سوانح عمری فردوسی صفحہ 47

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
21e2gz6.jpg
 

جاسمن

لائبریرین
یہی نکتہ ہے کہ فردوسی واقعات اور جذبات کے کے بیان میں استعارات اور تشبیہات وغیرہ سے بہت کم کام لیتا ہے،اور جب اسکو طباعی اور انشا پردازی کا زور دکھانا ہوتا ہے تو دوسرے موقعے تلاش کرتا ہے، چناچہ اِسکی تفصیل آگے آتی ہے،
واقعہ نگاری کے دقیق ۔۔۔۔نکتون پر اس کی نظر جس طرح پڑتی ہے اِس کی دو مثالین ہم لکہتے ہیں،
پہلوان جب جوش شجاعت میں لبریز ہوتا ہے تو اکثر یہ ہوتا ہے،کہ لڑائی بھڑائی کچھ نہیں تنہا بیٹھا ہوتا ہے،لیکن آپ ہی آپ بپھرا پڑتا ہے،اور جوش میں آپے سے باہر ہوا جاتا ہے سہراب جب ایرانی فوج کے ایک ایک سردار پر نظر ڈال کر ہجر سے اُن کا نامو نشان پوچھتا ہے۔ تو اِس کی نظر استم پر بہی پڑتی ہے ،اور ہجر سے کہتا ہے، یہ کون شخص ہے جس کی یہ حالت ہے کہ
بخود ہر زماں بر خر دشد ہمے تو گوئی کہ دریا بجوشدہمے ،
آپ ہی آپ بھپر رہا ہے ، اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ دریا جوش مارتا ہے
ایک جسیم اور تناور پہلوان کبہی تخت پر بیٹہا ہوتا ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سارے تخت پر چھایا جاتا ہے۔اِس حالت کو فردوسی نے اُس موقع پر جب رستم سہراب کے دیکہنے کو گیا ہے اور سُہراب تخت پر بیٹھا ہوا اپنے پہلوانون سے باتین کر رہا ہے اِس طرح ادا کیا ہے،
ع تو گفتنی ہمہ تخت سہراب بود۔
سُہراب نے کیکاؤس کے خیمہ کے پاس جا کر برچھی سے خیمہ کی میخین اُکھاڑ کر پھینکدی ہیں فردوسی اِس واقعہ کو اِس طرح ادا کرتا ہے،
ازان پس بجنبید از جائے خویش بہ نزدیک پردہ سرارفت پیش،
خم آور دپشت وسُنان سنیخ بزو تُندو برکند ہفتا د مسیخ
سرا پردہ یک بہرہ آمدز پائے زہر سو بر آمد وم کرّۂ نائے
عام شعرا اگر اِس واقعہ کو لکہتے تو صرف اسپر قناعت کرتے کہ سہراب نے میخین اُکھاڑ کر پھینک دین، لیکن یہ خصوصیات کہ " وہ جھُکا، جھُک کر زور سے نیزہ مارا،ستر میخین اُکھاڑ کر پھینک دین" خیمہ کا ایک حِصّہ گر پڑا" نظر انداز کر جاتے، حالانکہ واقعہ کی تصویر کھینچنے کے لئے
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
یہی نکتہ ہے کہ فردوسی واقعات اور جذبات کے بیان میں اِستعارات اور تشبیہات وغیرہ سے بہت کم کام لیتا ہے،اور جب اسکو طباعی اور انشا پردازی کا زور دکھانا ہوتا ہے تو دوسرے موقعے تلاش کرتا ہے، چناچہ اِسکی تفصیل آگے آتی ہے،
واقعہ نگاری کے دقیق ۔۔۔ ۔نکتون پر اس کی نظر جس طرح پڑتی ہے اِس کی ایک دو مثالین ہم لکہتے ہیں،
پہلوان جب جوش شجاعت میں لبریز ہوتا ہے تو اکثر یہ ہوتا ہے،کہ لڑائی بھڑائی کچھ نہیں تنہا بیٹھا ہوتا ہے،لیکن آپ ہی آپ بپھرا پڑتا ہے،اور جوش میں آپے سے باہر ہوا جاتا ہے سہراب جب ایرانی فوج کے ایک ایک سردار پر نظر ڈال کر ہجیر سے اُن کا نام و نشان پوچھتا ہے۔ تو اِس کی نظر رُستم پر بہی پڑتی ہے ،اور ہجیر سے کہتا ہے، یہ کون شخص ہے جس کی یہ حالت ہے کہ؟
بخود ہر زماں بر خر دشد ہمے تو گوئی کہ دریا بجوشدہمے ،
آپ ہی آپ بھپر رہا ہے ، اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ دریا جوش مارتا ہے
ایک جسیم اور تناور پہلوان کبہی تخت پر بیٹہا ہوتا ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سارے تخت پر چھایا جاتا ہے۔اِس حالت کو فردوسی نے اُس موقع پر جب رستم سہراب کے دیکہنے کو گیا ہے اور سُہراب تخت پر بیٹھا ہوا اپنے پہلوانون سے باتین کر رہا ہے اِس طرح ادا کیا ہے،
ع تو گفتنی ہمہ تخت سہراب بود۔
سُہراب نے کیکاؤس کے خیمہ کے پاس جا کر برچھی سے خیمہ کی میخین اُکھاڑ کر پھینکدی ہیں فردوسی اِس واقعہ کو اِس طرح ادا کرتا ہے،
ازان پس بجنبید از جائے خویش بہ نزدیک پردہ سرارفت پیش،
خم آور دپشت وسُنان سنیخ بزو تُندو برکند ہفتا د میخ
سرا پردہ یک بہرہ آمدز پائے زہر سو بر آمد وم کرّۂ نائے
عام شعرا اگر اِس واقعہ کو لکہتے تو صرف اسپر قناعت کرتے کہ سہراب نے میخین اُکھاڑ کر پھینک دین، لیکن یہ خصوصیات کہ " وہ جھُکا، جھُک کر زور سے نیزہ مارا،ستر میخین اُکھاڑ کر پھینک دین" خیمہ کا ایک حِصّہ گر پڑا" نظر انداز کر جاتے، حالانکہ واقعہ کی تصویر کھینچنے کے لئے
Caompared with original and corrected
26-05-2014​
 
Top