حسان خان
لائبریرین
کسی بھی ملک کی ثقافت کے فروغ میں وہاں کے فنکاروں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔
طالبان کے دور میں خوف کے باعث اپنے فن کو خیر باد کہنے والے سوات کے فنکاروں، گلوگاروں اور رقاصاؤں کا کہنا ہے کہ علاقے میں دوبارہ امن قائم ہو جانے سے وہ اپنے پیشے سے منسلک ہوئے ہیں جس پر انہیں خو شی ہے۔
ان کے مطابق یہ فن ان کے آباؤ اجداد کا ورثہ ہے اور اپنے فن کے ذریعے وہ لوگوں میں خوشیاں بانٹتے ہوئے دنیا کو امن کا پیغام دے رہے ہیں۔
گلو کاروں اور فنکاروں کے لحاظ سے سوات انتہائی زرخیز زمین ثابت ہو رہی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ خیبر پختو نخواہ کے تقریباً نصف گلو کاروں اور اداکاروں کا تعلق سوات سے ہے۔
سوات کے ایک مقامی فنکار نے اپنا فرضی نام ریحان بتاتے ہوئے بی بی سی کو بتایا ’عسکریت پسندی کے خوف کے زیر سایہ رہنے والے فنکار طالبان کی بے دخلی کے بعد اب اپنے فن کے ذریعے علاقے میں پائیدار اور دیر پا امن کی بحالی میں مدد کرر ہے ہیں‘۔
ان کے مطابق طالبان نے اپنی عملداری کے قیام کے بعد موسیقی کو حرام قرار دیکر سوات کی مشہو رقاصہ شبانہ کو قتل کردیا تھا جن سے مقامی فنکاروں میں نہ صرف خوف پھیل گیا تھا بلکہ وہ اپنے زندگیاں بچانے کی خاطر علا قے سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور اس کے نتیجے میں پشتو موسیقی کو زوال کا منھ دیکھنا پڑا۔
ایک طبلہ نواز نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا ’طالبان نے اپنے دور میں موسیقی کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی اور یہی وجہ ہے کہ بعض خاندان اب بھی اپنے گھروں کی خواتین کو پیشہ ورانہ طور پر گانے کی اجازت دینے سے کتراتے ہیں‘۔
انھوں نے مزید بتایا ’ خطرات کو پس پشت ڈال کر مو سیقی کو زندہ رکھنے والے فنکاروں کے حوصلے بھی قابل تعریف ہیں‘۔
ایسی ہی ایک گلو کارہ نے بتایا کہ انھیں موسیقی سے انتہائی رغبت ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سماجی رکاوٹوں، دھمکیوں اور خاندانی پابندیوں کے باوجود گانے کا انتخاب کیا اور ان کے مطابق موسیقی کو جاری رکھنا نہ صرف ان کا شوق ہے بلکہ یہ ان کی مالی کفالت کا ذریعہ بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خطرات کے باوجود وہ اپنے پرستاروں میں لازوال مقام حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
مینگورہ میں رہائش پذیر ایک رقاصہ نے بتایا کہ اب وہ فنکشنوں اور خوشی کی دیگر تقریبات میں بغیر کسی خوف کےجاتی ہیں ان کے مطابق ناچ گانا ہی ان کے آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔
وادی سوات میں کئی سال بعد ٹیلی فلمیں اور ڈرامے بھی بننے لگے ہیں جن سے ہزاروں افراد کا روزگار وابسطہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق خیبر پختونخواہ میں سالانہ 200 سے زائد ٹیلی فلمیں اور ڈرامے بنتے ہیں جس کی زیادہ تر عکسبندی سیاحتی مقامات پر ہو تی ہے اور اس وقت خیبر پختو نخواہ اور سوات کے مختلف علاقوں میں ٹیلی فلموں اور ڈراموں کی ریکارڈنگ جاری ہے۔
ایک مقامی پروڈیوسر نے بتایا کہ ان ڈراموں اور ٹیلی فلموں میں کام کرنے والے اداکار اور اداکارائیں بہت خوش ہیں اور وہ شورش والے دور کو ایک تاریک دور کے طور پر یاد کرتے ہیں کیونکہ طالبان کے علاقے پر کنٹرول کے بعد سب سے زیادہ دباؤ شوبز کے شعبے پر ڈالا گیا جبکہ موسیقی کے آلات کی خرید وفروخت پر بھی پابندی لگادی گئی تھی۔
سوات میں امن کی بحالی کے بعد سی ڈی مارکیٹوں کی رونقیں بھی بحال ہیں اور خوف کے زیر سایہ رہنے والے دکاندار امن کی بحالی پر خوش بھی بہت ہیں۔
مالاکنڈ ڈویژن کا واحد سنیما گھر بھی کھل چکا ہے اور مختلف علاقوں سے فلمی شائقین کی بڑی تعداد اس سنیما گھر کا رخ کر رہی ہے۔
ربط
طالبان کے دور میں خوف کے باعث اپنے فن کو خیر باد کہنے والے سوات کے فنکاروں، گلوگاروں اور رقاصاؤں کا کہنا ہے کہ علاقے میں دوبارہ امن قائم ہو جانے سے وہ اپنے پیشے سے منسلک ہوئے ہیں جس پر انہیں خو شی ہے۔
ان کے مطابق یہ فن ان کے آباؤ اجداد کا ورثہ ہے اور اپنے فن کے ذریعے وہ لوگوں میں خوشیاں بانٹتے ہوئے دنیا کو امن کا پیغام دے رہے ہیں۔
گلو کاروں اور فنکاروں کے لحاظ سے سوات انتہائی زرخیز زمین ثابت ہو رہی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ خیبر پختو نخواہ کے تقریباً نصف گلو کاروں اور اداکاروں کا تعلق سوات سے ہے۔
سوات کے ایک مقامی فنکار نے اپنا فرضی نام ریحان بتاتے ہوئے بی بی سی کو بتایا ’عسکریت پسندی کے خوف کے زیر سایہ رہنے والے فنکار طالبان کی بے دخلی کے بعد اب اپنے فن کے ذریعے علاقے میں پائیدار اور دیر پا امن کی بحالی میں مدد کرر ہے ہیں‘۔
ان کے مطابق طالبان نے اپنی عملداری کے قیام کے بعد موسیقی کو حرام قرار دیکر سوات کی مشہو رقاصہ شبانہ کو قتل کردیا تھا جن سے مقامی فنکاروں میں نہ صرف خوف پھیل گیا تھا بلکہ وہ اپنے زندگیاں بچانے کی خاطر علا قے سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور اس کے نتیجے میں پشتو موسیقی کو زوال کا منھ دیکھنا پڑا۔
ایک طبلہ نواز نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا ’طالبان نے اپنے دور میں موسیقی کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی اور یہی وجہ ہے کہ بعض خاندان اب بھی اپنے گھروں کی خواتین کو پیشہ ورانہ طور پر گانے کی اجازت دینے سے کتراتے ہیں‘۔
انھوں نے مزید بتایا ’ خطرات کو پس پشت ڈال کر مو سیقی کو زندہ رکھنے والے فنکاروں کے حوصلے بھی قابل تعریف ہیں‘۔
ایسی ہی ایک گلو کارہ نے بتایا کہ انھیں موسیقی سے انتہائی رغبت ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سماجی رکاوٹوں، دھمکیوں اور خاندانی پابندیوں کے باوجود گانے کا انتخاب کیا اور ان کے مطابق موسیقی کو جاری رکھنا نہ صرف ان کا شوق ہے بلکہ یہ ان کی مالی کفالت کا ذریعہ بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خطرات کے باوجود وہ اپنے پرستاروں میں لازوال مقام حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
مینگورہ میں رہائش پذیر ایک رقاصہ نے بتایا کہ اب وہ فنکشنوں اور خوشی کی دیگر تقریبات میں بغیر کسی خوف کےجاتی ہیں ان کے مطابق ناچ گانا ہی ان کے آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔
وادی سوات میں کئی سال بعد ٹیلی فلمیں اور ڈرامے بھی بننے لگے ہیں جن سے ہزاروں افراد کا روزگار وابسطہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق خیبر پختونخواہ میں سالانہ 200 سے زائد ٹیلی فلمیں اور ڈرامے بنتے ہیں جس کی زیادہ تر عکسبندی سیاحتی مقامات پر ہو تی ہے اور اس وقت خیبر پختو نخواہ اور سوات کے مختلف علاقوں میں ٹیلی فلموں اور ڈراموں کی ریکارڈنگ جاری ہے۔
ایک مقامی پروڈیوسر نے بتایا کہ ان ڈراموں اور ٹیلی فلموں میں کام کرنے والے اداکار اور اداکارائیں بہت خوش ہیں اور وہ شورش والے دور کو ایک تاریک دور کے طور پر یاد کرتے ہیں کیونکہ طالبان کے علاقے پر کنٹرول کے بعد سب سے زیادہ دباؤ شوبز کے شعبے پر ڈالا گیا جبکہ موسیقی کے آلات کی خرید وفروخت پر بھی پابندی لگادی گئی تھی۔
سوات میں امن کی بحالی کے بعد سی ڈی مارکیٹوں کی رونقیں بھی بحال ہیں اور خوف کے زیر سایہ رہنے والے دکاندار امن کی بحالی پر خوش بھی بہت ہیں۔
مالاکنڈ ڈویژن کا واحد سنیما گھر بھی کھل چکا ہے اور مختلف علاقوں سے فلمی شائقین کی بڑی تعداد اس سنیما گھر کا رخ کر رہی ہے۔
ربط