رحمت اللہ شیخ
محفلین
موجودہ دور میں ملکی و غیر ملکی حالات سے باخبر رہنا اور اپنے خیالات کا اظہار کرنا اتنا مشکل نہیں۔ کیونکہ سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ہمارے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں دو سو کروڑ سے زیادہ لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور 2021 تک یہ تعداد بآسانی تین سو کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔
سوشل میڈیا معلومات حاصل کرنے کا ایک قیمتی ذریعہ ہے۔ اساتذہ اور شاگردوں کے لیے یہ پلیٹ فورم یکساں مفید ہے۔ دنیا بھر کے حالات سے باخبر رہنا اور ملک سے باہر بیٹھے اپنوں سے بات کرنا پہلے کی طرح اب مشکل نہیں رہا۔ اس کے ذریعے مختلف ملکوں اور قوموں کی تہذیب و ثقافت سے واقفیت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اپنی رائے کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی آواز اعلیٰ عہدیداران تک بھی پہنچائی جاسکتی ہے۔ حال ہی میں عاطف میاں کے مسئلے کو حل کرنے میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ واٹس اپ پر کورسز کا ٹرینڈ نہایت تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا ہے۔جس کے ذریعے آپ نہ صرف گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گھر بیٹھے پیسے بھی کما سکتے ہیں۔ مفتیانِ کرام سے فتویٰ لینے کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بیٹھے ڈاکٹرز کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسکائپ و دیگر وڈیو کال سافٹ ویئرز کی بدولت قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ مختلف کورسز بھی کیے جاسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرتے ہوئے ملک و اسلام دشمنوں کی سازشوں کو روکا جاسکتا ہے۔ ملحدین و دیگر اسلام بیزار لوگوں کے خلاف سوشل میڈیا پر بہترین انداز میں کام ہورہا ہے۔ اسلامی، سیاسی، سماجی و دیگر حلقوں سے تعلق رکھنے والے احباب اپنے نظریات کی بخوبی پرچار کررہے ہیں۔ کاروبار کی تشہیر کرنا، نوکری تلاش کرنا، ادب کو فروغ دینا یا کسی غریب کی مدد کرنا سوشل میڈیا کی بدولت آسان بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا کے نقصانات کی فہرست بنسبت اس کے فوائد کے زیادہ ہے۔ نوجوانوں میں فحاشی و عریانی پھیلانا اسلام دشمن قوتوں کا مقصد ہے۔ ان کے اس مقصد کی تکمیل کے لیے سوشل میڈیا ایک اہم ہتھیار ثابت ہورہا ہے۔ دور بیٹھے احباب سے رابطہ تو آسان بن چکا ہے لیکن قریبی تعلقات دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ بنا سوچے سمجھے تصاویر وغیرہ شیئر کرنے کے کئی نقصانات سامنے آچکے ہیں۔ بے مقصد شہرت اور زیادہ لائیکس حاصل کرنے کے چکر میں اسلامی و اخلاقی اقدار کو روندا جاتا ہے۔ نازیبا تصاویر اور وڈیوز شیئر کرکے کئی گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ بواء فرینڈ اور گرل فرینڈ کلچر بھی سوشل میڈیا کی رہینِ منت ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت خودکشی کو فروغ ملا ہے۔ ایک سروے کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک رپورٹ شیئر کی گئی کہ ہائڈروجن سلفائڈ کے ذریعے بآسانی خودکشی کی جاسکتی ہے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد 220 لوگوں نے اس طریقے سے خود کو مارنے کی کوشش کی جن میں سے 208 کامیاب بھی ہوئے۔
اس کے علاوہ جھوٹی خبروں کی تشہیر ، دھوکا دہی ، جعلی اکاؤنٹس، ہیکنگ اور بلیک میلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات میں سوشل میڈیا کا بنیادی کردار ہے۔ عصر حاضر کے اکثر نوجوانوں کا کاہل، سست، تن آسان اور ذہنی و فکری طور پر پست ہونا سوشل میڈیا کے نشے کی وجہ سے ہے۔ دراصل سوشل میڈیا خود ایک اچھا یا برا پلیٹ فارم نہیں ہے۔ بلکہ یہ استعمال کرنے والوں کے اوپر ہے کہ وہ اس کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور جیسی عظیم نعمت صحیح اور غلط میں فرق کرنے کے لیے دی ہے۔ سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے فتنوں کو ہم سوشل میڈیا ہی کے ذریعے روک سکتے ہیں اگر ہم اس کا مثبت استعمال کریں۔
سوشل میڈیا معلومات حاصل کرنے کا ایک قیمتی ذریعہ ہے۔ اساتذہ اور شاگردوں کے لیے یہ پلیٹ فورم یکساں مفید ہے۔ دنیا بھر کے حالات سے باخبر رہنا اور ملک سے باہر بیٹھے اپنوں سے بات کرنا پہلے کی طرح اب مشکل نہیں رہا۔ اس کے ذریعے مختلف ملکوں اور قوموں کی تہذیب و ثقافت سے واقفیت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اپنی رائے کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی آواز اعلیٰ عہدیداران تک بھی پہنچائی جاسکتی ہے۔ حال ہی میں عاطف میاں کے مسئلے کو حل کرنے میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ واٹس اپ پر کورسز کا ٹرینڈ نہایت تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا ہے۔جس کے ذریعے آپ نہ صرف گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گھر بیٹھے پیسے بھی کما سکتے ہیں۔ مفتیانِ کرام سے فتویٰ لینے کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بیٹھے ڈاکٹرز کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسکائپ و دیگر وڈیو کال سافٹ ویئرز کی بدولت قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ مختلف کورسز بھی کیے جاسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرتے ہوئے ملک و اسلام دشمنوں کی سازشوں کو روکا جاسکتا ہے۔ ملحدین و دیگر اسلام بیزار لوگوں کے خلاف سوشل میڈیا پر بہترین انداز میں کام ہورہا ہے۔ اسلامی، سیاسی، سماجی و دیگر حلقوں سے تعلق رکھنے والے احباب اپنے نظریات کی بخوبی پرچار کررہے ہیں۔ کاروبار کی تشہیر کرنا، نوکری تلاش کرنا، ادب کو فروغ دینا یا کسی غریب کی مدد کرنا سوشل میڈیا کی بدولت آسان بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا کے نقصانات کی فہرست بنسبت اس کے فوائد کے زیادہ ہے۔ نوجوانوں میں فحاشی و عریانی پھیلانا اسلام دشمن قوتوں کا مقصد ہے۔ ان کے اس مقصد کی تکمیل کے لیے سوشل میڈیا ایک اہم ہتھیار ثابت ہورہا ہے۔ دور بیٹھے احباب سے رابطہ تو آسان بن چکا ہے لیکن قریبی تعلقات دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ بنا سوچے سمجھے تصاویر وغیرہ شیئر کرنے کے کئی نقصانات سامنے آچکے ہیں۔ بے مقصد شہرت اور زیادہ لائیکس حاصل کرنے کے چکر میں اسلامی و اخلاقی اقدار کو روندا جاتا ہے۔ نازیبا تصاویر اور وڈیوز شیئر کرکے کئی گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ بواء فرینڈ اور گرل فرینڈ کلچر بھی سوشل میڈیا کی رہینِ منت ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت خودکشی کو فروغ ملا ہے۔ ایک سروے کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک رپورٹ شیئر کی گئی کہ ہائڈروجن سلفائڈ کے ذریعے بآسانی خودکشی کی جاسکتی ہے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد 220 لوگوں نے اس طریقے سے خود کو مارنے کی کوشش کی جن میں سے 208 کامیاب بھی ہوئے۔
اس کے علاوہ جھوٹی خبروں کی تشہیر ، دھوکا دہی ، جعلی اکاؤنٹس، ہیکنگ اور بلیک میلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات میں سوشل میڈیا کا بنیادی کردار ہے۔ عصر حاضر کے اکثر نوجوانوں کا کاہل، سست، تن آسان اور ذہنی و فکری طور پر پست ہونا سوشل میڈیا کے نشے کی وجہ سے ہے۔ دراصل سوشل میڈیا خود ایک اچھا یا برا پلیٹ فارم نہیں ہے۔ بلکہ یہ استعمال کرنے والوں کے اوپر ہے کہ وہ اس کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور جیسی عظیم نعمت صحیح اور غلط میں فرق کرنے کے لیے دی ہے۔ سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے فتنوں کو ہم سوشل میڈیا ہی کے ذریعے روک سکتے ہیں اگر ہم اس کا مثبت استعمال کریں۔