کچھ عرصے کے لیے۔ ورنا choke ہوچکا ہوتا یہ شہر سندھ کے "اصل" باسیوں کے ہاتھوں کہ جن کے علاوہ کراچی پر حکومت کرنے کا حق کسی اور کو نہیں۔ جیسا کہ پچھلے 4 سال سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کراچی پیچھے ہی پیچھے جا رہا ہے۔
مجھے صرف ایک ہی کام کا بندہ ملا ایم کیو ایم میں وہ ہے مصظفی کمال ۔ پر جو رپورٹ پہنچی اس مین یہ بھی شامل ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ ترقیاتی کام مہاجر آبادی مین کرائے جناب نے
بہرحال مجھے اس کے کام پسند آئے لیکن مجھے تعصب اور نسلی یا لسانی ناموں سے چڑ ہے شاید اور ایم کیو ایم اسے گہرا کر رہی ہے ۔بھٹ شاہ جزیرے میں ایم کیو ایم کا ایک بھی نام لیوا نہیں ہے۔۔۔ وہاں سمندر میں پانی کا پائپ ڈال کر پانی پہنچایا۔۔۔ لیاری کے لیے پانی کی لائن ڈلوائی۔۔۔ مزید یہ کہ کراچی میں 80 فیصد آبادیاں ہیں ہی مہاجروں کی۔ دوسری بات یہ کہ جب سندھ میں بلدیاتی نظام تھا تو شہری حکومت سندھ حکومت کے فنڈز سے کام کرتی اور بہت سارے محکمے سندھ حکومت کے پاس ہی تھے۔ 2008-09 میں سندھ حکومت میں پی پی پی آگئی تھی تو اس طرح ڈیڑھ سال تک مصطفیٰ کمال کی راہ میں یہ لوگ روڑے اٹکاتے رہے۔ نہ اسے کام کرنے دیا نہ خود کام کیا۔۔۔ اس بات کا میں گواہ ہوں، نہ صرف کراچی کا ایک ایک پروجیکٹ فالو کرتا تھا خبروں میں بلکہ بہت سی جگہیں دیکھتا بھی تھا جا کر۔۔۔ مصطفیٰ کمال راتوں کو چھاپے مارتا تھا پروجیکٹس پر۔ سوتا کس وقت تھا یہ نہیں پتا۔۔ بہرحال۔۔۔ میں کیا کہوں جب ناانصافی نظر نہیں آتی "پاکستانیوں" کو اور جو بندہ پاکستان کی ترقی کے لیے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے مہاجر کہہ کر سائڈ میں کردیتے ہیں اور جب وہ اپنی پہچان کو مہاجر ہی بنا لیتا ہے چڑ کر تو کہتے ہیں "ہااااا تو ابھی تک مہاجر ہے؟ تو تو ہندوستان چھوڑ کر آگیا تھا 65 سال پہلے"۔۔۔ ۔ اللہ پوچھے گا ان نام نہاد پاکستانیوں سے۔۔۔
بہرحال مجھے اس کے کام پسند آئے لیکن مجھے تعصب اور نسلی یا لسانی ناموں سے چڑ ہے شاید اور ایم کیو ایم اسے گہرا کر رہی ہے ۔
بھائیوں میں پہلے بھی بتا چکا ہوں میرے نانا پنجابی ہیں۔ میرے دادا پنجابی ہیں اور پاکستان بننے سے پہلے سے پاکستان میں موجود تھے، یہاں نوکری کرتے تھے۔ مگر اب مجھے مہاجر کیوں کہا جاتا ہے؟؟ میں کس سیاسی جماعت کو سپورٹ کروں کہ جس سے میرے پاکستانی ہونے کا ثبوت ملے؟ نون لیگ پنجابی ہے، پی پی پی سندھی ہے، ایم کیو ایم غدار اور دہشت گردہے، اے این پی پشتون ہے، پی ٹی آئی دوسرے جماعتوں کے لوٹوں سے بھری ہوئی۔۔۔ میں کہاں جاؤں؟ کون مجھے میرا حق دلوائے گا مجھے پاکستانی تسلیم کروائے گا؟
اگرچہ مجھے پسند نہیں کہ کراچی کے حوالے سے کسی بھی لسانی معاملے میں یا تعصب پر مبنی مراسلے کا جواب بھی دوں مگر بعض اوقات مجبوری ہوتی ہے۔ سیدھی بات ہی پائیدار ہوتی ہے ورنہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا اگر مل بھی جائے تو وقتی ہوتی ہے۔بھٹ شاہ جزیرے میں ایم کیو ایم کا ایک بھی نام لیوا نہیں ہے۔۔۔ وہاں سمندر میں پانی کا پائپ ڈال کر پانی پہنچایا۔۔۔ لیاری کے لیے پانی کی لائن ڈلوائی۔۔۔ مزید یہ کہ کراچی میں 80 فیصد آبادیاں ہیں ہی مہاجروں کی۔ دوسری بات یہ کہ جب سندھ میں بلدیاتی نظام تھا تو شہری حکومت سندھ حکومت کے فنڈز سے کام کرتی اور بہت سارے محکمے سندھ حکومت کے پاس ہی تھے۔ 2008-09 میں سندھ حکومت میں پی پی پی آگئی تھی تو اس طرح ڈیڑھ سال تک مصطفیٰ کمال کی راہ میں یہ لوگ روڑے اٹکاتے رہے۔ نہ اسے کام کرنے دیا نہ خود کام کیا۔۔۔ اس بات کا میں گواہ ہوں، نہ صرف کراچی کا ایک ایک پروجیکٹ فالو کرتا تھا خبروں میں بلکہ بہت سی جگہیں دیکھتا بھی تھا جا کر۔۔۔ مصطفیٰ کمال راتوں کو چھاپے مارتا تھا پروجیکٹس پر۔ سوتا کس وقت تھا یہ نہیں پتا۔۔ بہرحال۔۔۔ میں کیا کہوں جب ناانصافی نظر نہیں آتی "پاکستانیوں" کو اور جو بندہ پاکستان کی ترقی کے لیے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے مہاجر کہہ کر سائڈ میں کردیتے ہیں اور جب وہ اپنی پہچان کو مہاجر ہی بنا لیتا ہے چڑ کر تو کہتے ہیں "ہااااا تو ابھی تک مہاجر ہے؟ تو تو ہندوستان چھوڑ کر آگیا تھا 65 سال پہلے"۔۔۔ ۔ اللہ پوچھے گا ان نام نہاد پاکستانیوں سے۔۔۔
کراچی میں دو کروڑ مہاجر تو نہیں ہیں۔ یہاں لاکھوں پختون، پنجابی اور سندھی بھی آباد ہیں۔۔۔ بلوچ الگ ہیں۔۔۔ مہاجر ایک کروڑ بھی نہیں ہونگے۔۔۔
آپ جذباتی مت ہو یار وقت ایک سا نہیں رہتا ہم سب کو مسائل ہیں اور ہر علاقے کے لوگوں کو شکایت ہے ۔ ایم کیو ایم کی سیاست یا مہاجر جماعت پر کس کافر کو انکار ہے ؟ اصل بات قتل و غارت کی ہے جو ایم کیو ایم کرتی رہی ہے ۔ مجھے ایم کیو ایم سے بالکل کوئی مسئلہ نہیں لیکن میرے خیال سے سیاست میں ہتھیار کراچی مین ایم کیو ایم لائی اس لیے وہ قابل نفرت بنی ہوئی ہے سندھی قوم پرستوں نے اس کے بعد اور پٹھانوں نے ابھی اس دیکھا دیکھی مسلح گروپ بنائے سیاست حقوق نام سے کس کافر کو انکار ہے دوست ۔ اور آپکی اس بات سے میں بالکل متفق ہوں کہ ان کی طرح اپکو بھی چانس ملنا چاہیے پر یہ مسئلہ آپ کے درمیاں میں ہے جس مین مرکز کودے تو دونوں طرف سے پس جاتا ہے ۔ اس لیے اسلام آباد شاید خاموش ہے ۔ یہ اکیلا علاقہ ایسا نہین بلوچ سرائیکی ہزارہ مکرانی بہت سوں کو یہ شکایت ہے پر کہیں بھی 10 لاشیں ڈیلی نہین گر رہی سوائے کراچی کے ۔ پہلے یہ رکے تو بات کی نوبت بھی آئے نا
اگرچہ مجھے پسند نہیں کہ کراچی کے حوالے سے کسی بھی لسانی معاملے میں یا تعصب پر مبنی مراسلے کا جواب بھی دوں مگر بعض اوقات مجبوری ہوتی ہے۔ سیدھی بات ہی پائیدار ہوتی ہے ورنہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا اگر مل بھی جائے تو وقتی ہوتی ہے۔
اگر ہم اس پر متفق ہو جائیں تو مسئلہ شاید صرف ایلیٹ کلاس رہ جائے گی۔لاشیں گر کس بنا پر رہی ہیں یہ بھی تو سمجھ میں آئے۔ پرسوں منگھوپیر میں فیکٹری میں کوئی بم پھینک گیا تھا، میرے گھر سے کوئی 3،4 کلومیٹر ہے۔ اتنا زوردار دھماکہ تھا کہ میں بتا نہیں سکتا۔ ہر مرنے والا ایم کیو ایم کا بندہ نہیں ہے۔ تو کون مار رہا ہے اور کیوں مار رہا ہے؟ ہتھیار کراچی میں لانے کا الزام متحدہ کے سر پر ہے لیکن ایم کیو ایم بننے سے پہلے جب پختون مہاجر آبادیوں پر حملے کرتے تھے اس کا الزام کس کے سر پر جائے گا؟ الطاف تو اس وقت بچہ تھا۔ میرے ابو بتاتے ہیں کہ قائد آباد کے پٹھان حملہ کرنے ہمارے علاقے لانڈھی میں گھستے تھے تو لوگ پہرے دیتے تھے۔ وہ ایم کیو ایم والے تو نہیں تھے۔ اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پٹھان ہمیشہ سے ہتھیار رکھتا ہے اور اسلحے کو اپنا زیور کہتا ہے۔ پٹھانوں میں ہتھیار کی روایت شاید انگریز کی بدولت ہے۔ تو کراچی کے پٹھانوں کے پاس شروع سے جو اسلحہ تھا اس کا الزام بھی الطاف کے سر آئے گا؟
الزام تو جماعت پر بھی ہے کراچی میں کلاشنکوف لانے کا۔ الزام ثابت کیسے ہوگا؟ جماعت کے بارے میں یہ بات ریکورڈ پر ہے کہ پہلے یہ فلسطین، افغانستان کے نام پر نوجوانوں کو جہاد کروانے لے جاتے تھے پھر افغان جہاد ختم ہوا تو یہی کشمیر جانے لگے۔۔۔ اور جو بچا کچھا اسلحہ تھا وہ کراچی میں جھونک دیا۔۔۔ اس الزام کو جھٹلا دو۔۔۔ تو پھر الطاف بھی اپنا الزام جھٹلا دیگا۔۔۔ فیصلہ کیسے ہوگا؟
10 لاشیں ڈیلی صرف کراچی میں نہیں گر رہیں۔۔۔ جب شمالی علاقوں میں فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے تو وہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ پشاور میں روز دھماکے، کوئٹہ میں روز دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ۔۔ سوائے پنجاب کے تقریبا ہر جگہ یہی ہورہا ہے۔ کراچی میں صرف ایم کیو ایم ہی مسلح جماعت نہیں ہے۔ ایک بات آپ کو بتاؤں ایم کیو ایم کی پہلے سی طاقت کراچی میں نہیں رہی۔ مذہبی، جہادی جماعتیں، پی پی پی، اے این پی۔۔۔ کافی کچھ بیلینس ہوگیا ہے کراچی میں۔ طالبان نے آ کر سارا بیلینس بگاڑ دیا ہے۔۔۔ امن کمیٹی سونے پر سہاگہ کر رہی ہے۔ بندے پکڑے جا رہے ہیں بھائی طالبان اور امن کمیٹی کے۔ بے حساب اسلحہ پکڑا گیا ہے۔۔ کسی کو سزا نہیں ہوئی آج تک۔۔ ایم کیو ایم والوں کو بھی پکڑو سزا دو۔۔۔ جو قصور وار ہے اسے سزا ملنی چاہیے تاکہ معاشرے کو پتا چلے قانون کی بالادستی کا۔ جب قانون اپنی بالادستی قائم نہیں کرتا تو عوام بدمعاش ہوجاتی ہے۔ چاہے وہ مہاجر ہوں یا پٹھان۔۔۔ انسانی فطرت میں برائی ہے۔ مہاجر فرشتے نہیں ہیں۔ بدمعاشی اور جرم کی کوئی زبان یا قوم نہیں ہوتی۔
میں سمجھا نہیں ظہیر بھائی۔۔۔
اس شہر کے ساتھ ساتھ ایسے اور بڑے شہر بسانے چاہیے 100 کلو میٹر چھوڑ کر ساحل پر تا کہ اس جنگل نما شہر پر بوجھ کم ہو میرے خیال سے
یہ ضروری ہے کنٹرول کرنے کے لیے کراچی میں نئی انڈسٹری نا لگانے دی جائے ہر نئی چیز پر پابندی لگا دی جائے اور ایک نیا فری زون ٹیکس فری شہر بسانا چاہیے جہان پر جابز ہوں سہولتیں ہوں تا کہ لوگ یہاں سے نکلیں ۔ ویسے بھی اب لوگ لاہور اسلام اباد میں خود کو اپنے بزنس کو محفوظ سمجھتے ہین بنسبت کراچی کے ۔عسکری بھائی آپ کی اس بات سے برسوں پہلے طارق عزیز شو میں طارق عزیز صاحب کے منہ سے سنی ہوئی ایک حدیث یاد آگئی جس کا مفہوم کچھ ایسا ہی تھا کہ جب آبادی شہر کی گنجائش سے بڑھ جائے تو نئے شہر بساؤ۔ نا کہ اسی شہر کی حدیں پھیلاتے جاؤ۔