مہوش علی
لائبریرین
سندھ کی سطح پر ایک خاص قسم کا کوٹہ سسٹم نافذ ہے جو کہ پاکستان کے کسی اور صوبے میں نافذ نہیں۔ اس نظام کے تحت سندھ کو شہری سندھ (کراچی، حیدر آباد اور سکھر) اور دیہی سندھ میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ شہری سندھ کا حصہ 40 فیصد ہے، جبکہ دیہی سندھ کا حصہ 60 فیصد ہے۔ یہ نظام 40 سال قبل قائم کیا گیا اور اس وقت شہری سندھ اور دیہی سندھ کی آبادی میں اتنا فرق نہیں تھا۔ مگر 40 سال میں شہری سندھ کی آبادی نقل مکانی کی وجہ سے بہت بڑھ چکی ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی یہ بل بہت زیادہ غیر متوازن ہو چکا ہے۔
کوٹہ سسٹم کے لیے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دیہی سندھ میں تعلیمی ادارے کم ہے۔ چنانچہ متبادل تجویز دی جاتی ہے کہ پھر سندھ کے تعلیمی اداروں کے لیے علیحدہ بجٹ رکھ دیا جائے، مگر تعلیم کی کمی کے نام پر پورے سندھ کے ہر ہر سرکاری ادارے میں میرٹ کا قتل کرتے ہوئے کوٹہ سسٹم رائج نہ کیا جائے۔ اگلی تجویز یہ ہے کہ کراچی اور شہری سندھ کے تعلیمی اداروں میں کوٹہ برقرار رہنے دیا جائے، مگر دیگر سرکاری اداروں میں نوکریوں پر سے پھر کوٹہ سسٹم نکال کر میرٹ سسٹم جاری کر دیا جائے۔ مگر پیپلز پارٹی اور سندھ قوم پرستوں کو یہ دونوں تجاویز قبول نہیں۔
سفارش کلچر: کوٹہ سسٹم پر سونے پر سہاگہ
اور زیادہ خطرناک بات پیپلز پارٹی حکومت کے وڈیروں کا سفارش کلچر ہے۔ شہری سندھ کا جو 40 فیصد کوٹہ بتلایا بھی جاتا ہے، اس میں بھی کراچی و حیدر آباد اور سکھر کے ان لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہوتا ہے جو کہ سندھی وڈیروں کے اپنے بندے ہوتے ہیں۔ اس کوٹہ بمع سفارس کلچر کا نیٹ رزلٹ مہاجر کمیونٹی کے لیے پچھلے 40 سال سے انتہائی خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ اسکی چند مثالیں ذیل میں دیکھئے:۔
۔1۔ این ای ڈی یونیورسٹی کراچی میں کراچی کے طلباء کا کوٹہ 7٪ ہے۔ اندرون سندھ کا کوٹہ 60٪ ہے، سیلف فنانس کا کوٹہ 15٪، میرٹ صرف 10٪ اور بقیہ 8٪ بقیہ صوبوں کا ہے۔
۔2۔ سندھ میڈیکل کالج اور داؤد میڈیکل یونیورسٹی میں کراچی کا کوٹہ صرف 5٪ ہے، اندرون سندھ کا کوٹہ 55٪ ہے، میرٹ 20٪، سیلف فنانس 15٪ اور 5٪ دیگر صوبوں کا۔
۔3۔ سندھ کی سرکاری نوکری میں یوں تو کراچی کا حصہ 40 فیصد ہے، لیکن کراچی کی سیٹوں پر بھی اندرون سندھ کے وڈیرے میرٹ کا قتل کرتے ہوئے کراچی سے فقط سندھیوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ اس 40 فیصد میں سے 33فیصد نوکریاں کراچی کے سندھیوں کو ملتی ہیں جبکہ مہاجروں کا حصہ فقط 7 فیصد ہے۔
چنانچہ سندھ کے اداروں میں سندھیوں کا کل حصہ 85 فیصد سے زیادہ ہے، جبکہ مہاجروں کا کل حصہ فقط 7٪ ہے (بقیہ دیگر قومیتیوں کا حصہ ہے)۔
مثلا، سندھ کے 5 کمیشنرز میں سے کوئی ایک بھی مہاجر نہیں ۔۔۔ جبکہ 27 ڈپٹی کمشنرز میں سے صرف 2 مہاجر ہیں۔
۔4۔ کراچی پولیس:۔
ذوالفقار مرزا نے ہزاروں کی تعداد میں رحمان ڈکیٹ کی فوج کے جرائم پیشہ افراد کو کراچی پولیس میں بھرتی کیا۔
سپریم کورٹ نے کراچی سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران فیصلہ دیا کہ کراچی پولیس میں 40 فیصد تک سیاسی بھرتیاں کی گئیں۔ مگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باوجود انکے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا سکا کیونکہ پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی میں طاقت کے ساتھ بیٹھی ہے۔
خود سوچئے، جس شہر کی پولیس خود جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہو، وہاں خاک امن و امان قائم ہو گا؟ یہ پولیس کراچی میں بذات خود سب سے بڑی بھتہ مافیا ہے، بلکہ دیگر تمام چھوٹی مافیاز خود آخر میں پولیس کو بھتہ دے رہی ہوتی ہیں اور پولیس انہیں پروٹیکشن مہیا کرتی ہے۔
۔5۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا بیان کہ انہوں نے 90 فیصد ججز اندرون سندھ سے بھرتی کیے ہیں(جنگ اخبار کی خبر کا لنک)۔
سب سے اہم ادارے کی طرف آتے ہیں، جو کہ ہے عدلیہ کا ادارہ۔ آپ یہ سن کر پریشنا ہو جائیں گے کہ چیف جسٹس سندھ عالم مشیر صاحب بڑے فخر سے بیان کر رہے ہیں کہ انہوں نے 90 فیصد ججز اپنے دور میں اندرون سندھ سے بھرتی کیے ہیں۔ اور جو بقیہ 10 فیصد شہر سے بھرتی کی گئی ہے، اسکے متعلق بھی غالب امکان ہے کہ انکا تعلق بھی شاید اندرون سندھ کمیونٹی سے ہو۔
۔6۔ دیہی سندھ کی ترقی کے لیے 670 ارب روپے، مگر شہری سندھ کے لیے فقط 30 ارب روپے؟؟؟
۔(خبر کا لنک)۔
شہری سندھ (جس میں کراچی، حیدرآباد، سکھر اور نوابشاہ آتے ہیں) کی تعمیر و ترقی کے لیے پیپلز پارٹی حکومت کے دور میں فقط 30 ارب روپے رکھے گئے، جبکہ 670 ارب روپیہ دیہی سندھ کی ترقی کے لیے مختص کیا گیا۔
کراچی جو مصطفی کمال کے دور میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا، آج اس وجہ سے دوبارہ تقریبا کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ 670 ارب روپے دیہی سندھ کی ترقی میں کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے اور کچھ ترقیاتی کام وہاں نہیں ہوا اور وڈیرے یہ سب پیسہ خود ہضم کر گئے۔
۔7۔ پیپلز پارٹی کا شہری نظام حکومت کا حلیہ تباہ کر دینا
کیا آپ کو علم ہے کہ پیپلز پارٹی نے نیا نظام متعارف کروایا ہے جو کہ بذات خود "دہرا نظام" ہے۔ اس نظام کے تحت دیہی علاقوں کا 1 ووٹ، شہری علاقوں کے 5 تا 10 ووٹوں کے برابر اہمیت کا حامل بن سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر شاید پیپلز پارٹی دعوی کر رہی ہے کہ اب کی دفعہ کراچی میں میئر انکا آئے گا۔
دیگر پوائنٹ یہ ہے کہ شہری نظام کے تمام بال و پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ تمام کے تمام مالی معاملات صوبائی حکومت کے تحت ہی رہیں گے۔ مثلا ہم جو کچرا، و صفائی اور سڑکوں کی تعمیر وغیر کے نام پر مقامی میونسپل ٹیکس دیتے ہیں، وہ بھی صوبائی حکومت ہی اکھٹا کرے گی اور پھر آگے تقسیم بھی وہی کرے گی۔ میئر کو اجازت نہیں ہو گی کہ وزیر اعلی کی اجازت کے بغیر کوئی قدم اٹھا سکے اور وہ تمام تر فرنڈز صوف وہاں ہی استعمال کر سکتا ہے جہاں وزیر اعلی چاہے گا۔
چنانچہ پھر میئر اور شہری نظام کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اگر وزیر اعلی نے پروجیکٹ منظور کرنے ہیں، تو پھر شہری خکومت کو ختم کر کے سارا اختیار وزیر اعلی کو ہی دے دیا جائے۔
کوٹہ سسٹم کے لیے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دیہی سندھ میں تعلیمی ادارے کم ہے۔ چنانچہ متبادل تجویز دی جاتی ہے کہ پھر سندھ کے تعلیمی اداروں کے لیے علیحدہ بجٹ رکھ دیا جائے، مگر تعلیم کی کمی کے نام پر پورے سندھ کے ہر ہر سرکاری ادارے میں میرٹ کا قتل کرتے ہوئے کوٹہ سسٹم رائج نہ کیا جائے۔ اگلی تجویز یہ ہے کہ کراچی اور شہری سندھ کے تعلیمی اداروں میں کوٹہ برقرار رہنے دیا جائے، مگر دیگر سرکاری اداروں میں نوکریوں پر سے پھر کوٹہ سسٹم نکال کر میرٹ سسٹم جاری کر دیا جائے۔ مگر پیپلز پارٹی اور سندھ قوم پرستوں کو یہ دونوں تجاویز قبول نہیں۔
سفارش کلچر: کوٹہ سسٹم پر سونے پر سہاگہ
اور زیادہ خطرناک بات پیپلز پارٹی حکومت کے وڈیروں کا سفارش کلچر ہے۔ شہری سندھ کا جو 40 فیصد کوٹہ بتلایا بھی جاتا ہے، اس میں بھی کراچی و حیدر آباد اور سکھر کے ان لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہوتا ہے جو کہ سندھی وڈیروں کے اپنے بندے ہوتے ہیں۔ اس کوٹہ بمع سفارس کلچر کا نیٹ رزلٹ مہاجر کمیونٹی کے لیے پچھلے 40 سال سے انتہائی خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ اسکی چند مثالیں ذیل میں دیکھئے:۔
۔1۔ این ای ڈی یونیورسٹی کراچی میں کراچی کے طلباء کا کوٹہ 7٪ ہے۔ اندرون سندھ کا کوٹہ 60٪ ہے، سیلف فنانس کا کوٹہ 15٪، میرٹ صرف 10٪ اور بقیہ 8٪ بقیہ صوبوں کا ہے۔
۔2۔ سندھ میڈیکل کالج اور داؤد میڈیکل یونیورسٹی میں کراچی کا کوٹہ صرف 5٪ ہے، اندرون سندھ کا کوٹہ 55٪ ہے، میرٹ 20٪، سیلف فنانس 15٪ اور 5٪ دیگر صوبوں کا۔
۔3۔ سندھ کی سرکاری نوکری میں یوں تو کراچی کا حصہ 40 فیصد ہے، لیکن کراچی کی سیٹوں پر بھی اندرون سندھ کے وڈیرے میرٹ کا قتل کرتے ہوئے کراچی سے فقط سندھیوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ اس 40 فیصد میں سے 33فیصد نوکریاں کراچی کے سندھیوں کو ملتی ہیں جبکہ مہاجروں کا حصہ فقط 7 فیصد ہے۔
چنانچہ سندھ کے اداروں میں سندھیوں کا کل حصہ 85 فیصد سے زیادہ ہے، جبکہ مہاجروں کا کل حصہ فقط 7٪ ہے (بقیہ دیگر قومیتیوں کا حصہ ہے)۔
مثلا، سندھ کے 5 کمیشنرز میں سے کوئی ایک بھی مہاجر نہیں ۔۔۔ جبکہ 27 ڈپٹی کمشنرز میں سے صرف 2 مہاجر ہیں۔
۔4۔ کراچی پولیس:۔
ذوالفقار مرزا نے ہزاروں کی تعداد میں رحمان ڈکیٹ کی فوج کے جرائم پیشہ افراد کو کراچی پولیس میں بھرتی کیا۔
سپریم کورٹ نے کراچی سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران فیصلہ دیا کہ کراچی پولیس میں 40 فیصد تک سیاسی بھرتیاں کی گئیں۔ مگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باوجود انکے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا سکا کیونکہ پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی میں طاقت کے ساتھ بیٹھی ہے۔
خود سوچئے، جس شہر کی پولیس خود جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہو، وہاں خاک امن و امان قائم ہو گا؟ یہ پولیس کراچی میں بذات خود سب سے بڑی بھتہ مافیا ہے، بلکہ دیگر تمام چھوٹی مافیاز خود آخر میں پولیس کو بھتہ دے رہی ہوتی ہیں اور پولیس انہیں پروٹیکشن مہیا کرتی ہے۔
۔5۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا بیان کہ انہوں نے 90 فیصد ججز اندرون سندھ سے بھرتی کیے ہیں(جنگ اخبار کی خبر کا لنک)۔
سب سے اہم ادارے کی طرف آتے ہیں، جو کہ ہے عدلیہ کا ادارہ۔ آپ یہ سن کر پریشنا ہو جائیں گے کہ چیف جسٹس سندھ عالم مشیر صاحب بڑے فخر سے بیان کر رہے ہیں کہ انہوں نے 90 فیصد ججز اپنے دور میں اندرون سندھ سے بھرتی کیے ہیں۔ اور جو بقیہ 10 فیصد شہر سے بھرتی کی گئی ہے، اسکے متعلق بھی غالب امکان ہے کہ انکا تعلق بھی شاید اندرون سندھ کمیونٹی سے ہو۔
۔6۔ دیہی سندھ کی ترقی کے لیے 670 ارب روپے، مگر شہری سندھ کے لیے فقط 30 ارب روپے؟؟؟
۔(خبر کا لنک)۔
شہری سندھ (جس میں کراچی، حیدرآباد، سکھر اور نوابشاہ آتے ہیں) کی تعمیر و ترقی کے لیے پیپلز پارٹی حکومت کے دور میں فقط 30 ارب روپے رکھے گئے، جبکہ 670 ارب روپیہ دیہی سندھ کی ترقی کے لیے مختص کیا گیا۔
کراچی جو مصطفی کمال کے دور میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا، آج اس وجہ سے دوبارہ تقریبا کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ 670 ارب روپے دیہی سندھ کی ترقی میں کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے اور کچھ ترقیاتی کام وہاں نہیں ہوا اور وڈیرے یہ سب پیسہ خود ہضم کر گئے۔
۔7۔ پیپلز پارٹی کا شہری نظام حکومت کا حلیہ تباہ کر دینا
کیا آپ کو علم ہے کہ پیپلز پارٹی نے نیا نظام متعارف کروایا ہے جو کہ بذات خود "دہرا نظام" ہے۔ اس نظام کے تحت دیہی علاقوں کا 1 ووٹ، شہری علاقوں کے 5 تا 10 ووٹوں کے برابر اہمیت کا حامل بن سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر شاید پیپلز پارٹی دعوی کر رہی ہے کہ اب کی دفعہ کراچی میں میئر انکا آئے گا۔
دیگر پوائنٹ یہ ہے کہ شہری نظام کے تمام بال و پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ تمام کے تمام مالی معاملات صوبائی حکومت کے تحت ہی رہیں گے۔ مثلا ہم جو کچرا، و صفائی اور سڑکوں کی تعمیر وغیر کے نام پر مقامی میونسپل ٹیکس دیتے ہیں، وہ بھی صوبائی حکومت ہی اکھٹا کرے گی اور پھر آگے تقسیم بھی وہی کرے گی۔ میئر کو اجازت نہیں ہو گی کہ وزیر اعلی کی اجازت کے بغیر کوئی قدم اٹھا سکے اور وہ تمام تر فرنڈز صوف وہاں ہی استعمال کر سکتا ہے جہاں وزیر اعلی چاہے گا۔
چنانچہ پھر میئر اور شہری نظام کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اگر وزیر اعلی نے پروجیکٹ منظور کرنے ہیں، تو پھر شہری خکومت کو ختم کر کے سارا اختیار وزیر اعلی کو ہی دے دیا جائے۔