سندھ ہائیکورٹ کا پرویزمشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم
کراچی....سندھ ہائیکورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منظورکرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ سابق صدر مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ فیصلے پر 15 دن تک عمل درآمد نہیں ہوگا،اس عرصے میں مخالف فریق اپیل دائر کرسکتے ہیں۔سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہ نواز طارق پر مشتمل بینچ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق درخواست فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد 29 مئی کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ گذشتہ سماعت پر پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت نے حقائق چھپائے جو بدنیتی پر مبنی ہےآئین کے مطابق کسی کو انفرادی طور پر آئین پامال کرنےکا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، پرویز مشرف نے تین نومبر کی ایمرجنسی وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کی مشاورت سے لگائی۔ تمام شواہد و حقائق کا ریکارڈ موجود ہے لیکن اسے غائب یا ختم کیا جا رہا ہے۔ جواب میں موقف اختیار کیا گیا کہ سابق صدر کی والدہ علیل ہیں اور ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہےعلاج اور تیمارداری کےلئے وہ باہر جانا چاہتے ہیں ۔بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ کا 31مارچ 2014کاتفصیلی فیصلہ آنے کے بعد 8 اپریل 2013 کا عبوری حکم ختم ہوگیا ،اس لیے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے ۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ سنگین غداری کے مقدمے کی تفتیش کے لئے پرویز مشرف کی ملک میں موجودگی ضروری ہے۔ سنگین غداری کے مقدمے کی سزا موت یا عمر قید ہے اور یہ سیاسی جرائم کے زمرے میں آتاہے۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے 8 اپریل 2013 کو اپنے حکم میں دو ہدایات دیں۔ ایک یہ کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اور اس حکم کو عدالت کی کسی ترمیم یا نظر ثانی تک برقرار رکھا جائے ۔دوسری ہدایت یہ تھی کہ وفاق کے تمام ادارے پرویز مشرف کو ملک سے باہر نہ جانے دیں۔ اٹارنی جنرل نےسندھ ہائی کورٹ کے اختیار سماعت پر بھی اعتراض برقرار رکھا۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو آج سنادیا گیا۔
کراچی....سندھ ہائیکورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منظورکرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ سابق صدر مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ فیصلے پر 15 دن تک عمل درآمد نہیں ہوگا،اس عرصے میں مخالف فریق اپیل دائر کرسکتے ہیں۔سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہ نواز طارق پر مشتمل بینچ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق درخواست فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد 29 مئی کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ گذشتہ سماعت پر پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت نے حقائق چھپائے جو بدنیتی پر مبنی ہےآئین کے مطابق کسی کو انفرادی طور پر آئین پامال کرنےکا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، پرویز مشرف نے تین نومبر کی ایمرجنسی وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کی مشاورت سے لگائی۔ تمام شواہد و حقائق کا ریکارڈ موجود ہے لیکن اسے غائب یا ختم کیا جا رہا ہے۔ جواب میں موقف اختیار کیا گیا کہ سابق صدر کی والدہ علیل ہیں اور ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہےعلاج اور تیمارداری کےلئے وہ باہر جانا چاہتے ہیں ۔بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ کا 31مارچ 2014کاتفصیلی فیصلہ آنے کے بعد 8 اپریل 2013 کا عبوری حکم ختم ہوگیا ،اس لیے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے ۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ سنگین غداری کے مقدمے کی تفتیش کے لئے پرویز مشرف کی ملک میں موجودگی ضروری ہے۔ سنگین غداری کے مقدمے کی سزا موت یا عمر قید ہے اور یہ سیاسی جرائم کے زمرے میں آتاہے۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے 8 اپریل 2013 کو اپنے حکم میں دو ہدایات دیں۔ ایک یہ کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اور اس حکم کو عدالت کی کسی ترمیم یا نظر ثانی تک برقرار رکھا جائے ۔دوسری ہدایت یہ تھی کہ وفاق کے تمام ادارے پرویز مشرف کو ملک سے باہر نہ جانے دیں۔ اٹارنی جنرل نےسندھ ہائی کورٹ کے اختیار سماعت پر بھی اعتراض برقرار رکھا۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو آج سنادیا گیا۔