سید رافع
محفلین
اپنے قلب پر ایمان کی بالادستی قائم رکھنے کی کوشش کرنا مومنین کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ انکی سیاست اسی بالادستی کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ انکا جسم اور اس میں موجود توانائی ایمان بڑھانے میں لگتی ہے۔ اسی کے لیے وہ علم حاصل کرتے ہیں، سفر کرتے ہیں اور جنگیں لڑتے ہیں۔
اصحاب کہف 309 سال کے بعد جب جاگے تو انہیں چند فکریں لاحق تھیں۔ ان کی فکر کیا تھی؟ وہ جس فکر میں سوئے تھے اسی میں جاگے۔ انکو بھی آ ج کے مومنین کی طرح پاکیزہ کھانا کی سخت فکر تھی۔ وہ مومنین تھے اور انہیں معلوم تھا کہ پاکیزہ کھائے بغیر وہ اپنے ایمان پر قائم نہیں رہے سکتے۔ کھانے سے ہی گوشت، ہڈیاں اور خون بنتا ہے جس سے عبادت کی جاتی ہے۔سو ان میں سے ایک کہنے لگا:
فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا
پھر وہ دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے۔
پھر مذید لطیف بات جو اللہ نے کلام الہی کا حصہ بنا دی وہ یہ ہے کہ ان مومنین کے کھانا ذخیرہ کرنے کے متعلق نہ سوچا بلکہ کہا کہ کچھ کھانا لے آئے۔ یہ عمل اصحاب کہف آج کے مومنین کے لیے بھی دجل سے جیتنے کا وظیفہ ہے کہ رزق ذخیرہ کرنے کی حرص میں نہ پڑے۔
فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ
تو اس میں سے کچھ کھانا تمہارے پاس لے آئے
آج کے مومنین کو بھی رزق جمع کرنے کی حرص دجل میں مبتلا کر دے گی۔ اللہ ہم سب کو حرص سے بچائے۔
ان کو ایک فکر یہ تھی کہ کسی کافر کو انکی خبر نہ ہو جائے۔ سو ان میں اس ایک کہتا ہے کہ
وَلْيَتَلَطَّفْ
(آنے جانے اور خریدنے میں) آہستگی اور نرمی سے کام لے۔
یہی حال آج کا ہے کہ دجل اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جس شخص نے لطف و کرم سے کام نہ لیا اور چال ، کلام اور معاملات میں لطیف طبعیت نہ رہا تو وہ مومن بھی نہ رہ پائے گا۔ ہر طرف کفر کی خار دار جھاڑیاں اگ آئیں ہیں۔
وَلْيَتَلَطَّفْ وَلاَ يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا
کہ (آنے جانے اور خریدنے میں) آہستگی اور نرمی سے کام لے اور کسی ایک شخص کو (بھی) تمہاری خبر نہ ہونے دے
مومن کے دشمن کفار ہوتے ہیں۔ جب کفار کی کثرت ہو تو اگر مومن اپنی خیر چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ الجھے نہیں، مودبانہ کلام کرے۔ دجل کے اس دور میں وہ معاملات میں آہستگی اور نرمی سے کام لے ورنہ کفار سے الجھ کر کم از کم وہ اپنا ایمان ضایع کر دے گا۔ یا بات بڑھی تو وہ اسے مار دینے تک سے نہ چوکیں گے۔ ایک چپ سو سکھ۔ بس دل ہی دل میں اللہ کی جنت اور اس دنیا سے جلد رخصت ہونے کا تصور کیے رہے۔ قرآن کی آیات پر غور کرتا رہے۔
لفظ سکہ سے بھی دجل کے زمانے کی کچھ خبر ہوتی ہے۔ یہی 300 سال پرانا سکہ اس دور میں اصحاب کہف کا راز فشاں کرنے کا باعث بنا۔ آج بھی ایسا دور نزدیک ہی ہے جب مومنین کے ٹھکانے شہروں سے دور ہوں گے۔ قوی امید ہے کہ ان شہروں کے لین دین کے طریقوں سے مومنین واقف نہ ہوں اور یہی بات انکا راز کھول دے۔
بِوَرِقِكُمْ هَذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ
یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو
رسول اللہ ﷺ کی امت آخری دور کی امت ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ اس امت کو سورہ کہف جمعے کے روز پڑھنے کا حکم ہے تاکہ آخری دور کے دجل یا فریب سے بچ سکے؟ حالانکہ سورہ بقرہ و آل عمران جس گھر میں پڑھی جائیں وہاں شیطان نہیں آتا۔ ان سورتوں میں شریعت کے احکام بھی زیادہ ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دجل کے دور میں شریعت کی یاد دھانی کے لیے اور شیطان کو گھروں سے بھگانے کے لیے ان دو سورتوں کی تلاوت کا حکم ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ فرمایا گیا:
سیدنا ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نورکی روشنی ہوجاتی ہے۔سنن دارمی 3407
یہ سورہ دجل کے لیے خاص ہے۔ یہ دجل سے بچاو کے مضامین سے لبریز ہے۔ دجل کے دور میں چند ہی لوگ ایمان والے بچیں گے۔ باقی سب کفر میں مبتلا ہوں گے۔ جیسا کہ اصحاب کہف کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے ۔ وہ چند نوجوان اپنےدور کے کفر سے بھاگ کر پہاڑ کے غار میں مقیم ہو گئے تھے۔ چنانچہ آج جوں جوں دجل پھیلے گا ،کفر عام ہو گا۔ ایمان داروں کا شہروں اور انکے محلوں میں رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ اہل ایمان بھاگ کر پہاڑوں میں چلے جائیں گے یا مکہ و مدینہ،شام و عراق و القدس کے متبرک مقامات میں محصور ہوجائیں گے۔
وَكَذَلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلاَ يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا
(سورہ کہف 18 – آیت 19)
اور اسی طرح ہم نے انہیں اٹھا دیا تاکہ وہ آپس میں دریافت کریں، (چنانچہ) ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم (یہاں) ایک دن یا اس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں، (بالآخر) کہنے لگے: تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو، سو تم اپنے میں سے کسی ایک کو اپنا یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو پھر وہ دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ حلال اور پاکیزہ ہے تو اس میں سے کچھ کھانا تمہارے پاس لے آئے اور اسے چاہئے کہ (آنے جانے اور خریدنے میں) آہستگی اور نرمی سے کام لے اور کسی ایک شخص کو (بھی) تمہاری خبر نہ ہونے دے
اصحاب کہف 309 سال کے بعد جب جاگے تو انہیں چند فکریں لاحق تھیں۔ ان کی فکر کیا تھی؟ وہ جس فکر میں سوئے تھے اسی میں جاگے۔ انکو بھی آ ج کے مومنین کی طرح پاکیزہ کھانا کی سخت فکر تھی۔ وہ مومنین تھے اور انہیں معلوم تھا کہ پاکیزہ کھائے بغیر وہ اپنے ایمان پر قائم نہیں رہے سکتے۔ کھانے سے ہی گوشت، ہڈیاں اور خون بنتا ہے جس سے عبادت کی جاتی ہے۔سو ان میں سے ایک کہنے لگا:
فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا
پھر وہ دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے۔
پھر مذید لطیف بات جو اللہ نے کلام الہی کا حصہ بنا دی وہ یہ ہے کہ ان مومنین کے کھانا ذخیرہ کرنے کے متعلق نہ سوچا بلکہ کہا کہ کچھ کھانا لے آئے۔ یہ عمل اصحاب کہف آج کے مومنین کے لیے بھی دجل سے جیتنے کا وظیفہ ہے کہ رزق ذخیرہ کرنے کی حرص میں نہ پڑے۔
فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ
تو اس میں سے کچھ کھانا تمہارے پاس لے آئے
آج کے مومنین کو بھی رزق جمع کرنے کی حرص دجل میں مبتلا کر دے گی۔ اللہ ہم سب کو حرص سے بچائے۔
ان کو ایک فکر یہ تھی کہ کسی کافر کو انکی خبر نہ ہو جائے۔ سو ان میں اس ایک کہتا ہے کہ
وَلْيَتَلَطَّفْ
(آنے جانے اور خریدنے میں) آہستگی اور نرمی سے کام لے۔
یہی حال آج کا ہے کہ دجل اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جس شخص نے لطف و کرم سے کام نہ لیا اور چال ، کلام اور معاملات میں لطیف طبعیت نہ رہا تو وہ مومن بھی نہ رہ پائے گا۔ ہر طرف کفر کی خار دار جھاڑیاں اگ آئیں ہیں۔
وَلْيَتَلَطَّفْ وَلاَ يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا
کہ (آنے جانے اور خریدنے میں) آہستگی اور نرمی سے کام لے اور کسی ایک شخص کو (بھی) تمہاری خبر نہ ہونے دے
مومن کے دشمن کفار ہوتے ہیں۔ جب کفار کی کثرت ہو تو اگر مومن اپنی خیر چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ الجھے نہیں، مودبانہ کلام کرے۔ دجل کے اس دور میں وہ معاملات میں آہستگی اور نرمی سے کام لے ورنہ کفار سے الجھ کر کم از کم وہ اپنا ایمان ضایع کر دے گا۔ یا بات بڑھی تو وہ اسے مار دینے تک سے نہ چوکیں گے۔ ایک چپ سو سکھ۔ بس دل ہی دل میں اللہ کی جنت اور اس دنیا سے جلد رخصت ہونے کا تصور کیے رہے۔ قرآن کی آیات پر غور کرتا رہے۔
لفظ سکہ سے بھی دجل کے زمانے کی کچھ خبر ہوتی ہے۔ یہی 300 سال پرانا سکہ اس دور میں اصحاب کہف کا راز فشاں کرنے کا باعث بنا۔ آج بھی ایسا دور نزدیک ہی ہے جب مومنین کے ٹھکانے شہروں سے دور ہوں گے۔ قوی امید ہے کہ ان شہروں کے لین دین کے طریقوں سے مومنین واقف نہ ہوں اور یہی بات انکا راز کھول دے۔
بِوَرِقِكُمْ هَذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ
یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو
رسول اللہ ﷺ کی امت آخری دور کی امت ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ اس امت کو سورہ کہف جمعے کے روز پڑھنے کا حکم ہے تاکہ آخری دور کے دجل یا فریب سے بچ سکے؟ حالانکہ سورہ بقرہ و آل عمران جس گھر میں پڑھی جائیں وہاں شیطان نہیں آتا۔ ان سورتوں میں شریعت کے احکام بھی زیادہ ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دجل کے دور میں شریعت کی یاد دھانی کے لیے اور شیطان کو گھروں سے بھگانے کے لیے ان دو سورتوں کی تلاوت کا حکم ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ فرمایا گیا:
سیدنا ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نورکی روشنی ہوجاتی ہے۔سنن دارمی 3407
یہ سورہ دجل کے لیے خاص ہے۔ یہ دجل سے بچاو کے مضامین سے لبریز ہے۔ دجل کے دور میں چند ہی لوگ ایمان والے بچیں گے۔ باقی سب کفر میں مبتلا ہوں گے۔ جیسا کہ اصحاب کہف کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے ۔ وہ چند نوجوان اپنےدور کے کفر سے بھاگ کر پہاڑ کے غار میں مقیم ہو گئے تھے۔ چنانچہ آج جوں جوں دجل پھیلے گا ،کفر عام ہو گا۔ ایمان داروں کا شہروں اور انکے محلوں میں رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ اہل ایمان بھاگ کر پہاڑوں میں چلے جائیں گے یا مکہ و مدینہ،شام و عراق و القدس کے متبرک مقامات میں محصور ہوجائیں گے۔
وَكَذَلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلاَ يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا
(سورہ کہف 18 – آیت 19)
اور اسی طرح ہم نے انہیں اٹھا دیا تاکہ وہ آپس میں دریافت کریں، (چنانچہ) ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم (یہاں) ایک دن یا اس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں، (بالآخر) کہنے لگے: تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو، سو تم اپنے میں سے کسی ایک کو اپنا یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو پھر وہ دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ حلال اور پاکیزہ ہے تو اس میں سے کچھ کھانا تمہارے پاس لے آئے اور اسے چاہئے کہ (آنے جانے اور خریدنے میں) آہستگی اور نرمی سے کام لے اور کسی ایک شخص کو (بھی) تمہاری خبر نہ ہونے دے
آخری تدوین: