سورج زمین کے گرد گھومتا ہے، سعودی مفتی اعلیٰ کا انکشاف!

arifkarim

معطل
صالح بن فوزان الفوزان جو کہ سعودی عرب کے فتویٰ دینے والے اداروں کے مستقل رُکن ہیں کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ اور اسکا اثبوت انہوں نے کچھ آیت قرآنی آیات سے پیش کرنے کی کوشش کی اور فرمایا کہ جو مسلمان قرآن کو چھوڑ کر سائنسی جدید نظریات کو تسلیم کرتا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ ایک مسلمان کو قرآنی تعلیمات پر چلنا چاہئے۔ اس پورے انٹرویو کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے:
http://www.thecommentator.com/artic...ust_believe_the_sun_revolves_around_the_earth

اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا میں جدید سائنس کا فقدان اور Pseudoscience کے عام ہونے کے پیچھے جو محرکات ہیں اور انکے باعث جو نقصان ہمیں ہو رہا اسکو ہم کیسے درست کر سکتے ہیں؟ کیا دینی اسکولوں میں سائنسی، منطقی اور معقول مضامین کا پڑھایا جانا لازم نہیں ہونا چاہئے؟ اگر یہ ہو جائے تو میرے خیال میں جدید سائنسی سوچ دیسی معاشروں میں پروان چڑھ سکتی ہے اور بلاوجہ کی جہالت اور تعصب کا خاتمہ ہوسکے گا۔
 

زیک

مسافر
احمد رضا بریلوی کا بھی یہی کہنا تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ لہذا اس معاملے پر شاید اجماع امت ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
کہا کرتے ہیں کہ ایک زمانے میں یہ روایت تھی کہ دینی مدارس میں منطق اور سائنس جیسے مضامین عام پڑھائے جاتے تھے۔ اگرچہ اپنی کم عمری کے سبب اس نکتے کی تصدیق کرنے سے قاصر ہوں۔
خود کبھی اس قسم کی گفتگو سے واسطہ پڑے تو دعوے داروں سے اس طرز کا سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا مفتی صاحب یہ دعویٰ کرتے ہوئے خود بھی قرآن پر چل رہے ہیں؟ انہیں کیسے یقین ہے کہ ان کی اپنی بات قرآن کے خلاف نہیں جاتی؟
 

محمد سعد

محفلین
پاکستانی بھی خیر سے کافی پکے مسلمان ہیں۔ یہاں ابھی تک یوٹیوب نہیں کھلی۔ سعودی مفتی کو دیکھنے کے لیے بھی "غیر قانونی" حرکت کرنی پڑے گی، کہ یوٹیوب تو خیر سے خلافِ قانون چیز بن چکی ہے۔ ہیں جی؟ :terror:
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
احمد رضا بریلوی کا بھی یہی کہنا تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ لہذا اس معاملے پر شاید اجماع امت ہے۔

میں یہاں مذہبی باتوں میں نہیں جانا چاہتا۔ میرا مقصد یہاں یہ ہے کہ کس طرح ہم سائنس، منطق اور معقول مضامین کو دینی مدارس تک لیکر آئیں۔ یاد رہے کہ دینی اسکول صرف عالم اسلام تک محدود نہیں ہیں۔ امریکہ، اسرائیل ، ہندوستان، چین ہر جگہ اپنے اپنے مذاہب کے مذہبی اسکول موجود ہیں جہاں سائنسی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
شاید انہیں دکھانا پڑے گا کہ جس چیز کو یہ کفر کہہ رہے ہیں، وہ انسان کو خدا کے قریب لانے کا ہی ایک ذریعہ ہے۔ جب وہ کسی مظہر کو ایک نئی نظر سے دیکھ کر، ایک نئے انداز سے "سبحان اللہ!" کہیں گے، تب انہیں سمجھ آئے گی کہ یہ سارا رونا پیٹنا کس بات کا ہو رہا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
مسئلہ شاید یہ ہے کہ جب دینی طبقے کو بتایا جاتا ہے کہ قرآن میں ہر سوال کا جواب ہے تو وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ تھامس کے کیلکولس کا سولوشن مینول بھی بغیر اپنی جگہ سے ہلے اسی میں انہیں مل جائے گا۔ اگر اس کا احساس انہیں دلا دیا جائے کہ مختلف اقسام کے سوالوں کے جواب مختلف طریقوں سے ڈھونڈنے پڑتے ہیں، تو شاید کچھ فائدہ ہو۔ بلکہ یہ بات تو انہیں قرآن میں سے بھی سمجھانا زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد، سائنس کو سیکھنے کی موٹیویشن بھی قرآن سے ہی حاصل کرتی ہے (خدا کی نشانیوں کا تذکرہ وغیرہ)۔ اور پھر دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اسی کو بالکل الٹ سمت میں لے جاتے ہیں۔ شاید یہ مسئلہ اتنا سادہ بھی نہیں۔
 
جیو سنٹرزم کا نظریہ تو بہت مشہور ہے۔
اکثر خلانورد اپنی کیلکولیشن جیو سنٹرزم سے ہی کرتے ہیں جو درست بھی ہوتی ہیں
 

محمد امین

لائبریرین
قدیم سائنسدان بھی غالبا یہی کہا کرتے تھے کہ زمین کے گرد سورج گھومتا ہے۔ بہرحال ایک بات واضح کر دوں کہ دینی مدارس میں منطق اور فلسفہ ضرور پڑھایا جاتا ہے، اب وہ جدید تو نہیں ہے قدیم ہی ہے۔ اسی طرح جو علماء قرآن کے سہارے کہتے ہیں کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے وہ قدیم سائنسدانوں کا سہارا ہی لے کر کہتے ہیں۔ میں نے بریلوی مسلک کے ایک بڑے مفتی صاحب سے احمد رضا خان صاحب کی تحقیق کے بارے میں دریافت کیا تھا تو انہوں نے کہا ان سے خطا بھی ہو سکتی ہے اس زمانے میں بر صغیر میں جدید سائنس اتنی عام نہیں تھی خاص کر مذہبی طبقے میں۔
 

سلفی کال

محفلین
نہ من تنہا دریں میخانہ مستم
جنید و شبلی و عطار شد مست
شیخ فوزان اس مسئلہ میں پہلے آدمی نہیں ،ان سے پہلے سعودی اور دیگر ممالک کے کئی مشہور علماء
اور اب بھی کتنے لوگ اس نظریہ کے قائل ہیں
www.youtube.com/watch?v=vNiKKMpErbA
www.youtube.com/watch?v=MtCPq04Z5T8
آپ گوگل پر (الشمس تدور حول الارض )
لکھ کر دیکھ لیں ،،
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جب حرکت اور سکون کے معنوی تصورات اور ان کے اضافی اور ایک دوسرے پر منحصر ہونے پر اتنا کچھ کہا جاچکا ہو تو ایسے بیانات میں تاویلات کی بحثوں کے لیے از حد متنوع نکات چنے جاسکتے ہیں ۔ اسے اسلامی اور سائنسی تصادم کے رنگ میں دیکھنا گزشتہ اور آئندہ ادوار کے تناظر میں مجھے کچھ خاص معنی خیز نہیں لگا ۔ قران کریم میں" سب " (کل فی فلک یسبحون ) کا اپنے اپنے فلک میں تیرنا بھی کہا گیا ہے۔نیز محض زمیں کا سورج کے گردگھومنا بھی قطعی طور پر واضح نہیں ۔ البتہ نظام کے آفاقی نظاموں کے ایسے توازن کی طرف ،جو انسانی زندگی میں عددوسنین کے جسابات کے لیے معاون ہوں، مسلمہ اشارے ملتےہیں۔۔۔ایک رائے
 
میں نے سائنس کو ہمیشہ کمزور اور بے سہارا پایا۔ سائنس نے یہ کر لیا ، وہ کر لیا، سائنس نے اتنی ترقی کرلی۔ سائنس آج جس مقام پر ہے صرف اور صرف سہاروں کی مدد سے، بے شمار بیساکھیوں کی مدد سے، لاکھوں بیساکھیوں کے سہارے سائنس اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اور روز بروز ان میں اضافہ ہورہا ہے۔
سائنس کبھی ایک نظریہ پر قائم نہیں رہی، سائنسی نظریے روز اوّل سے بدلتے چلے آرہے ہیں۔ پہلے پہل زمین سیدھی (flat) تھی پھر گول(spheroid) ہوئی اور پھر اب بیضوی (oblate spheroid ) کل کو اللہ جانے یہ کیا صورت اختیار کر لے۔
زمین پر لوگ بڑے سکون سے رہ رہے تھے ،پھر ایک صاحب آئے اور کہا زمین تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ سب نے اسکو سر پر بیٹھا لیا، اُس نے کچھ اصول بنا ڈالے ، ہر طرف واہ واہ ہونے لگی۔ پھر ایک اور صاحب کہنے لگے کہ وہ غلط تھا ، اور نظریہ اضافت پیش کر دیا۔
سو سال پہلے کا جہاز دیکھیئے اور آج کا جہاز ۔ ایک جہاز بنا، ایک اور بنا، ایک اور ایک اور اس کو ایسے کردو اس کو ویسے کردو، نہیں یہ ٹھیک نہیں بنا دوبارہ بنا، بنا،بنا ، رد کر ، پھر سے بنا بنا بنا۔۔۔ کرتے کرتے بناتے رد کرتے آج کا ہوائی جہاز بنا ڈالا۔ سائنس کیوں پہلا اُڑنے والے جہاز پر متفق نہیں ہوئی، F16 کیونکر بنا یا، پرانے ماڈل کیوں رد کئیے گئے، کیا سائنس پرانی ہو گئی تھی؟، جی ہاں بالکل بوسیدہ سائنس ، ناقابلِ استعمال سائنس، رَد کر دہ سائنس ۔
آج کی نئی سائنس کل کو پرانی اور ناقابلِ استعمال ہو جائے گی۔
آپ کے ہاتھ میں کواڈکور (quad core) پروسسر موبائل، کہاں سے آیا۔کیا سائنسدانوں نے یکدم بنا ڈالا، نہیں ہرگز نہیں، ارتقاء ۔۔۔ پہلا کمپیوٹر جس کا پروسسر ایک بڑے کمرے سما سکتا تھا۔ انتہائی سست رفتار ذرا سوچئیے۔
پہلا ریڈیو، پہلا ٹی وی، پہلی کار، پہلی کشتی۔۔۔
جی ارتقاء سائنس ہمیشہ ہمیشہ ارتقائی عمل سے گزرتی رہے گی۔ نئی نئی ایجادات نئے نئے نظریات آتے رہیں گے اور رد کئیے جاتے رہیں گے۔
انسان نے جب سوچنا شروع کیا تو زمین کو مرکز ٹھہرایا ۔ پھر سوج مرکز بنا، پھر وہ گلیکسی مرکز بنی سورج جسکا ذرہ ہے، پھر یہ گلیکسی اور ہزاروں ، سب کسی مرکز کے گرد گھوم رہی ہیں۔ روزبروز نئے ستاروں کی دریافت، کیا آپ اس کائینات کی وسعت کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں، پھر مرکز کیسے متعین ہوا۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
میں نے سائنس کو ہمیشہ کمزور اور بے سہارا پایا۔ سائنس نے یہ کر لیا ، وہ کر لیا، سائنس نے اتنی ترقی کرلی۔ سائنس آج جس مقام پر ہے صرف اور صرف سہاروں کی مدد سے، بے شمار بیساکھیوں کی مدد سے، لاکھوں بیساکھیوں کے سہارے سائنس اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اور روز بروز ان میں اضافہ ہورہا ہے۔
میں سمجھا نہیں… آپ کون سی بیساکھیوں اور سہاروں کی بات کر رہے ہیں؟ کوئی مثال فراہم کریں گے؟

سائنس کبھی ایک نظریہ پر قائم نہیں رہی، سائنسی نظریے روز اوّل سے بدلتے چلے آرہے ہیں۔ پہلے پہل زمین سیدھی (flat) تھی پھر گول(spheroid) ہوئی اور پھر اب بیضوی (oblate spheroid ) کل کو اللہ جانے یہ کیا صورت اختیار کر لے۔
زمین پر لوگ بڑے سکون سے رہ رہے تھے ،پھر ایک صاحب آئے اور کہا زمین تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ سب نے اسکو سر پر بیٹھا لیا، اُس نے کچھ اصول بنا ڈالے ، ہر طرف واہ واہ ہونے لگی۔ پھر ایک اور صاحب کہنے لگے کہ وہ غلط تھا ، اور نظریہ اضافت پیش کر دیا۔
نظریۂ اضافت نے ’زمین تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے‘ والے نظریے (نیوٹن کے نظریۂ ثقالت) کو غلط قرار نہیں دیا تھا۔ نیوٹن کا نظریہ اور اس کی متعلقہ مساوات کچھ مخصوص حالات (مثلاً subatomic ذرات کی حرکت) میں درست کام نہیں کرتیں۔ آئن سٹائن نے اپنے نظریۂ اضافت میں ایسے حالات کی نشاندہی کی تھی، اور ایسی مساوات پیش کی تھیں جو اُن مخصوص حالات میں بھی درست نتیجہ فراہم کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، آئن سٹائن کے نظریے نے نیوٹن کے نظریے کو مزید کشادگی فراہم کی تھی۔ یہاں ایک بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ آج بھی میزائلز اور مصنوعی سیاروں وغیرہ کے لیے نیوٹن ہی کی مساوات استعمال ہوتی ہیں، کیونکہ ان میں حساب کتاب کرنا نسبتاً سہل ہے، اور میزائلز اور مصنوعی سیاروں کے کیس میں قابلِ عمل حد تک درست بھی۔

سو سال پہلے کا جہاز دیکھیئے اور آج کا جہاز ۔ ایک جہاز بنا، ایک اور بنا، ایک اور ایک اور اس کو ایسے کردو اس کو ویسے کردو، نہیں یہ ٹھیک نہیں بنا دوبارہ بنا، بنا،بنا ، رد کر ، پھر سے بنا بنا بنا۔۔۔ کرتے کرتے بناتے رد کرتے آج کا ہوائی جہاز بنا ڈالا۔ سائنس کیوں پہلا اُڑنے والے جہاز پر متفق نہیں ہوئی، F16 کیونکر بنا یا، پرانے ماڈل کیوں رد کئیے گئے، کیا سائنس پرانی ہو گئی تھی؟، جی ہاں بالکل بوسیدہ سائنس ، ناقابلِ استعمال سائنس، رَد کر دہ سائنس ۔
آج کی نئی سائنس کل کو پرانی اور ناقابلِ استعمال ہو جائے گی۔
اوپر بیان کردہ وضاحت دیکھیے: نیوٹن کا نظریہ اور اس کی مساوات ’پرانے‘ ہونے کے باوجود آج بھی قابلِ عمل ہیں۔

آپ کے ہاتھ میں کواڈکور (quad core) پروسسر موبائل، کہاں سے آیا۔کیا سائنسدانوں نے یکدم بنا ڈالا، نہیں ہرگز نہیں، ارتقاء ۔۔۔ پہلا کمپیوٹر جس کا پروسسر ایک بڑے کمرے سما سکتا تھا۔ انتہائی سست رفتار ذرا سوچئیے۔
پہلا ریڈیو، پہلا ٹی وی، پہلی کار، پہلی کشتی۔۔۔
جی ارتقاء سائنس ہمیشہ ہمیشہ ارتقائی عمل سے گزرتی رہے گی۔ نئی نئی ایجادات نئے نئے نظریات آتے رہیں گے اور رد کئیے جاتے رہیں گے۔
شاید آپ کے نزدیک یہ سائنس کی خامی ہو، لیکن میرے نزدیک یہ سائنس کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ سائنس کا علم وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بہتر سے بہتر کرتا چلا جاتا ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش اچھی بات ہی ہوتی ہے۔

انسان نے جب سوچنا شروع کیا تو زمین کو مرکز ٹھہرایا ۔ پھر سوج مرکز بنا، پھر وہ گلیکسی مرکز بنی سورج جسکا ذرہ ہے، پھر یہ گلیکسی اور ہزاروں ، سب کسی مرکز کے گرد گھوم رہی ہیں۔ روزبروز نئے ستاروں کی دریافت، کیا آپ اس کائینات کی وسعت کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں، پھر مرکز کیسے متعین ہوا۔
کائنات کی ساخت کے بارے میں میرا مطالعہ محدود ہے، لیکن جہاں تک پڑھ رکھا ہے، اس کے مطابق کائنات کا کوئی مرکز نہیں ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں 3:190

جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) "پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے 3:191

کائنات کے ارتقاء اور اس ے نظام سے متعلق ایک اچھا کورس کورسیرا کی ویب سائٹ پر جاری ہے۔ اس میں شرکت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
ربط: From the Big Bang to Dark Energy
 
میں سمجھا نہیں… آپ کون سی بیساکھیوں اور سہاروں کی بات کر رہے ہیں؟ کوئی مثال فراہم کریں گے؟


نظریۂ اضافت نے ’زمین تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے‘ والے نظریے (نیوٹن کے نظریۂ ثقالت) کو غلط قرار نہیں دیا تھا۔ نیوٹن کا نظریہ اور اس کی متعلقہ مساوات کچھ مخصوص حالات (مثلاً subatomic ذرات کی حرکت) میں درست کام نہیں کرتیں۔ آئن سٹائن نے اپنے نظریۂ اضافت میں ایسے حالات کی نشاندہی کی تھی، اور ایسی مساوات پیش کی تھیں جو اُن مخصوص حالات میں بھی درست نتیجہ فراہم کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، آئن سٹائن کے نظریے نے نیوٹن کے نظریے کو مزید کشادگی فراہم کی تھی۔ یہاں ایک بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ آج بھی میزائلز اور مصنوعی سیاروں وغیرہ کے لیے نیوٹن ہی کی مساوات استعمال ہوتی ہیں، کیونکہ ان میں حساب کتاب کرنا نسبتاً سہل ہے، اور میزائلز اور مصنوعی سیاروں کے کیس میں قابلِ عمل حد تک درست بھی۔


اوپر بیان کردہ وضاحت دیکھیے: نیوٹن کا نظریہ اور اس کی مساوات ’پرانے‘ ہونے کے باوجود آج بھی قابلِ عمل ہیں۔


شاید آپ کے نزدیک یہ سائنس کی خامی ہو، لیکن میرے نزدیک یہ سائنس کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ سائنس کا علم وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بہتر سے بہتر کرتا چلا جاتا ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش اچھی بات ہی ہوتی ہے۔


کائنات کی ساخت کے بارے میں میرا مطالعہ محدود ہے، لیکن جہاں تک پڑھ رکھا ہے، اس کے مطابق کائنات کا کوئی مرکز نہیں ہے۔

سائنس کسی مذہب کو نہیں مانتی، صرف حواسِ خمسہ پر، یعنی جو چیز انسان خود محسوس کر سکے یا direct or indirect مشاہدہ کر سکے، کو مانتی ہے۔ انسان کہاں سے آیا اور کہاں جانا ہے سائنس کو کچھ نہیں معلوم، روح کیا ہے، نور کیا ہے؟ سائنس کی حدود اسی تھری ڈائمنشن سے شروع ہو کر یہیں ختم ہو جاتی ہیں، ابتداء اور انتہاء اسی کرہِ عرض میں گم ہیں۔ بِگ بَینگ ایک تھیوری ہے فیکٹ یا حقیقت نہیں ہے، اس کی جگہ ایک نئی تھیوری نے لے لی ہے، وہ ہے سٹفن ہاکنگ کی تھیوری۔
قوانین قدرت میں اگر ایک بھی تبدیلی پیدا ہوجائے تو ساری کی ساری سائنسیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔
مثلاً friction کو ختم کیا جائے تو کیا رہ جا ئے گا؟
یا کاربن نہ ہوتا، یا کوئی اور element نہ ہوتا، یا ختم ہو جائے، تو۔۔۔


darwin-newton-and-einstein-at-the-end-of-their-rope

قرآن میں واضح طور پر relativity کا ذکر ہے، دیکھئے سورۃ السجدۃ آیت 5 اور سورۃ المعارج آیت 4 اور سورة الحج آیت 47 ۔
 
Top