جاسم محمد
محفلین
سندھ میں لکی شاہ صدر کے نمکین چشمے
28 جولائی ، 2019
اختر حفیظ
جب بھی تاریخ کی ورق گردانی کی جاتی ہے اور ان اوراق سے دھول صاف ہوتی ہے تو حقائق سامنے آنے لگتے ہیں۔ مگر آج بھی یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ سندھ کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کے ضرورت ہے۔ مجھے اپنے سفر میں ہر بار کچھ نہ کچھ نیا ملتا ہے۔ اس بار مجھے پانی کے ان نمکین چشموں کی تلاش تھی جو سالہا سال سے لوگوں کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔
ان نمکین چشموں کے قریب دنیا جہاں کے فقیر، سنیاسی اور جوگی قیام کرتے تھے۔
پانی کے یہ نمکین چشمے لکی شاہ صدر میں ہیں، یہ علاقہ سندھ کے مشہور شہر سیہون سے 19 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے دائیں کنارے آباد ہے۔ سندھ کے نامور محقق پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ’اوہے ڈیہن اوہے شیہن (وہ دن وہ لوگ)‘ میں لکھتے ہیں کہ ’قدیم زمانے میں یہ لکیاری سادات کا گڑھ تھا جہاں سید علی مکی کی اولاد نے بسیرا کیا، مگر پھر یہ جگہ ہندوؤں کا تیرتھ بن گئی۔ ریلوے سٹیشن کا نام تیرتھ لکی رکھا گیا، جو کہ ہندوستان کی تقیسم کے بعد لکی شاہ صدر میں تبدیل ہو گیا۔ لکی شہر اور سٹیشن کے سامنے پہاڑوں میں گرم پانی کا چشما ہندوؤں کے پاس تھا۔ وہاں انہوں نے ایک مندر بھی تعمیر کروایا تھا، یہاں جلد کی امراض میں مبتلا مریض نہانے آتے تھے۔ اس کے علاوہ دنیا جہاں کے فقیر، سنیاسی، اور جوگی یہاں ٹھکانا بنا کر قیام کرتے تھے۔ مسافروں کی آمدو رفت کی وجہ سے لکی سٹیشن کے بالکل سامنے ایک دھرم شالا بھی بنی ہوئی تھی جہاں آرام کر کے مسافر لکی شاہ کا سفر کرتے تھے۔‘
اس شہر کے مختلف ناموں میں ایک دھارا تیرتھ بھی رہا ہے
لیکن اس شہر کا نام مختلف زمانوں میں تبدیل ہوتا رہا ہے۔ جن میں سے ایک نام ’دھارا تیرتھ‘ بھی رہا ہے، یہاں کے چشموں کا پانی ایک دھارا (بہاؤ) کی شکل میں تھا، اس لیے اسے دھارا تیرتھ بھی کہا جاتا ہے۔ چشموں کا پانی ایک لمبی دھارا کی شکل میں اونچائی سے بہہ کر نیچے زمین پر آتا ہے، یہ پانی لکی پہاڑ سے نکل کر آتا ہے جوکہ پہاڑ کے تنگ راستوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ سندھی زبان میں ’لک‘ ایک بڑے پہاڑ سے گزرنے والے چھوٹے سے راستے کو کہا جاتا ہے۔
اس مقام پر شیو دیوتا کا لگنے والا میلا ایک اہم ترین تہوار تھا، کافی عرصہ قبل یہاں ہندوؤں کا اہم ترین تہوار شوراتری بھی منایا جاتا تھا۔ جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ سندھ میں یہ پہاڑی سلسلہ کھیرتھر پہاڑی سلسلے کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ کراچی سے شروع ہو کر مشرق کی جانب سے ہوتا ہوا یہاں تک آتا ہے۔ یہ سندھ کے اہم ترین پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہے۔
ہندو اس مقام پر اپنے مذہبی تقریبات بھی مناتے تھے۔
آج بھی یہاں مندر قائم ہے جہاں ہندو پوجا کرنے آتے ہیں اور وہ غار بھی موجود ہے جہاں عورتیں منت مانگنے جاتی ہیں۔ لیکن یہ منظر آنکھوں کو اس لیے بھی موہ لیتا ہے کیونکہ یہاں سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ میں گندرف والے چشموں کا رنگین پانی موجود ہے۔ جس کے بہاؤ کی آواز کو پہاڑ کی مکمل خاموشی میں بخوبی سنا جا سکتا ہے۔ یہ جگہ درحقیقت ہندوؤں کے لیے ایک مقدس مقام رہی ہے اور آج بھی اسے وہی مرتبہ حاصل ہے۔ الیگزینڈر برنس اپنی کتاب The Navigation of the Indus and a Journey by Balkh and Bokhara میں لکھتے ہیں کہ ’میرے خیال میں ان پہاڑوں کی اونچائی 200 فٹ ہو گی، پہاڑ کی اوپر والی چوٹیاں گول ہیں اور کہیں بھی مخروطی شکل نظر نہیں آئی۔ جہاں پانی کے بہاؤ کے نشانات ہیں۔ جو کہ دریائے سندھ کی جانب بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘
یہ ایک اہم سیاحی مقام بن سکتا ہے۔
آج اس مقام کا ماضی والا عروج تو نہیں رہا ہے اور نہ ہی یہاں اس طرح کے میلے سجتے ہیں مگر پھر بھی اس جگہ کی وہی اہمیت ہے جو آج سے کئی برس قبل تھی۔ لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور انہیں اس بات کا یقین آج بھی ہے کہ یہاں سے انہیں شفا ملتی ہے۔ ان تمام تر معاملات کو ایک جانب رکھ کر محض اس مقام کو سیر و سیاحت کے حوالے سے دیکھا جائے یا ماضی میں جس طرح اس کی اہمیت رہی ہے تو یہ ایک اہم ترین مقام سمجھا جائے گا۔ قطرہ قطرہ بہتے پانی کی موسیقی سننا اور اس پانی کا ایک جگہ جمع ہونے والا منظر کافی دلفریب سا لگتا ہے۔
آج لکی شاہ کے چشموں کی رونقیں ماند سی پڑ گئی ہیں، یہاں ایک ایسا سلسلا تھا جو اس جگہ کی پہچان بنا ہوا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہاں ویرانی نے اپنا ڈیرہ ڈال دیا، آج یہاں بس پہاڑ کے سینے سے بہتے ہوئے چشموں کی آوازیں ہی سنی جا سکتی ہیں۔
28 جولائی ، 2019
اختر حفیظ
جب بھی تاریخ کی ورق گردانی کی جاتی ہے اور ان اوراق سے دھول صاف ہوتی ہے تو حقائق سامنے آنے لگتے ہیں۔ مگر آج بھی یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ سندھ کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کے ضرورت ہے۔ مجھے اپنے سفر میں ہر بار کچھ نہ کچھ نیا ملتا ہے۔ اس بار مجھے پانی کے ان نمکین چشموں کی تلاش تھی جو سالہا سال سے لوگوں کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔
ان نمکین چشموں کے قریب دنیا جہاں کے فقیر، سنیاسی اور جوگی قیام کرتے تھے۔
پانی کے یہ نمکین چشمے لکی شاہ صدر میں ہیں، یہ علاقہ سندھ کے مشہور شہر سیہون سے 19 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے دائیں کنارے آباد ہے۔ سندھ کے نامور محقق پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ’اوہے ڈیہن اوہے شیہن (وہ دن وہ لوگ)‘ میں لکھتے ہیں کہ ’قدیم زمانے میں یہ لکیاری سادات کا گڑھ تھا جہاں سید علی مکی کی اولاد نے بسیرا کیا، مگر پھر یہ جگہ ہندوؤں کا تیرتھ بن گئی۔ ریلوے سٹیشن کا نام تیرتھ لکی رکھا گیا، جو کہ ہندوستان کی تقیسم کے بعد لکی شاہ صدر میں تبدیل ہو گیا۔ لکی شہر اور سٹیشن کے سامنے پہاڑوں میں گرم پانی کا چشما ہندوؤں کے پاس تھا۔ وہاں انہوں نے ایک مندر بھی تعمیر کروایا تھا، یہاں جلد کی امراض میں مبتلا مریض نہانے آتے تھے۔ اس کے علاوہ دنیا جہاں کے فقیر، سنیاسی، اور جوگی یہاں ٹھکانا بنا کر قیام کرتے تھے۔ مسافروں کی آمدو رفت کی وجہ سے لکی سٹیشن کے بالکل سامنے ایک دھرم شالا بھی بنی ہوئی تھی جہاں آرام کر کے مسافر لکی شاہ کا سفر کرتے تھے۔‘
اس شہر کے مختلف ناموں میں ایک دھارا تیرتھ بھی رہا ہے
لیکن اس شہر کا نام مختلف زمانوں میں تبدیل ہوتا رہا ہے۔ جن میں سے ایک نام ’دھارا تیرتھ‘ بھی رہا ہے، یہاں کے چشموں کا پانی ایک دھارا (بہاؤ) کی شکل میں تھا، اس لیے اسے دھارا تیرتھ بھی کہا جاتا ہے۔ چشموں کا پانی ایک لمبی دھارا کی شکل میں اونچائی سے بہہ کر نیچے زمین پر آتا ہے، یہ پانی لکی پہاڑ سے نکل کر آتا ہے جوکہ پہاڑ کے تنگ راستوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ سندھی زبان میں ’لک‘ ایک بڑے پہاڑ سے گزرنے والے چھوٹے سے راستے کو کہا جاتا ہے۔
اس مقام پر شیو دیوتا کا لگنے والا میلا ایک اہم ترین تہوار تھا، کافی عرصہ قبل یہاں ہندوؤں کا اہم ترین تہوار شوراتری بھی منایا جاتا تھا۔ جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ سندھ میں یہ پہاڑی سلسلہ کھیرتھر پہاڑی سلسلے کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ کراچی سے شروع ہو کر مشرق کی جانب سے ہوتا ہوا یہاں تک آتا ہے۔ یہ سندھ کے اہم ترین پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہے۔
ہندو اس مقام پر اپنے مذہبی تقریبات بھی مناتے تھے۔
آج بھی یہاں مندر قائم ہے جہاں ہندو پوجا کرنے آتے ہیں اور وہ غار بھی موجود ہے جہاں عورتیں منت مانگنے جاتی ہیں۔ لیکن یہ منظر آنکھوں کو اس لیے بھی موہ لیتا ہے کیونکہ یہاں سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ میں گندرف والے چشموں کا رنگین پانی موجود ہے۔ جس کے بہاؤ کی آواز کو پہاڑ کی مکمل خاموشی میں بخوبی سنا جا سکتا ہے۔ یہ جگہ درحقیقت ہندوؤں کے لیے ایک مقدس مقام رہی ہے اور آج بھی اسے وہی مرتبہ حاصل ہے۔ الیگزینڈر برنس اپنی کتاب The Navigation of the Indus and a Journey by Balkh and Bokhara میں لکھتے ہیں کہ ’میرے خیال میں ان پہاڑوں کی اونچائی 200 فٹ ہو گی، پہاڑ کی اوپر والی چوٹیاں گول ہیں اور کہیں بھی مخروطی شکل نظر نہیں آئی۔ جہاں پانی کے بہاؤ کے نشانات ہیں۔ جو کہ دریائے سندھ کی جانب بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘
یہ ایک اہم سیاحی مقام بن سکتا ہے۔
آج اس مقام کا ماضی والا عروج تو نہیں رہا ہے اور نہ ہی یہاں اس طرح کے میلے سجتے ہیں مگر پھر بھی اس جگہ کی وہی اہمیت ہے جو آج سے کئی برس قبل تھی۔ لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور انہیں اس بات کا یقین آج بھی ہے کہ یہاں سے انہیں شفا ملتی ہے۔ ان تمام تر معاملات کو ایک جانب رکھ کر محض اس مقام کو سیر و سیاحت کے حوالے سے دیکھا جائے یا ماضی میں جس طرح اس کی اہمیت رہی ہے تو یہ ایک اہم ترین مقام سمجھا جائے گا۔ قطرہ قطرہ بہتے پانی کی موسیقی سننا اور اس پانی کا ایک جگہ جمع ہونے والا منظر کافی دلفریب سا لگتا ہے۔
آج لکی شاہ کے چشموں کی رونقیں ماند سی پڑ گئی ہیں، یہاں ایک ایسا سلسلا تھا جو اس جگہ کی پہچان بنا ہوا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہاں ویرانی نے اپنا ڈیرہ ڈال دیا، آج یہاں بس پہاڑ کے سینے سے بہتے ہوئے چشموں کی آوازیں ہی سنی جا سکتی ہیں۔