محمداحمد
لائبریرین
عالمی کپ 2015ء کے گروپ مرحلے میں 6 مقابلوں میں تقریباً 500 رنز لیکن اہم ترین میچ میں 96 گیندوں پر 45 رنز کی مایوس کن اننگز اور نتیجہ بدترین شکست۔ کمار سنگاکارا نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ انہیں اس مایوس کن انداز میں ایک روزہ کرکٹ کو خیرباد کہنا پڑے گا۔ الوداعی مقابلے نے سری لنکا کے لاکھوں کرکٹ پرستاروں کے ساتھ دنیا بھر میں موجود سنگاکارا کے لاکھوں کرکٹ فینز کو بھی مایوس کیا۔ سری لنکا صرف 133رنز پر ڈھیر ہوا اور عالمی کپ کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ لیکن اپنے آخری ایک روزہ مقابلے میں سنگاکارا کو اُس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، جو پاکستان کے کپتان مصباح الحق کے لیے روز کا معمول ہے۔
جنوبی افریقہ کے خلاف کوارٹر فائنل میں سنگاکارا اس وقت میدان میں داخل ہوئے جب دوسرے اوور میں کوسال پیریرا آؤٹ ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے وہ تقریباً اننگز کے اختتام تک ایک کنارا سنبھالے رہے، مایوس و دلگیر، افسردہ اور دلگرفتہ! مقابلہ جنوبی افریقہ کی ایک آسان فتح کے ساتھ تمام ہوا اور یوں سنگاکارا کا ایک روزہ کیریئر بھی عالمی کپ ٹرافی کے بغیر ختم ہوگیا۔
پہلے کوارٹر فائنل میں سری لنکا کے اسکور بورڈ پر نظر ڈالیں تو ہمیں کچھ مانوس مانوس سا لگتا ہے۔ ٹاپ آرڈر کی ناکامی، مڈل آرڈر کا ہتھیار ڈال دینا اور صرف ایک بلے بازکا مزاحمت کرنا۔ یہی کہانی پاکستان کی ہے، جہاں بیٹنگ میں ہمیں بسا اوقات ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس طرح سنگاکارا نے کھیلا، بالکل ویسے ہی مصباح الحق درجنوں باریاں کھیل چکے ہیں، مایوسی اور رنجیدگی کے عالم میں۔ لیکن جو چیز اس اننگز میں سب سے زیادہ کھٹکتی ہے وہ ہے سنگاکارا جیسے لیجنڈری بلے باز کا 96 گیندوں پر صرف 45 رنز بنانا۔ وہ 151 منٹ تک کریز پر موجود رہے لیکن ایک مرتبہ بھی حریف گیندبازوں پر غالب نہ آسکے۔ جب کمار سنگاکارا جیسا بلے باز، جو بلاشبہ دور جدید کا عظیم ترین بلے باز ہے، اس صورتحال میں اپنے خول میں بند ہوجاتا ہے تو مصباح الحق کس کھیت کی مولی ہیں؟
400 سے زیادہ مقابلوں کا تجربہ، 14 ہزار سے زیادہ رنز، 25 سے زیادہ سنچریاں بلکہ ابھی مسلسل چار مقابلوں میں سنچریوں کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے بعد کوارٹر فائنل میں سنگاکارا جیسے بلے باز ایسی صورتحال میں اعصاب کی جنگ ہار دیتے ہیں تو اندازہ لگائیے کہ مصباح اعصابی طور پر کتنے مضبوط ہوں گے؟ وہ پچھلے تقریباً پانچ سالوں سے محدود اوورز میں پاکستان کی بیٹنگ کا بوجھ اسی طرح اٹھائے ہوئے ہیں، سنگاکارا کو جس صورتحال کا سامنا سالوں میں جاکر ہوا مصباح کے لیے وہ معمول کی بات ہے لیکن اس کے بدلے میں کپتان کو ملتا کیا ہے؟ طعنے، دشنام طرازیاں، گالیاں اور وہ بدترین رویہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہم ہرگز کمار سنگاکارا اور مصباح الحق کا تقابل نہیں کررہے۔ 14 ہزار اور 5 ہزار رنز اور 25 سنچریوں اور کوئی سنچری نہ ہونے کا آخر کیا موازنہ ہوسکتا ہے؟
لیکن ۔۔۔۔ بات اصل میں سمجھ کی ہے اور پاکستان کے کرکٹ شائقین کی کھیل کی سوجھ بوجھ کا اندازہ کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کے لیے سب سے اہم چیز اسٹرائیک ریٹ ہے اور اس “معیار” کا بلبلہ پھوڑنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ پہلی گیند پر چوکا لگانے کے بعد اگلی گیند پر آؤٹ ہونے والے بلے باز کا اسٹرائیک ریٹ بھی 200 کہلائے گا جبکہ 100 گیندوں پر 70 رنز بنانے والے کا 70، تو کون بہتر ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ 70 رنز بنانے والا اور اگر کسی کے دماغ میں اتنی سی بات نہیں سماتی تو اسے کرکٹ نہیں بلکہ فٹ بال اور ہاکی دیکھنی چاہیے، اس کا یہی شافی علاج ہے۔
درحقیقت، پاکستان کا مسئلہ مصباح الحق کی سست بلے بازی ہے ہی نہیں، اس کا دردِ سر دیگر بلے بازوں کا کارکردگی نہ دکھانا ہے۔ لیکن یہاں ہمیشہ بجائے اصل مسئلے کو حل کرنے کے مصباح الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جو دیگر بلے بازوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ تو پاکستانی کرکٹ شائقین اپنے رویوں پر غور کریں کہ سنگاکارا تو عظیم کھلاڑی کہلائیں لیکن مصباح زیر عتاب رہیں؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
ویسے ہوسکتا ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف کل ہونے والا کوارٹر فائنل مصباح الحق کا آخری مقابلہ ہو اور اس کے ساتھ ہی مصباح الحق کی صورت میں پاکستان کرکٹ تاریخ کا ایک اہم باب بند ہوجائے، اسپاٹ فکسنگ جیسے بڑے اسکینڈل کے بعد نئی زندگی کا پہلا باب۔ ہوسکتا ہے کہ مصباح ابھی کسی کو پسند نہ ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب چند دہائیوں بعد کرکٹ مؤرخ پاکستان کرکٹ کی تاریخ مرتب کرے گا تو مصباح کا وہی مقام ہوگا جو سری لنکا کی کرکٹ میں کمار سنگاکارا کا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ابھی یہ بات مبالغہ آرائی محسوس ہو لیکن بھارت کے مشہور تبصرہ کار ہرشا بھوگلے کی بات اس کو سہارا دینے کے لیے کافی ہے کہ ’’مصباح پر تنقید کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی گھر کے مکین اپنے واحد کفیل سے ناخوش ہوں کہ وہ گھر چلانے کے لیے کافی محنت نہیں کررہا۔‘‘
ابوشامل فہد بھائی کی تحریر
بشکریہ ایکسپریس
جنوبی افریقہ کے خلاف کوارٹر فائنل میں سنگاکارا اس وقت میدان میں داخل ہوئے جب دوسرے اوور میں کوسال پیریرا آؤٹ ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے وہ تقریباً اننگز کے اختتام تک ایک کنارا سنبھالے رہے، مایوس و دلگیر، افسردہ اور دلگرفتہ! مقابلہ جنوبی افریقہ کی ایک آسان فتح کے ساتھ تمام ہوا اور یوں سنگاکارا کا ایک روزہ کیریئر بھی عالمی کپ ٹرافی کے بغیر ختم ہوگیا۔
پہلے کوارٹر فائنل میں سری لنکا کے اسکور بورڈ پر نظر ڈالیں تو ہمیں کچھ مانوس مانوس سا لگتا ہے۔ ٹاپ آرڈر کی ناکامی، مڈل آرڈر کا ہتھیار ڈال دینا اور صرف ایک بلے بازکا مزاحمت کرنا۔ یہی کہانی پاکستان کی ہے، جہاں بیٹنگ میں ہمیں بسا اوقات ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس طرح سنگاکارا نے کھیلا، بالکل ویسے ہی مصباح الحق درجنوں باریاں کھیل چکے ہیں، مایوسی اور رنجیدگی کے عالم میں۔ لیکن جو چیز اس اننگز میں سب سے زیادہ کھٹکتی ہے وہ ہے سنگاکارا جیسے لیجنڈری بلے باز کا 96 گیندوں پر صرف 45 رنز بنانا۔ وہ 151 منٹ تک کریز پر موجود رہے لیکن ایک مرتبہ بھی حریف گیندبازوں پر غالب نہ آسکے۔ جب کمار سنگاکارا جیسا بلے باز، جو بلاشبہ دور جدید کا عظیم ترین بلے باز ہے، اس صورتحال میں اپنے خول میں بند ہوجاتا ہے تو مصباح الحق کس کھیت کی مولی ہیں؟
400 سے زیادہ مقابلوں کا تجربہ، 14 ہزار سے زیادہ رنز، 25 سے زیادہ سنچریاں بلکہ ابھی مسلسل چار مقابلوں میں سنچریوں کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے بعد کوارٹر فائنل میں سنگاکارا جیسے بلے باز ایسی صورتحال میں اعصاب کی جنگ ہار دیتے ہیں تو اندازہ لگائیے کہ مصباح اعصابی طور پر کتنے مضبوط ہوں گے؟ وہ پچھلے تقریباً پانچ سالوں سے محدود اوورز میں پاکستان کی بیٹنگ کا بوجھ اسی طرح اٹھائے ہوئے ہیں، سنگاکارا کو جس صورتحال کا سامنا سالوں میں جاکر ہوا مصباح کے لیے وہ معمول کی بات ہے لیکن اس کے بدلے میں کپتان کو ملتا کیا ہے؟ طعنے، دشنام طرازیاں، گالیاں اور وہ بدترین رویہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہم ہرگز کمار سنگاکارا اور مصباح الحق کا تقابل نہیں کررہے۔ 14 ہزار اور 5 ہزار رنز اور 25 سنچریوں اور کوئی سنچری نہ ہونے کا آخر کیا موازنہ ہوسکتا ہے؟
لیکن ۔۔۔۔ بات اصل میں سمجھ کی ہے اور پاکستان کے کرکٹ شائقین کی کھیل کی سوجھ بوجھ کا اندازہ کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کے لیے سب سے اہم چیز اسٹرائیک ریٹ ہے اور اس “معیار” کا بلبلہ پھوڑنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ پہلی گیند پر چوکا لگانے کے بعد اگلی گیند پر آؤٹ ہونے والے بلے باز کا اسٹرائیک ریٹ بھی 200 کہلائے گا جبکہ 100 گیندوں پر 70 رنز بنانے والے کا 70، تو کون بہتر ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ 70 رنز بنانے والا اور اگر کسی کے دماغ میں اتنی سی بات نہیں سماتی تو اسے کرکٹ نہیں بلکہ فٹ بال اور ہاکی دیکھنی چاہیے، اس کا یہی شافی علاج ہے۔
درحقیقت، پاکستان کا مسئلہ مصباح الحق کی سست بلے بازی ہے ہی نہیں، اس کا دردِ سر دیگر بلے بازوں کا کارکردگی نہ دکھانا ہے۔ لیکن یہاں ہمیشہ بجائے اصل مسئلے کو حل کرنے کے مصباح الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جو دیگر بلے بازوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ تو پاکستانی کرکٹ شائقین اپنے رویوں پر غور کریں کہ سنگاکارا تو عظیم کھلاڑی کہلائیں لیکن مصباح زیر عتاب رہیں؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
ویسے ہوسکتا ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف کل ہونے والا کوارٹر فائنل مصباح الحق کا آخری مقابلہ ہو اور اس کے ساتھ ہی مصباح الحق کی صورت میں پاکستان کرکٹ تاریخ کا ایک اہم باب بند ہوجائے، اسپاٹ فکسنگ جیسے بڑے اسکینڈل کے بعد نئی زندگی کا پہلا باب۔ ہوسکتا ہے کہ مصباح ابھی کسی کو پسند نہ ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب چند دہائیوں بعد کرکٹ مؤرخ پاکستان کرکٹ کی تاریخ مرتب کرے گا تو مصباح کا وہی مقام ہوگا جو سری لنکا کی کرکٹ میں کمار سنگاکارا کا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ابھی یہ بات مبالغہ آرائی محسوس ہو لیکن بھارت کے مشہور تبصرہ کار ہرشا بھوگلے کی بات اس کو سہارا دینے کے لیے کافی ہے کہ ’’مصباح پر تنقید کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی گھر کے مکین اپنے واحد کفیل سے ناخوش ہوں کہ وہ گھر چلانے کے لیے کافی محنت نہیں کررہا۔‘‘
ابوشامل فہد بھائی کی تحریر
بشکریہ ایکسپریس