سوانح عمری فردوسی صفحہ 48

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
2w4lc01.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
ان باتوں کا ادا کرنا ضروری ہے،

اسی تفصیلی واقعہ نگاری کی بدولت ہم کو بہت سے ایسے محاوروں تک رسائی ہوتی ہے جو یوں ہی عام طریقہ بیان میں نہیں آ سکتے تھے۔

مثلاً سہراب نے جب رستم کو گرز مارا ہے تو رستم تلملا جاتا ہے مگر ضبط سے کام لیتا ہے اور سہراب پر ظاہر نہیں ہونے دیتا، اس واقعہ کو اردو کا محاورہ دان صرف اس لفظ سے ادا کرے گا کہ "پی گیا" فردوسی نے بھی صرف محاورہ سے کام لیا، چنانچہ کہتا ہے۔

ع بہ پیچیدو درد از دلیری بخورد، رستم ایک معرکہ میں صرف کمند ہاتھ میں لیکر گیا ہے، حریف سے سوال و جواب ہوئے تو اس سےطنز سے کہا کہ "اس دھاگے کے بل پر بہت نہ اتراؤ۔" فردوسی اس طنزیہ محاورہ کو بعینہ اسی طرح ادا کرتا ہے،

بدو گفت ہو مان کہ چندین مدم بہ نیروے این رشتہ شصت خم

واقعہ نگاری کی مثالوں سے تمام شاہنامہ بھرا پڑا ہے، ہم نمونہ کے طور پر ایک مختصر لیکن مسلسل داستان یہاں نقل کرتے ہیں۔

یہ وہ موقع ہے کہ سُہراب ایک ایرانی پہلوان کو لیکر کیکاؤس کے لشکرگاہ کو دیکھنے چلا ہے۔ فوجین اپنے اپنے افسرون کے ساتھ الگ الگ ساز و سامان سے آراستہ ہیں، سہراب ایک ایک پر نگاہ ڈالتا جاتا ہے اور ہر ایک کا نام و نشان پوچھتاہے، ایرانی پہلوان جواب دیتا ہے،

بدو گفت کز تو بپر سم ہمہ نہ گردن کشان وز شاہ ورمہ

فرا پردہ دیبہ رنگ رنگ بدو اندرون خیمہ ہائے پلنگ

بہ پیش اندروں بستہ صید ژندہ پیل یکے تخت پیروزہ برسان نیل

یکے زرد خورشید ۱ پیکر درفش مرش ماہ زیریں غلامش بنفش

بہ قلب سیاہ اندرون جائے کیست زگردان ایران و رانا نام چیست

بدو گفت کان شاہ ایران بود کہ بر در گہش پیل و شیران بود

وزان پس بدو گفت کر میمنہ سواران بیسا رو پیل و بنہ

ٍ۱۔ خورشید پیکر یعنی آفتاب کی صورت کا
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
ان باتون کا ادا کرنا ضروری ہے،

اسی تفصیلی واقعہ نگاری کی بدولت ہم کو بہت سے ایسے محاورون تک رسائی ہوتی ہے جو یوں ہی عام ۔۔۔۔طریقہ بیان میں نہیں آ سکتے تھے۔

مثلاً سہراب نے جب رستم کو گرز مارا ہے تو رستم تلملا جاتا ہے مگر ضبط سے کام لیتا ہے اور سہراب پر ظاہر نہیں ہونے دیتا، اس واقعہ کو اردو کا محاورہ دان صرف اس لفظ سے ادا کرے گا کہ "پی گیا" فردوسی نے بہی صرف محاورہ سے کام لیا، چنانچہ کہتا ہے۔

ع بہ پیچیدو درد از دلیری بخورد، رستم ایک معرکہ میں صرف کمند ہاتھ میں لیکر گیا ہے، حریف سے سوال و جواب ہوئے تو اس سےطنز سے کہا کہ "اس دہاگے کے بل پر بہت نہ اتراؤ۔" فردوسی اس طنزیہ محاورہ کو بعینہ اسی طرح ادا کرتا ہے،

بدو گفت ہو مان کہ چندین مدم بہ نیروے این رشتہ شصت خم

واقعہ نگاری کی مثالوں سے تمام شاہنامہ بھرا پڑا ہے، ہم نمونہ کے طور پر ایک مختصر لیکن مسلسل داستان یہاں نقل کرتے ہیں۔

یہ وہ موقع ہے کہ سُہراب ایک ایرانی پہلوان کو لیکر کیکاؤس کے لشکرگاہ کو دیکھنے چلا ہے۔ فوجین اپنے اپنے افسرون کے ساتھ الگ الگ ساز و سامان سے آراستہ ہیں، سہراب ایک ایک پر نگاہ ڈالتا جاتا ہے اور ہر ایک کا نام و نشان پوچھتاہے، ایرانی پہلوان جواب دیتا ہے،

بدو گفت کز تو بپر سم ہمہ ز گردن کشان وز شاہ ورمہ

سرا پردہ دیبہ رنگ رنگ " بدو اندرون خیمہ ہائے پلنگ

بہ پیش اندروں بستہ صید ژندہ پیل یکے تخت پیروزہ برسان نیل

یکے زرد خورشید ۱ پیکر درفش مرش ماہ زیریں غلامش بنفش

بہ قلب سیاہ اندرون جائے کیست زگردان ایران و رانا نام چیست

بدو گفت کان شاہ ایران بود کہ بر در گہش پیل و شیران بود

وزان پس بدو گفت کز میمنہ سوارانِ بسیارو پیل و بنہ

۱۔ خورشید پیکر یعنی آفتاب کی صورت کا12
Compared with original and corrected
 
Top