سیدہ شگفتہ
لائبریرین
سوانح عمری فردوسی
صفحہ
46
صفحہ
46
دیکہو ایک شجاع دامِ عشق میں اتفاقاََ پھنس ہی جاتا ہے تو کس طرح جلد چھُوٹ کر نکلجاتا ہے
فردوسی نے موقع پا کر عشقیہ شاعری کا کمال بہی دکھلا دیا،اور پھر متانت اور شائستگی کا سررشتہ کہیں ہاتھ سے نہ چھوٹا،متاخرین بلکہ نظامی وسعدی کو بہی اتنا سہارا ہاتھ آجاتا تو خدا جانے کہان سے کہان نکلجاتے،
5۔شاعری کا اصل کمال واقعہ نگاری اور جذبات انسانی کا اظہار ہے،اِن دونوں باتونمیں وہ تمام شعراء کا پیش رو اور امام ہے،وہ جس واقعہ کو لکہتا ہے اُس کے تمام جزئیات اور گردپیش کے ہر قسم کے حالات اور واقعات ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر پیدا کرتا ہے،پھر اُن کو اِس خوبی کے ساتھ ہُو بَہُوادا کرتا ہے،کہ واقعہ کی تصویر آنکہونکے سامنےپھر جاتی ہے اور شعرا یا تو واقعہ کے متعلق چھوٹی چھوٹی باتون پر نظر ڈالنا ضروری نہیں سمجہتے یا سمجہتے ہیں لیکن طبیعت فطرت شناس نہیں ہوتی،اِس لئے باریک باتوں پر نظر نہیں پڑتی یا پڑتی ہے لیکن زبان پر قدرت نہیں کہ جون کا تون ادا کر دین۔اِس لئے یا بات کو بدل کر کہتے ہیں،یا استعارات و تشبیہات کے دامن میں پناہ لیتے ہیں،تم دیکہتے ہو کہ فردوسی اتعارہ کے پاس ہو کر نہیں نکلتا،تشبیہین وہی پاس پاس کی لیتا ہے،مجاز کو بہت کم ہاتھ لگاتا ہے،اِسکی یہ وجہ نہیں کہ وہ اِن باتون میں قاصر ہے بلکہ وہ جانتا ہے کہ یہ چیزین واقعہ کے چہرے پر نقاب ڈال دیتی ہیں۔اور اُس کا اصلی خط وخال نظر نہیں آتا،غور کرو،یہ لکہنا مقصود ہے کہ خاقان چین ہاتہی پر ہے رستم نے کمند پھینکی اور اِس کو گرفتار کر کے ہاتہی سے ٹپک دیا،فردوسی اِس کو اِس طرح ادا کرتا ہے،
چوا زوست رستم رہا شد کمند سر شہر یار اندر آمد بہ بند
زپیل اندر آدر دوزد بر زمین پبستند بازو سے خاقانِ چین،
نظامی کو اِسی قِسم کا موقع پیش آتا ہے وہ کہتے ہیں۔
کمند عدو بندراشہر یار بینداخت چون چیز روزگار
بے شبہہ عدو بند کے لفظ سے جملہ کی تر کیب چُست ہو گئی،"چنبر روزگار"کی تشبیہ نے بہی ندرت پیدا کی،یہ سب کچھ ہوا لیکن سننے والے پر یہ اثر ہوا کہ اصل واقعہ کے بجائے اِسکی توجہ الفاظ اور تشبیہ کی طرف ممؤبہ ہو گئیں اور کمند میں گرفتار ہونے کی اصلی حالت سامنے نہ آ سکی