۲۴
سیزدگرد نے اپنے زمانہ میں ان سب کو دانشور دہقان کے حوالہ کیا کہ کیوں مرث سے لیکر خسرو پرویز کے زمانہ تک مکمل اور مرتب تاریخ کردے انشور مذکور مداین کے رؤسا میں تھا اور نہایت صاحب حوصلہ اور فاضل شخص تھا۔ اس نے ان تمام ذخیروں کو عمدگی سے ترتیب دیکر ایک مبسوط اور جامع تاریخ تیار کی ۔
عربوں کے حملہ میں یہ کتاب حضرت عمر ؓ کی خدمت میں پیش کر گئی ۔ آپ نے اس کا ترجمہ سنا اور فرمایا کہ یہ مزخرفات کا مجموعہ ، دیکھنے کے قابل نہیں غرض یہ کتاب لوٹ میں تقسیم ہو کر حبش پہنچی ، بادشاہ حبش نے اس کا ترجمہ کرایا وہاں سے ہندوستان پہنچی ، یعقوب لیث نے اپنے زمانہ ٔ حکومت میں اسکو ہندوستان سے منگواکر ابو منصور عبدالرزاق بن عبداللہ فرخ کو حکم دیاکہ اس کا ترجمہ کیا جائے ، چنانچہ تاج بن خرسانی ۔ ہردی ۔ یزدان داد شاپور، سیتانی ، ماہوئ بن خورشید نیشاپوری ، سلیمان طوسی ان سے نے مل کر ۳۶۰ھ میں اس کا ترجمہ کیا، یہی کتاب سامانیوں کو ہاتھ آئی ، اور اُنکے حکم سے دقیقی نے اس کو نظم کرنا شروع کیا
اس روایت کا یہ حصہ کہ کتاب حبش گئی وہاں ترجمہ ہوکر پھر ہندوستان پہنچی ہندوستان سے ایران میں آئی ، صریح غلط اور بہودہ ہے، باقی واقعات صحیح ہوں تو عجیب نہیں ، یعنی ایران کی کوئی قدیم تاریخ جو یزد گرد کے عہد میں تیار ہوئی تھی ۔ یعقوب لیث کے زمانہ میں پہلوی سے فارسی میں ترجمہ کی گئی ہو۔
دیباچہ کی دوسری روایت یہ ہے کہ نو شیروان کے خاندان کا ایک شخص سلطان محمود کے زمانہ میں تھا، اُس کا نام خورفیروز تھا اور فارس میں سکونت رکھتا تھا۔ زمانہ کے انقلاب سے آوارہ وطن ہوکر ، غزمیں پہنچا ۔ یہاں آکر چرچا سنا کہ سلطان محمود تاریخ عجم کا شیفتہ و دلدادہ ہے ، اس کے وطن میں یہ کتاب موجود تھی ، چنانچہ وہاں سے منگواکر سلطان کی خدمت میں پیش کی ، اور مور دانعام ہوا۔
تیسری روایت یہ ہے کہ جب تمام ملک میں سلطان محمود کے شوق کے چرچے پھیلے تو بادشاہ کرمان نے ایک شخص کو جس کا نام آذربرزین تھا۔ اور شاپور ذوالاکتاف کے خاندان سے تھا، اور اس وجہ سے تاریخ ایران کا بڑا سرمایہ اسکے پاس تھا اُس کو سلطان