فرخ منظور
لائبریرین
سنے قہقہے تو سن لو یہ فغانِ چشمِ تر بھی
کہ ہے داستاں میں شامل یہ حدیثِ مختصر بھی
جو وہ دن گزر گیا تھا تو یہ رات بھی کٹے گی
کبھی شام آ گئی تھی کبھی آئے گی سحر بھی
یہ عجیب رہ روی ہے کہ الجھ گئی ہیں راہیں
مجھے ڈر ہے کھو نہ جائے کہیں تیری رہ گزر بھی
ترے حسن سے شگفتہ ہوئیں مضمحل نگاہیں
جو سنور گئے نظارے تو سنور گئی نظر بھی
اسی کائنات ہی میں ہے جہانِ درد منداں
مرے ناظرِ دو عالم کبھی اک نظر ادھر بھی
(صوفی تبسّم)
کہ ہے داستاں میں شامل یہ حدیثِ مختصر بھی
جو وہ دن گزر گیا تھا تو یہ رات بھی کٹے گی
کبھی شام آ گئی تھی کبھی آئے گی سحر بھی
یہ عجیب رہ روی ہے کہ الجھ گئی ہیں راہیں
مجھے ڈر ہے کھو نہ جائے کہیں تیری رہ گزر بھی
ترے حسن سے شگفتہ ہوئیں مضمحل نگاہیں
جو سنور گئے نظارے تو سنور گئی نظر بھی
اسی کائنات ہی میں ہے جہانِ درد منداں
مرے ناظرِ دو عالم کبھی اک نظر ادھر بھی
(صوفی تبسّم)
آخری تدوین: