محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
وادیٔ سندھ میں زمانہ قدیم سے ایسی کار آمد چیزیں تیار ہوتی رہی ہیں ،جو نہ صرف قدیم قبائلی اور زرعی سماج میں بڑی اہمیت کی حامل تھیں بلکہ آج کے جدید دور میں بھی ان کی اہمیت و افادیت، خوب صورتی اور دل کشی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور اس بات پر دو رائے نہیں ہوسکتی کہ سندھ کے باسی انسانی سماج کی تشکیل کے دور سے ہی بڑے ہنر مند تھے، ان کے ہاتھ سے بنائی ہوئی چیزیں اقوام عالم میں بڑی پزیرائی حاصل کرتی رہی ہیں۔سندھ کی ثقافت کی ایک قدیم دست کاری سوسی کا کپڑا بھی ہے، جو کپاس اور ریشم کے دھاگے کی ملاوٹ سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی تیاری میں ’’چرخے‘‘ کا استعمال ہوتا ہے ۔چرخے پر تیار کی جانے والی سوسی بے حد آرام دہ، سادہ اور خوب صورت ہوتی ہے۔
تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ قدیم بولونیا (بابل) کے باسی کپاس کو’’ سندھو‘‘ کے نام سے پہچانتے تھے، کیوں کہ وہ سندھ سے آتی تھی۔ یوں تو دنیا کی یہ قدیم تہذیبیں اور قومیں مثلاً میسوپوٹیمیا، مصر اور شام وغیرہ تو صدیوں سے سندھ کی سوتی مصنوعات سے استفادہ کرتی چلی آرہی تھیں لیکن مغرب اور یونانیوں کو کپاس، سوتی دھاگے، سوتی کپڑے وغیرہ کا پتا اس وقت چلا جب سکندراعظم کی فوج کے سپاہی سندھ سے واپسی پر سندھ کی سوتی مصنوعات اپنے ساتھ بہ طور سوغات لے گئے۔یہ کپڑے اس قدر باریک، نرم و ملائم ہوتے تھے کہ ایک مغربی محقق ڈاکٹر جیمس اے بی شیر نے اپنی کتاب ’’کاٹن ایزورلڈ پاور‘‘ میں ان کو صبا سے بُنے گئے جالوں سے تعبیر کیا ہے۔ یونان اور مغربی دنیا میں اس کپڑے کو ’’سنڈن‘‘ کہا جاتا تھا۔ سندھ کے اس کپڑے نے اپنی نرمی اور لطافت کی وجہ سے مغربی شعر و ادب میں بھی اپنی جگہ بنائی اور عظیم انگریز مصنفوں نے اس کا ذکر اپنی تحریروں میں کیا۔
ربط