نیرنگ خیال
لائبریرین
اتنی مہلت کہاں کہ گھٹنوں سے
سر اُٹھا کر فلک کو دیکھ سکوں
اپنے ٹکڑے اُٹھاؤں دانتوں سے
ذرہ ذرہ کریدتا جاؤں
چھیلتا جاؤں ریت سے افشاں
وقت بیٹھا ہوا ہے گردن پر
تو ڑتا جارہا ہے ٹکڑوں میں
زندگی دے کے بھی نہیں چکتے
زندگی کے جو قرض دینے ہیں