سید عمران
محفلین
سوشل میڈیا کی تخریب کاریاں محض گنی چنی برائیوں تک محدود نہیں ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا اثر صرف انفرادی طور پر پڑ رہا ہے مثلاً ہمارے بچے پڑھائی پر دھیان نہیں دے رہے ہیں، امتحانات میں ان کے نتائج اچھے نہیں آرہے ہیں، ان کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، لڑکیاں غیر مردوں سے دوستیاں لگا کر گھروں سے بھاگ رہی ہیں، جنسی جرائم عام ہورہے ہیں، بچوں اور نوجوانوں کی بڑوں سے بدتمیزی جیسی اب دیکھنے میں آرہی ہے پہلے اس کا تصور ہی نہ تھا، ماں باپ کو مارا جارہا ہے، خواتین میں عریاں لباس عام ہورہے ہیں، اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پھیل رہے ہیں، الحاد کا فروغ ہورہا ہے، لوگ چوری ڈاکے اور دیگر جرائم کے نت نئے طریقے سیکھ رہے ہیں۔ غرض سوشل میڈیا کے فوائد کم ہیں اور مفاسد بے انتہا۔
اگرچہ مندرجہ بالا مفاسد کی شرح اور شدت بھی کم ہولناک نہیں ، مگر بات اب اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ سوشل میڈیا انفرادی ذہن سازی کی بہت سی بنیادوں پر کام کر رہا ہے۔ اس میں سب سے بڑا ذریعہ ہر شخص کے بارے میں مکمل تفصیلات حاصل کرنا ہے۔کس ملک کا شہری کس بات پر خوش ہوتا ہے، کس بات پر بھڑک جاتا ہے، کیا چیز پسند کرتا ہے اور کون سے چیز ناپسند کرتا ہے، کہاں آنا جانا چاہتا ہے اور کہاں نہیں۔ اس انفرادی کیس ہسٹری سے کسی قوم کا عمومی مزاج پتا چل جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف فردِ واحد بلکہ پوری قوم کی ذہن سازی کے مراحل آسان ہوگئے ہیں۔ کس کو کب اور کتنے میں خریدا جاسکتا ہے یا غیر محسوس طور پر اپنے استعمال میں لایا جاسکتا ہے اس پر عمل اب چنداں دشوار نہ رہا۔
اب انٹر نیٹ کی دنیا میں انسان کی خلوت اور جلوت کا فرق ختم ہوگیا ہے اور آن لائن پرائیویسی نام کی کوئی چیز موجود نہیں رہی۔سوشل نیٹ ورک کمپنیاں اپنی سائٹس پر موجود عوام کی ذاتی معلومات، پیغامات، تصاویر وغیرہ کا تجارتی استعمال کرتی ہیں۔یہ کمپنیاں اپنے گاہکوں (consumers) کی پسند و ناپسند کا اندازہ ان کے فیس بک اکاؤنٹس سے لگالیتی ہیں۔نوکری کے لیے درخواست دینے والے افرادکی آن لائن مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور ان کے تمام مشاغل کے بارے میں معلومات حاصل کرلی جاتی ہیں۔ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان سب میں اخلاقی حدود کو پامال کیا جاتا ہے۔
اس پر مستزاد اس کام میں جتے ماہرین کی نت نئے علوم پر ریسرچ اور ان کو اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کے طریقوں نے کسی بھی ملک کی عوام کو کٹھ پتلی بنانے کا ہنر ہاتھ لگا دیا ہے۔ مثلاً subliminal messages کی تکنیک کو میک ڈونلڈ نے اپنے ایک اشتہار میں استعمال کیا۔ اس اشتہار میں دماغ کے شعور اور لاشعور کی کارکردگی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرکے عوام کو غیر شعوری طور پر اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے پر آمادہ کیا گیا۔ یہ عمل اس لیے متنازع بن گیا کہ عوام کو کسی بھی طریقے سے خواہ وہ نفسیاتی و غیر شعوری ہی کیوں نہ زبردستی اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے پر نہیں اکسانا چاہیے بلکہ یہ بات ان کی مرضی پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ اپنی پسند سے کیا خریدنا چاہتے ہیں اور کیا نہیں۔
یہ اور اس جیسی کتنی تکنیکیں سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کے لیے استعمال ہورہی ہیں جن کا عوام تو کیا خواص کو بھی علم نہیں۔ لرزہ خیز حقیقت یہ ہے کہ اپنے ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کے ملک تباہ کیے جاتے ہیں، اپنی ناپسندیدہ حکومتوں کو گرایا جاتا ہے، ان ممالک کے عوام میں بغاوت و شورش اور اپنی حکومتوں کے خلاف جذبات کو ہوا دے کر انارکی کی صورت حال پیدا کی جاتی ہے اور اس آگ کو یہاں تک بھڑکایا جاتا ہے جب تک اپنے مقاصد حاصل نہ کرلیے جائیں۔ اس کی مثال شام، یمن، مصر، تیونس اور لیبیا ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں عوام کی اس قدر ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ لاشعوری طور پر ان کی پسند کے مطابق ووٹ کاسٹ کردیتے ہیں۔
اس کی ایک مثال امریکہ کے انتخابات تھے جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کو منتخب کروایا گیا۔ یہ فیس بک کی تاریخ کا بدترین اسکینڈل تھا۔ اس اسکینڈل کے ذریعے لوگوں تک یہ بات پہنچی کہ سماجی رابطوں کی اس ویب سائٹ نے کس طرح اپنے صارفین کے قیمتی ڈیٹا کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت میں استعمال ہونے دیا۔ جس پر کمپنی کو نہ صرف امریکہ میں بلکہ دنیا بھر شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اُس کے صارفین نے اس پر اعتماد کرنا بھی کم کر دیا۔جس کے باعث فیس بک کو زبردست خسارہ برداشت کرنا پڑا اور اس کے شیئرز کی قیمتیں بھی گر گئیں۔ یہ معاملہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کو عوام سے باقاعدہ معافی مانگنا پڑی۔
’’فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے ڈیٹا اسکینڈل کے حوالے سے امریکی کانگریس کے سوالات کے جوابات دئیے اور فیس بک کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے نظام کو بہتر بنانے کی یقین دہانی بھی کرائی ہیں۔زکر برگ نے تسلیم کیا کہ سماجی رابطوں کی اس ویب سائٹ نے اپنے صارفین کے کوائف کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے تھے اور وہ اس کوتاہی کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔گزشتہ چودہ برسوں کے دوران نجی معلومات کے افشا ہونے کے حوالے سے فیس بک کے لیے یہ سب سے بڑا تنارعہ ہے۔
خفیہ ذرائع نے اس راز سے پردہ اٹھایا تھا کہ برطانیہ کی ایک مشاورتی کمپنی کیمبرج انالیٹیکا نے فیس بک کے لاکھوں صارفین کے کوائف کا غیر استعمال کرتے ہوئے امریکی صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ چوری ہونے والے زیادہ تر کوائف امریکی شہریوں کے تھے۔ بعد ازاں فیس بک نے تسلیم کیا کہ 87 ملین صارفین کے نجی کوائف کا غیر قانونی استعمال ہوا ہے۔ تاہم کیمبرج انالیٹیکا کے مطابق وہ کسی بھی غیر قانونی کارروائی میں ملوث نہیں۔‘‘
ربط
(جاری ہے)
اگرچہ مندرجہ بالا مفاسد کی شرح اور شدت بھی کم ہولناک نہیں ، مگر بات اب اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ سوشل میڈیا انفرادی ذہن سازی کی بہت سی بنیادوں پر کام کر رہا ہے۔ اس میں سب سے بڑا ذریعہ ہر شخص کے بارے میں مکمل تفصیلات حاصل کرنا ہے۔کس ملک کا شہری کس بات پر خوش ہوتا ہے، کس بات پر بھڑک جاتا ہے، کیا چیز پسند کرتا ہے اور کون سے چیز ناپسند کرتا ہے، کہاں آنا جانا چاہتا ہے اور کہاں نہیں۔ اس انفرادی کیس ہسٹری سے کسی قوم کا عمومی مزاج پتا چل جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف فردِ واحد بلکہ پوری قوم کی ذہن سازی کے مراحل آسان ہوگئے ہیں۔ کس کو کب اور کتنے میں خریدا جاسکتا ہے یا غیر محسوس طور پر اپنے استعمال میں لایا جاسکتا ہے اس پر عمل اب چنداں دشوار نہ رہا۔
اب انٹر نیٹ کی دنیا میں انسان کی خلوت اور جلوت کا فرق ختم ہوگیا ہے اور آن لائن پرائیویسی نام کی کوئی چیز موجود نہیں رہی۔سوشل نیٹ ورک کمپنیاں اپنی سائٹس پر موجود عوام کی ذاتی معلومات، پیغامات، تصاویر وغیرہ کا تجارتی استعمال کرتی ہیں۔یہ کمپنیاں اپنے گاہکوں (consumers) کی پسند و ناپسند کا اندازہ ان کے فیس بک اکاؤنٹس سے لگالیتی ہیں۔نوکری کے لیے درخواست دینے والے افرادکی آن لائن مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور ان کے تمام مشاغل کے بارے میں معلومات حاصل کرلی جاتی ہیں۔ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان سب میں اخلاقی حدود کو پامال کیا جاتا ہے۔
اس پر مستزاد اس کام میں جتے ماہرین کی نت نئے علوم پر ریسرچ اور ان کو اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کے طریقوں نے کسی بھی ملک کی عوام کو کٹھ پتلی بنانے کا ہنر ہاتھ لگا دیا ہے۔ مثلاً subliminal messages کی تکنیک کو میک ڈونلڈ نے اپنے ایک اشتہار میں استعمال کیا۔ اس اشتہار میں دماغ کے شعور اور لاشعور کی کارکردگی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرکے عوام کو غیر شعوری طور پر اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے پر آمادہ کیا گیا۔ یہ عمل اس لیے متنازع بن گیا کہ عوام کو کسی بھی طریقے سے خواہ وہ نفسیاتی و غیر شعوری ہی کیوں نہ زبردستی اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے پر نہیں اکسانا چاہیے بلکہ یہ بات ان کی مرضی پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ اپنی پسند سے کیا خریدنا چاہتے ہیں اور کیا نہیں۔
یہ اور اس جیسی کتنی تکنیکیں سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کے لیے استعمال ہورہی ہیں جن کا عوام تو کیا خواص کو بھی علم نہیں۔ لرزہ خیز حقیقت یہ ہے کہ اپنے ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کے ملک تباہ کیے جاتے ہیں، اپنی ناپسندیدہ حکومتوں کو گرایا جاتا ہے، ان ممالک کے عوام میں بغاوت و شورش اور اپنی حکومتوں کے خلاف جذبات کو ہوا دے کر انارکی کی صورت حال پیدا کی جاتی ہے اور اس آگ کو یہاں تک بھڑکایا جاتا ہے جب تک اپنے مقاصد حاصل نہ کرلیے جائیں۔ اس کی مثال شام، یمن، مصر، تیونس اور لیبیا ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں عوام کی اس قدر ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ لاشعوری طور پر ان کی پسند کے مطابق ووٹ کاسٹ کردیتے ہیں۔
اس کی ایک مثال امریکہ کے انتخابات تھے جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کو منتخب کروایا گیا۔ یہ فیس بک کی تاریخ کا بدترین اسکینڈل تھا۔ اس اسکینڈل کے ذریعے لوگوں تک یہ بات پہنچی کہ سماجی رابطوں کی اس ویب سائٹ نے کس طرح اپنے صارفین کے قیمتی ڈیٹا کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت میں استعمال ہونے دیا۔ جس پر کمپنی کو نہ صرف امریکہ میں بلکہ دنیا بھر شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اُس کے صارفین نے اس پر اعتماد کرنا بھی کم کر دیا۔جس کے باعث فیس بک کو زبردست خسارہ برداشت کرنا پڑا اور اس کے شیئرز کی قیمتیں بھی گر گئیں۔ یہ معاملہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کو عوام سے باقاعدہ معافی مانگنا پڑی۔
’’فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے ڈیٹا اسکینڈل کے حوالے سے امریکی کانگریس کے سوالات کے جوابات دئیے اور فیس بک کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے نظام کو بہتر بنانے کی یقین دہانی بھی کرائی ہیں۔زکر برگ نے تسلیم کیا کہ سماجی رابطوں کی اس ویب سائٹ نے اپنے صارفین کے کوائف کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے تھے اور وہ اس کوتاہی کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔گزشتہ چودہ برسوں کے دوران نجی معلومات کے افشا ہونے کے حوالے سے فیس بک کے لیے یہ سب سے بڑا تنارعہ ہے۔
خفیہ ذرائع نے اس راز سے پردہ اٹھایا تھا کہ برطانیہ کی ایک مشاورتی کمپنی کیمبرج انالیٹیکا نے فیس بک کے لاکھوں صارفین کے کوائف کا غیر استعمال کرتے ہوئے امریکی صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ چوری ہونے والے زیادہ تر کوائف امریکی شہریوں کے تھے۔ بعد ازاں فیس بک نے تسلیم کیا کہ 87 ملین صارفین کے نجی کوائف کا غیر قانونی استعمال ہوا ہے۔ تاہم کیمبرج انالیٹیکا کے مطابق وہ کسی بھی غیر قانونی کارروائی میں ملوث نہیں۔‘‘
ربط
(جاری ہے)