فرخ منظور
لائبریرین
سوئے میکدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی
مری زندگی کے تیور مرے ہاتھ کی لکیریں
انہیں تم اگر بدلتے تو کچھ اور بات ہوتی
میں تمھارا آئینہ تھا میں تمھارا آئینہ ہوں
مجھے دیکھ کر سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی
ابھی آنکھ ہی لڑی تھی کہ گرا دیا نظر سے
ذرا فاصلے سمٹتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تم سنوارو
مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی
مجھے اپنی زندگی کا کوئی غم نہیں ہے لیکن
ترے در پہ جاں نکلتی تو کچھ اور بات ہوتی
گو ہوائے گلستاں نے میرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ بجا کلی نے کِھل کر کیا گلستان معطر
مگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی
گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک
تری راہگزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
آغا حشر کاشمیری
وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی
مری زندگی کے تیور مرے ہاتھ کی لکیریں
انہیں تم اگر بدلتے تو کچھ اور بات ہوتی
میں تمھارا آئینہ تھا میں تمھارا آئینہ ہوں
مجھے دیکھ کر سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی
ابھی آنکھ ہی لڑی تھی کہ گرا دیا نظر سے
ذرا فاصلے سمٹتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تم سنوارو
مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی
مجھے اپنی زندگی کا کوئی غم نہیں ہے لیکن
ترے در پہ جاں نکلتی تو کچھ اور بات ہوتی
گو ہوائے گلستاں نے میرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ بجا کلی نے کِھل کر کیا گلستان معطر
مگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی
گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک
تری راہگزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
آغا حشر کاشمیری
آخری تدوین: