سورج تھے ، چراغِ کفِ جادہ میں نظر آئے
ہم ایسے سمندر تھے کہ دریا میں نظر آئے
دنیا تھی رگ و پے میں سمائی ہوئی ایسی
ضد تھی کہ سبھی کچھ اسی دنیا میں نظر آئے
سرمایہِ جاں لوگ ، متاعِ دو جہاں لوگ
دیکھا تو سبھی اہل تماشا میں نظر آئے
خود دامنِ یوسف کی تمنا تھی کہ ہو چاک
اب کہ وہ ہنر ، دستِ زلیخا میں نظر آئے
(افتخار عارف )
ہم ایسے سمندر تھے کہ دریا میں نظر آئے
دنیا تھی رگ و پے میں سمائی ہوئی ایسی
ضد تھی کہ سبھی کچھ اسی دنیا میں نظر آئے
سرمایہِ جاں لوگ ، متاعِ دو جہاں لوگ
دیکھا تو سبھی اہل تماشا میں نظر آئے
خود دامنِ یوسف کی تمنا تھی کہ ہو چاک
اب کہ وہ ہنر ، دستِ زلیخا میں نظر آئے
(افتخار عارف )