سند ھ اور ظالموں کا چنگل۔۔۔۔۔۔ طلعت حسین

سندھ کی عظیم الشان سر زمین میں ہوا بہت تیز چلتی ہے۔ ریتلے علاقے میں پل بھر میں بڑے بڑے ٹیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ سمندروں سے اٹھنے والے طوفان بڑی بڑی کشتیوں کو الٹا دیتے ہیں، اس خطہ زمین پر آپ کو تہذیب و تمدن کے ایسے نشانات ملیں گے جو سبق آموز بھی ہیں اور روح پر ور بھی۔
یہاں کے ملاح اور زمینوں پر کام کرنے والے دیہاڑی دار عورتیں اور بچے سخت ترین دھوپ میں ناریل کے تناور درختوں کی طرح کھڑے رہتے ہیں۔ دریائے سندھ کی لہریں ہر روز پو پھٹنے سے لے کر غروب آفتاب تک ان جفاکش لوگوں کی محنت اور عظمت کو سلام پیش کرتی ہیں۔ رات گئے ٹھنڈی ہوا سرگوشیاں کرتی ہے کہ ایسی قوم جو مسائل کے پہاڑ کو سر پر اٹھائے ہر آنے والے کی مہربانی کو اپنا ایمان سمجھتی ہے اور مشکلات کے جنگلوں میں رہتے ہوئے اپنی ثقافت سے منہ نہیں موڑتی یقیناً ہر کسی کے لیے قابلِ توجہ اور قابلِ ستائش ہے۔
مگر تاریخ کی ایک بڑی ستم ظریفی ہے کہ یہ ذہین و فطین، محنتی قوم برسوں سے ایک ایسے استحصالی نظام میں جکڑی ہوئی ہے جس کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اس استحصال کا ایک ذریعہ اسٹیبلشمنٹ بنی ہے۔ مرکز کی طرف مائل قوتوں نے سندھ کے آزاد منش باسیوں کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق ڈھالنا چاہا، چاہے قومی زبان کا مسئلہ ہو یا ترقیاتی وسائل کی تقسیم، سیاسی نمایندگی کا معاملہ ہو یا پاکستان کی خارجہ پالیسی اس طویل عرصے تک سندھی دوسرے صوبے کے باسیوں کی طرح نظام کے مظالم کا شکار رہے۔
مرکز میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ساحل سمندر کے بغیر نہیں بنتے اور پانی کو روکنے والے کبھی نہ کبھی اس کے غضب کا شکار یقیناً ہو جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی، سیاسی پانیوں پر بند باندھنے والوں کے خلاف، ایک طوفان کی صورت میں پاکستان کے منظر نامے پر چھائی رہی ہے۔ محلاتی سازشوں کے باوجود یہ جماعت بار بار انتخابات جیت کر اپنی طاقت ثابت کرتی رہی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کی غیر موجودگی کے باوجود اس سوچ کے سائے میں پھلتی پھولتی رہی جو پاکستان کا پہلا منتخب وزیراعظم تختہ دار چڑھنے کے باوجود اس کے لیے چھوڑ گیا تھا۔
طویل عرصے تک سندھ میں سے پیپلز پارٹی بھٹو کی سیاسی شناخت کو سندھ کے عمومی سیاسی استحصال کا سبب بیان کر کے طاقت کے ایوان تک پہنچتی رہی۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کا ازالہ طاقت میں آنے کی صورت میں ہوتا رہا۔ مگر چونکہ احتساب کے بغیر ہر طاقت روایتی عادتیں اپنا لیتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اندرون ِسندھ میں سیاسی استحصال ختم نہیں ہوا۔
یہ استحصال جس کا تعلق کسی بیرونی قوت سے نہیں بلکہ اس صوبے کے ان وڈیروں اور ان سیاستدانوں کے طبقے سے تھا جو عام سندھیوں پر ہونے والے ہر ظلم کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے میں ماہر ہو گئے ہیں۔ کچھ برسوں کے بعد یہ فرق کرنا ناممکن ہو گیا کہ سندھ کا استحصال کرنے والے اسلام آباد میں بیٹھے ہیں یا کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں۔ پچھلے پانچ سال میں پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی شہادتوں کو کیش کیا ۔ نام نہاد مفاہمتی پالیسی کے فارمولے کو ایک سیاسی نظریے میں تبدیل کر دیا۔
جس سے بدعنوانی پر قابو پانا خاصا مشکل رہا۔مقامی وڈیرے، بااثر خاندان، قبضہ مافیا اور دوسرے گینگ مل جل کر سندھیوں پر ایک بلا کی طرح حملہ آور ہوئے اور انھیں پسماندگی کی نئی پستیوں کی طرف دھکیل دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح اور عوامی ترقی کے نعرے لگتے رہے مگر ترقیاتی کاموں کے پیچھے بھی کمائی کے انوکھے طریقے وضع کیے گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سندھیوں کے لیے نوکریاں لی گئیں اور پھر ان کو مہنگے داموں بیچ دیا گیا۔ پولیس میں سپاہی بھرتی ہونے کے لیے ڈھائی لاکھ، پٹواری بننے کے لیے پانچ لاکھ، استاد کی نوکری ڈیڑھ لاکھ اور کلرک کی نوکری محکمے کی اہمیت کے مطابق بیچی گئیں۔
وطن کارڈ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، سیلابوں کے بعد ترقیاتی منصوبے، سڑکیں، اسکولز، نالے، پُل، بنیادی صحت کے مراکز، اسپتال، سب منصوبے اپنے حامیوں کے سپرد کیے گئے۔ سندھ کے شہری اور دیہاتی علاقوں میں سرکاری زمیں بااثر افراد میں تقسیم کی باتیں بھی عام ہیں۔ یہی آپ کو آج کل سندھ میں غصہ نظر آتا ہے۔ سندھ کے صحافیوں اور ذرایع ابلاغ نے سندھیوں کو اپنے حکمران طبقے کے بارے میں نئی سمجھ بوجھ عطا کی ہے۔ مسائل میں گھرے ہوئے بوڑھے اور جوان اب چیختے چلاتے نہیں بلکہ نعرے مارتے اور لعنت ملامت کرتے ہیں۔
وہ طاقت کے کھیل میں ایک طویل عرصے سے مہرے بنے رہے ہیں اور اپنی سادگی میں ہر مسئلے کی جڑ سندھ سے باہر تلاش کرتے رہے ہیں۔ مگر پانچ سال میں اپنے حکمران طبقے کے ہاتھوں ٹک ٹکی پر لٹکنے کے بعد وہ جان گئے ہیں کہ ظالم کی کوئی مذہبی، سیاسی، نسلی جڑ نہیں ہوتی وہ پنجابی ہو یا سندھی، بلوچ ہو یا پٹھان نوسر بازی سے باز نہیں آ سکتا۔ اگرچہ سندھ میں کوئی بڑا سیاسی متبادل سامنے نہیں آیا اور ساری جماعتیں اسی استحصالی نظام کے مختلف حصے ہیں جس نے سندھیوں کو اپنی زمین میں غلام بنا کر رکھا ہوا ہے مگر ان مجبوریوں کے باوجود ان انتخابات کے میدان میں عام سندھیوں کی آواز لبیک نہیں کہہ رہی بلکہ جواب طلب کر رہی ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید قبروں کی سیاست کی آخری رسومات کا آغاز ہو گیا ہے۔

بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
 
Top