سود میں اضافہ…معاشی چہرہ خوبصورتی کھو رہاہے

سیما علی

لائبریرین

سود میں اضافہ…معاشی چہرہ خوبصورتی کھو رہاہے​

Dec 18, 2021
سید مدبر شاہ
اسٹیٹ بینک نے گذشتہ روز ایک دفعہ پھر نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں ایک فیصد کا اضافہ کر دیا ہے جو پاکستانی کی صنعت اور تجارت پر ایک بم کی طرح گرا ہے پاکستان میں بنکوں کے قرضوں پر چلنے والے کارپوریٹ سیکٹر کو اس سے زیادہ فرق ممکن ہے نہ پڑے کیونکہ ان کے منافع پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں لیکن سمال اور میڈیم انڈسٹری کیلئے یہ اضافہ زیر قاتل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں ویسے بھی سمال اینڈ میڈیم کاروبار طوفان کی زد میں رہتے ہیں اور خاص طور پر مینو فکچرنگ سیکٹر پاکستان میں ہمیشہ مسائل کا شکار رہا ہے۔ اس وقت حکومت نے شرح سود 9.75 فیصد کر دی ہے۔ اس پر بنک کا دو فیصد منافع اور انشورنس جمع کی جائے تو یہ ساڑھے بارہ فیصد پر قرض چلا جاتا ہے اب اتنی بلند شرح سود پر کاروبار کرنا بڑا مشکل ہے۔ ایک کاروباری شخصیت نے جب سات فیصد پر قرض لیا تو اس نے پلان بھی اسی سات فیصد کے حساب سے کیا اب جب صرف گذشتہ تین ماہ میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں پونے تین فیصد اضافہ کر دیا ہے تو کیسے کاروبار کو قائم رکھا جا سکتا ہے کیونکہ پہلے ہی کم سے کم منافعوں پر کام ہو رہا ہے۔ اسلئے پاکستان کے کاروباری حلقوں نے اسٹیٹ بینک کی اس مانیٹری پالیسی کو مسترد کر دیا ہے اگر ہم اس وقت پاکستان میں جائزہ لیں تو پہلے ہی مینو فکچرنگ سیکٹر سے وابستہ ہزاروں سرمایہ کاروں نے اپنا پیسہ صنعت سے نکال کر یا تو ٹریڈنگ میں لگا دیا ہے یا پھر زمین خرید کر کٹنگ کر کے کالونی بنا دی ہے۔ اس وقت پاکستان میں کاروبار صرف یہ ہی رہ گیا کیونکہ ملک کا زیادہ کالا دھن رئیل اسٹیٹ میں لگا ہوا ہے اب اگر کوئی سرمایہ کار کسی چیز کا مینوفیکچرنگ کارخانہ لگاتا ہے۔ اسے 40 محکموں کے ساتھ معاملات کرنے پڑتے ہیں لیکن کالونی کاٹنے پر دو چار محکموں کو نمٹانا ہوتا ہے تو پھر کیوں کارخانہ لگا کر پریشانی اٹھائی جائے ۔اب رہی سہی کسر شرح سود میں اضافہ نے پوری کر دی ۔اس وقت رئیل اسٹیٹ کے علاؤہ ٹیکسٹائل سیکٹر ایسا ہے جس میں کام ہو رہا ہے لیکن اب اس سیکٹر میں بھی چارمنگ ختم ہو رہی ہے کیونکہ ڈالر 178 روپے پر جانے کا جو ایکسپورٹرز کو فائدہ تھاوہ شرح سود میں اضافہ اور سیلز ٹیکس ریفنڈ بروقت نہ ملنے کی وجہ سے نقصان میں جانے کا خدشہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت حکومت نے جو پیسہ سیلز ٹیکس کی مد میں جمع کیا ہوا ہے اس کا 90 فیصد صنعت کاروں نے خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبہ نے بنکوں سے قرض لے کر سیلز ٹیکس ادا کیا ہوا ہے۔ اب اگر شرح سور سات سے بڑی کر 9.75 پر چلی جائیگی تو یہ تو گھاٹے کا سودا ہو گیا جس سے صنعت چلانا مشکل ہو جائیگی اور یہ جو کہا جا رہا ہے کہ جون 2022 تک 100 ٹیکسٹائل کارخانے مزید لگ جائیں گے تو اگر حالات یہ ہی رہے تو 100 پرانے لگے ہوئے بند بھی ہو جائیں گے۔دنیا میں کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی اس کی اقتصادی پالیسی کے تسلسل پر کھڑی ہوتی ہے لیکن پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے تو ملک کو معاشی تجربہ گاہ بنا دیا ہے جہاں ہر 6 ماہ کے بعد خزانہ کے وزیر سے لے کر سیکرٹری سمیت سب تبدیل ہوتے ہیں ساتھ ہی پالیسی بھی تبدیل ہوتی ہے کورونا کی وجہ سے انڈیا اور بنگلا دیش کا ٹیکسٹائل سیکٹر بند ہوا تو پاکستان کو آرڈر ملے اور روپیہ کمزور ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو فائدہ ہوا جبکہ ملک کی مجموعی ایکسپورٹ بھی 4 سے 5 ارب ڈالرز بڑھ گئی جسے کامیابی سمجھ لیا گیا ہے یہ کامیابی نہیں ہے یہ ایک اتفاق ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس اتفاقی کامیابی کا تسلسل بھی قائم رکھنا مشکل ہو رہا ہے ۔پاکستان کی سٹاک مارکیٹ بھی ایک مذاق ہی ہے پاکستان کی آبادی 23 کروڑ سے زائد ہے جبکہ سٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ سرمایہ کار صرف دو لاکھ ہیں جن میں سے مشکل سے 40 ہزار متحرک کردار ادا کرتے ہیں باقی صرف دیکھتے ہیں اتنی چھوٹی سی سٹاک مارکیٹ کو ملکی معشت کا محور قرار دینا مذاق ہی لگتا ہے ۔بلند شرح سود ڈالر 180 روپیے کا اور دم توڑتا مینو فکچرنگ سیکٹر مہنگائی کا طوفان پاکستانی معاشی چہرہ اپنی خوبصورتی کھو رہا ہے۔جو دن بدن بھیانک ہوتی جا رہی ہے ۔اللہ اس ملک پر اپنا کرم کریں ہماری حکمران اشرافیہ نے اس کا بیڑہ غرق کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیا ۔
 

جاسم محمد

محفلین

سود میں اضافہ…معاشی چہرہ خوبصورتی کھو رہاہے​

Dec 18, 2021
سید مدبر شاہ
اسٹیٹ بینک نے گذشتہ روز ایک دفعہ پھر نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں ایک فیصد کا اضافہ کر دیا ہے جو پاکستانی کی صنعت اور تجارت پر ایک بم کی طرح گرا ہے پاکستان میں بنکوں کے قرضوں پر چلنے والے کارپوریٹ سیکٹر کو اس سے زیادہ فرق ممکن ہے نہ پڑے کیونکہ ان کے منافع پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں لیکن سمال اور میڈیم انڈسٹری کیلئے یہ اضافہ زیر قاتل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں ویسے بھی سمال اینڈ میڈیم کاروبار طوفان کی زد میں رہتے ہیں اور خاص طور پر مینو فکچرنگ سیکٹر پاکستان میں ہمیشہ مسائل کا شکار رہا ہے۔ اس وقت حکومت نے شرح سود 9.75 فیصد کر دی ہے۔ اس پر بنک کا دو فیصد منافع اور انشورنس جمع کی جائے تو یہ ساڑھے بارہ فیصد پر قرض چلا جاتا ہے اب اتنی بلند شرح سود پر کاروبار کرنا بڑا مشکل ہے۔ ایک کاروباری شخصیت نے جب سات فیصد پر قرض لیا تو اس نے پلان بھی اسی سات فیصد کے حساب سے کیا اب جب صرف گذشتہ تین ماہ میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں پونے تین فیصد اضافہ کر دیا ہے تو کیسے کاروبار کو قائم رکھا جا سکتا ہے کیونکہ پہلے ہی کم سے کم منافعوں پر کام ہو رہا ہے۔ اسلئے پاکستان کے کاروباری حلقوں نے اسٹیٹ بینک کی اس مانیٹری پالیسی کو مسترد کر دیا ہے اگر ہم اس وقت پاکستان میں جائزہ لیں تو پہلے ہی مینو فکچرنگ سیکٹر سے وابستہ ہزاروں سرمایہ کاروں نے اپنا پیسہ صنعت سے نکال کر یا تو ٹریڈنگ میں لگا دیا ہے یا پھر زمین خرید کر کٹنگ کر کے کالونی بنا دی ہے۔ اس وقت پاکستان میں کاروبار صرف یہ ہی رہ گیا کیونکہ ملک کا زیادہ کالا دھن رئیل اسٹیٹ میں لگا ہوا ہے اب اگر کوئی سرمایہ کار کسی چیز کا مینوفیکچرنگ کارخانہ لگاتا ہے۔ اسے 40 محکموں کے ساتھ معاملات کرنے پڑتے ہیں لیکن کالونی کاٹنے پر دو چار محکموں کو نمٹانا ہوتا ہے تو پھر کیوں کارخانہ لگا کر پریشانی اٹھائی جائے ۔اب رہی سہی کسر شرح سود میں اضافہ نے پوری کر دی ۔اس وقت رئیل اسٹیٹ کے علاؤہ ٹیکسٹائل سیکٹر ایسا ہے جس میں کام ہو رہا ہے لیکن اب اس سیکٹر میں بھی چارمنگ ختم ہو رہی ہے کیونکہ ڈالر 178 روپے پر جانے کا جو ایکسپورٹرز کو فائدہ تھاوہ شرح سود میں اضافہ اور سیلز ٹیکس ریفنڈ بروقت نہ ملنے کی وجہ سے نقصان میں جانے کا خدشہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت حکومت نے جو پیسہ سیلز ٹیکس کی مد میں جمع کیا ہوا ہے اس کا 90 فیصد صنعت کاروں نے خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبہ نے بنکوں سے قرض لے کر سیلز ٹیکس ادا کیا ہوا ہے۔ اب اگر شرح سور سات سے بڑی کر 9.75 پر چلی جائیگی تو یہ تو گھاٹے کا سودا ہو گیا جس سے صنعت چلانا مشکل ہو جائیگی اور یہ جو کہا جا رہا ہے کہ جون 2022 تک 100 ٹیکسٹائل کارخانے مزید لگ جائیں گے تو اگر حالات یہ ہی رہے تو 100 پرانے لگے ہوئے بند بھی ہو جائیں گے۔دنیا میں کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی اس کی اقتصادی پالیسی کے تسلسل پر کھڑی ہوتی ہے لیکن پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے تو ملک کو معاشی تجربہ گاہ بنا دیا ہے جہاں ہر 6 ماہ کے بعد خزانہ کے وزیر سے لے کر سیکرٹری سمیت سب تبدیل ہوتے ہیں ساتھ ہی پالیسی بھی تبدیل ہوتی ہے کورونا کی وجہ سے انڈیا اور بنگلا دیش کا ٹیکسٹائل سیکٹر بند ہوا تو پاکستان کو آرڈر ملے اور روپیہ کمزور ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو فائدہ ہوا جبکہ ملک کی مجموعی ایکسپورٹ بھی 4 سے 5 ارب ڈالرز بڑھ گئی جسے کامیابی سمجھ لیا گیا ہے یہ کامیابی نہیں ہے یہ ایک اتفاق ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس اتفاقی کامیابی کا تسلسل بھی قائم رکھنا مشکل ہو رہا ہے ۔پاکستان کی سٹاک مارکیٹ بھی ایک مذاق ہی ہے پاکستان کی آبادی 23 کروڑ سے زائد ہے جبکہ سٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ سرمایہ کار صرف دو لاکھ ہیں جن میں سے مشکل سے 40 ہزار متحرک کردار ادا کرتے ہیں باقی صرف دیکھتے ہیں اتنی چھوٹی سی سٹاک مارکیٹ کو ملکی معشت کا محور قرار دینا مذاق ہی لگتا ہے ۔بلند شرح سود ڈالر 180 روپیے کا اور دم توڑتا مینو فکچرنگ سیکٹر مہنگائی کا طوفان پاکستانی معاشی چہرہ اپنی خوبصورتی کھو رہا ہے۔جو دن بدن بھیانک ہوتی جا رہی ہے ۔اللہ اس ملک پر اپنا کرم کریں ہماری حکمران اشرافیہ نے اس کا بیڑہ غرق کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیا ۔
شرح سود بڑھانے کی وجہ؛

 
Top