جاسم محمد
محفلین
سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے سخت قوانین تیار، خلاف ورزی پر بندش
بدھ 12 فروری 2020 20:27
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
وفاقی حکومت نے ٹوئٹر، فیس بک، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور دیگر آن لائن سوشل میڈیا سروسز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ان تمام کمپنیوں کو پاکستان میں رجسٹر ہو کر اپنے دفاتر قائم کرنا ہوں گے اور پاکستان کے سائبر قوانین کے مطابق عمل کرنا ہو گا، بصورت دیگر انہیں بلاک کر دیا جائے گا اور 50 کروڑ روپے تک جرمانہ بھی عائد کیا جا سکے گا۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’آن لائن نقصان سے شہریوں کے بچاؤ کے قواعد‘ کابینہ سے منظور کر لیے گئے ہیں تاہم اس حوالے سے میڈیا کے لیے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی منگل کے کابینہ اجلاس کے بعد دو وفاقی وزرا کی بریفنگ میں اس کا کوئی ذکر تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ قواعد وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، ملکی سلامتی کے اداروں اور وزارت قانون کی مشاورت سے تیار کیے گئے ہیں۔‘
اردو نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات میں بیان کیا گیا ہے کہ ’ ان قواعد کے مطابق آئی ٹی کے وفاقی وزیر ایک انتہائی بااختیار نیشنل کوارڈینیٹر تعینات کریں گے جو فریقین پر مشتمل ایک کمیٹی کے ساتھ مل کر آن لائن کام کرنے والی سروسز اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے معاملات کی نگرانی کرے گا اور اس حوالے سے حکومت اور کمپنیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرے گا۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کی 10 ذمہ داریاں
ان قواعد کے تحت تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کو 10 سے زائد ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔
قواعد کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیاں کسی بھی غیر قانونی مواد کو نیشنل کوارڈینیٹر کی نشاندھی کے بعد 24 گھنٹوں میں بلاک کرنے کی پابند ہوں گی اور اگر ہنگامی صورت حال ہو تو چھ گھنٹے کے اندر اندر ایسا مواد بلاک کرنا ہو گا۔
پاکستان کے قواعد کو سوشل میڈیا کمپنیوں کے اپنے کمیونٹی رولز کے اوپر فوقیت حاصل ہو گی جس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی پوسٹ ٹوئٹر یا فیس بک کے اپنے کمیونٹی سٹینڈرڈ کی خلاف ورزی نہیں بھی کرتی مگر پاکستانی قواعد یا نیشنل کوارڈینیٹر کی ہدایت کے برعکس ہے تو اسے ہٹایا جانا ضروری ہو گا۔
قواعد کے تحت کمپنیوں کو 10 سے زائد ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی (فوٹو: روئٹرز)
سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کی مذہبی، ثقافتی اور قومی سلامتی کی حساسیت کا خیال رکھیں گی۔
سوشل میڈیا کمپنیاں یقینی بنائیں گی کہ پاکستان میں کوئی ایسا مواد لائیو سٹریم پر دستیاب نہ ہو جو کہ پاکستانی قوانین، قواعد اور نینشنل کوارڈینیٹر کی ہدایات کے برعکس ہو، خاص طور پرایسا مواد جو دہشت گردی، انتہا پسندی، جعلی خبروں، ہتک عزت اور قومی سلامتی کے منافی مواد پر مشتمل ہو۔
ہر سوشل میڈیا کمپنی کو ان قواعد کی منظوری کے تین ماہ کے اندر اندر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ساتھ رجسٹر ہونا پڑے گا۔
ہر سوشل میڈیا کمپنی کو اسی مدت میں اسلام آباد میں اپنا دفتر کھولنا ہو گا۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں تین ماہ کے اندر اپنا فوکل پرسن مقرر کرنا ہو گا جو نیشنل کوارڈینیٹر کے ساتھ رابطہ کار کے طور پر کام کرے گا۔
کمپنیوں کو پاکستان کی قومی سلامتی اور اقدار کا خیال رکھنا ہو گا (فوٹو: اے ایف پی)
ہر سوشل میڈیا کمپنی کو ایک سال کے اندر پاکستان میں اپنی ڈیٹا بیس سروس قائم کرنا ہو گی تاکہ پاکستانیوں کا ڈیٹا پاکستان میں ہی رہے۔
ہر سوشل میڈیا کمپنی بیرون ملک مقیم ان پاکستانیوں کے اکاؤنٹس اور ان کا آن لائن مواد بلاک کرنے کی پابند ہو گی جو قومی سلامتی، مذہبی اور ثقافتی حساسیت کے خلاف مواد شیئر کرتے ہوں یا جعلی خبریں پھیلاتے ہوں۔
اگر پاکستانی اتھارٹی کی طرف سے کسی سوشل میڈیا کمپنی کو بتایا جائے گا کہ کوئی آن لائن مواد جعلی ہے تو وہ کمپنی اس مواد جیسا کے تصویر، ویڈیو وغیرہ کے ساتھ یہ نوٹ بھی لگائے گی۔
سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کے تحقیقی اداروں کو مطلوبہ ڈیٹا اور معلومات جو ان کے پاس موجود ہوں گی فراہم کرنے کی پابند ہوں گی۔
نئے قواعد کے تحت اگر سوشل میڈیا کمپنیاں ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کریں گی تو نیشنل کوارڈینیٹر کی ہدایت پر انہیں پاکستان میں مکمل طور پر بلاک بھی کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ اگر کوئی کمپنی ان میں سے کسی بھی ذمہ داری سے کوتاہی برتتی ہے تو نیشنل کوارڈینیٹر اس پر 50 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کر سکے گا۔
حکام وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق یہ قواعد لاگو ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک سوشل میڈیا کمپنیوں کے ردعمل کا انتظار ہے۔ ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ’ ضروری نہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستانی قواعد کے ساتھ اتفاق کریں کیونکہ کئی ممالک میں ٹوئٹر، یوٹیوب اور فیس بک نے مقامی حکومتوں کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کی مزاحمت بھی کی ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ پاکستان میں چونکہ سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی قواعد موجود نہ تھے اس لیے یہ بہت ضروری تھا کہ اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دی جاتی اور ناقص ہی سہی کچھ قواعد بنا لیے جاتے۔‘
بدھ 12 فروری 2020 20:27
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
وفاقی حکومت نے ٹوئٹر، فیس بک، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور دیگر آن لائن سوشل میڈیا سروسز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ان تمام کمپنیوں کو پاکستان میں رجسٹر ہو کر اپنے دفاتر قائم کرنا ہوں گے اور پاکستان کے سائبر قوانین کے مطابق عمل کرنا ہو گا، بصورت دیگر انہیں بلاک کر دیا جائے گا اور 50 کروڑ روپے تک جرمانہ بھی عائد کیا جا سکے گا۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’آن لائن نقصان سے شہریوں کے بچاؤ کے قواعد‘ کابینہ سے منظور کر لیے گئے ہیں تاہم اس حوالے سے میڈیا کے لیے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی منگل کے کابینہ اجلاس کے بعد دو وفاقی وزرا کی بریفنگ میں اس کا کوئی ذکر تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ قواعد وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، ملکی سلامتی کے اداروں اور وزارت قانون کی مشاورت سے تیار کیے گئے ہیں۔‘
اردو نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات میں بیان کیا گیا ہے کہ ’ ان قواعد کے مطابق آئی ٹی کے وفاقی وزیر ایک انتہائی بااختیار نیشنل کوارڈینیٹر تعینات کریں گے جو فریقین پر مشتمل ایک کمیٹی کے ساتھ مل کر آن لائن کام کرنے والی سروسز اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے معاملات کی نگرانی کرے گا اور اس حوالے سے حکومت اور کمپنیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرے گا۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کی 10 ذمہ داریاں
ان قواعد کے تحت تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کو 10 سے زائد ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔
قواعد کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیاں کسی بھی غیر قانونی مواد کو نیشنل کوارڈینیٹر کی نشاندھی کے بعد 24 گھنٹوں میں بلاک کرنے کی پابند ہوں گی اور اگر ہنگامی صورت حال ہو تو چھ گھنٹے کے اندر اندر ایسا مواد بلاک کرنا ہو گا۔
پاکستان کے قواعد کو سوشل میڈیا کمپنیوں کے اپنے کمیونٹی رولز کے اوپر فوقیت حاصل ہو گی جس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی پوسٹ ٹوئٹر یا فیس بک کے اپنے کمیونٹی سٹینڈرڈ کی خلاف ورزی نہیں بھی کرتی مگر پاکستانی قواعد یا نیشنل کوارڈینیٹر کی ہدایت کے برعکس ہے تو اسے ہٹایا جانا ضروری ہو گا۔
قواعد کے تحت کمپنیوں کو 10 سے زائد ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی (فوٹو: روئٹرز)
سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کی مذہبی، ثقافتی اور قومی سلامتی کی حساسیت کا خیال رکھیں گی۔
سوشل میڈیا کمپنیاں یقینی بنائیں گی کہ پاکستان میں کوئی ایسا مواد لائیو سٹریم پر دستیاب نہ ہو جو کہ پاکستانی قوانین، قواعد اور نینشنل کوارڈینیٹر کی ہدایات کے برعکس ہو، خاص طور پرایسا مواد جو دہشت گردی، انتہا پسندی، جعلی خبروں، ہتک عزت اور قومی سلامتی کے منافی مواد پر مشتمل ہو۔
ہر سوشل میڈیا کمپنی کو ان قواعد کی منظوری کے تین ماہ کے اندر اندر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ساتھ رجسٹر ہونا پڑے گا۔
ہر سوشل میڈیا کمپنی کو اسی مدت میں اسلام آباد میں اپنا دفتر کھولنا ہو گا۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں تین ماہ کے اندر اپنا فوکل پرسن مقرر کرنا ہو گا جو نیشنل کوارڈینیٹر کے ساتھ رابطہ کار کے طور پر کام کرے گا۔
کمپنیوں کو پاکستان کی قومی سلامتی اور اقدار کا خیال رکھنا ہو گا (فوٹو: اے ایف پی)
ہر سوشل میڈیا کمپنی کو ایک سال کے اندر پاکستان میں اپنی ڈیٹا بیس سروس قائم کرنا ہو گی تاکہ پاکستانیوں کا ڈیٹا پاکستان میں ہی رہے۔
ہر سوشل میڈیا کمپنی بیرون ملک مقیم ان پاکستانیوں کے اکاؤنٹس اور ان کا آن لائن مواد بلاک کرنے کی پابند ہو گی جو قومی سلامتی، مذہبی اور ثقافتی حساسیت کے خلاف مواد شیئر کرتے ہوں یا جعلی خبریں پھیلاتے ہوں۔
اگر پاکستانی اتھارٹی کی طرف سے کسی سوشل میڈیا کمپنی کو بتایا جائے گا کہ کوئی آن لائن مواد جعلی ہے تو وہ کمپنی اس مواد جیسا کے تصویر، ویڈیو وغیرہ کے ساتھ یہ نوٹ بھی لگائے گی۔
سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کے تحقیقی اداروں کو مطلوبہ ڈیٹا اور معلومات جو ان کے پاس موجود ہوں گی فراہم کرنے کی پابند ہوں گی۔
نئے قواعد کے تحت اگر سوشل میڈیا کمپنیاں ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کریں گی تو نیشنل کوارڈینیٹر کی ہدایت پر انہیں پاکستان میں مکمل طور پر بلاک بھی کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ اگر کوئی کمپنی ان میں سے کسی بھی ذمہ داری سے کوتاہی برتتی ہے تو نیشنل کوارڈینیٹر اس پر 50 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کر سکے گا۔
حکام وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق یہ قواعد لاگو ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک سوشل میڈیا کمپنیوں کے ردعمل کا انتظار ہے۔ ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ’ ضروری نہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستانی قواعد کے ساتھ اتفاق کریں کیونکہ کئی ممالک میں ٹوئٹر، یوٹیوب اور فیس بک نے مقامی حکومتوں کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کی مزاحمت بھی کی ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ پاکستان میں چونکہ سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی قواعد موجود نہ تھے اس لیے یہ بہت ضروری تھا کہ اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دی جاتی اور ناقص ہی سہی کچھ قواعد بنا لیے جاتے۔‘