arifkarim
معطل
سونڈا: صدیوں کی داستانیں کہتا قبرستان
ابوبکر شیخ
جب ہم گزرے وقت کا ذکر کرتے ہیں تو ہم پر ایک عجیب سی کیفیت کی چادر تن جاتی ہے، اور ماضی کا تصور جتنا قدیم ہوتا جاتا ہے ایک دھند چھانے لگتی ہے۔ اس دھند میں ایک سحر پوشیدہ ہوتا ہے جو آپ کو ماضی کے ان دنوں میں لے جاتا ہے، جو ہم نے کبھی نہیں دیکھے، بس کتابوں کے اوراق پر جمے الفاظ ہمیں سناتے ہیں اور ہم ذہن میں ان دنوں کو بننے لگ پڑتے ہیں۔
تھوڑا تصور کریں جب رچرڈ برٹن سخت سردیوں کے موسم میں اس علاقے "سونڈا" سے گزرا تھا، تب شب و روز کیسے ہوں گے؟ وہ تحریر کرتا ہے کہ: "ہم صبح سے تین بار راستہ بھول چکے ہیں۔ سخت سردی ہے اور ہم پہاڑیوں سے اترتے ہیں تو زرخیز زمین آجاتی ہے۔ چار سو خاموشی ہے اور بس مختلف پرندوں کی بولیاں سن رہے ہیں۔ کہیں کہیں گندم کے کھیت بھی نظر آتے ہیں۔"
لیکن اب اس علاقے میں کوئی خاموشی نہیں ہے۔ راستے ہیں کہ آتی جاتی گاڑیوں کے شور سے بھرے پڑے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ 'تحفتہ الکرام' کے مصنف کی بات میں کتنی صداقت ہے کہ اس شہر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس خطے میں ایک کامل بزرگ رہتے تھے جو 'سر سونڈر' کے راگ کو بے حد پسند کرتے تھے اور خوش ہوکر حاجت مندوں کی مرادیں پوری کیا کرتے تھے۔ چنانچہ عام لوگوں کی زبان پر یہ خطہ اسی راگ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ جب جام تماچی نے اس شہر کی بنیاد رکھی تو اس نے بھی اس کا یہ ہی نام رکھا۔
سونڈہ کا تاریخی قبرستان.
قبرستان اب زبوں حالی کا شکار ہے.
طغی، جو ایک موچی اور غلام تھا، ترقی کرتا اچھے عہدوں پر پہنچ گیا۔ اور جب اسے ذمہ داری دے کر 1347 میں گجرات بھیجا گیا تو اس نے وہاں قتلغ خان سے مل کر اپنے محسن محمد تغلق سے بغاوت کر دی، مگر 'کاڈی' کی جنگ ہار کر 'کچھ' کی طرف بھاگ گیا، جہاں 'سمہ جاڑیجوں' کا راج تھا اور ان کے سندھ کے سومروں اور سموں سے اچھے تعلقات تھے، جس کی وجہ سے طغی کو ٹھٹھہ پہنچانے کے لیے کچھ کے 'جاڑیجوں' نے مدد کی۔
محمد تغلق طغی کو سبق سکھانے اور ٹھٹھہ پر حملہ کرنے کے جنون میں سونڈا آکر پہنچا۔ بارشوں کا موسم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مچھلی کھانے کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور 20 مارچ 1350 میں اس کا انتقال ہوگیا، جس کے ساتھ ہی سومرا سرداروں کا زمانہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔
ہر دور کی اپنی خوبصورتیاں اور بدصورتیاں ہوتی ہیں، کچھ زمانوں کی جھولیوں میں مثبت عملوں کے پھول زیادہ ہوتے ہیں اور کچھ زمانوں کی جھولیوں میں کانٹے بہت ہوتے ہیں۔ ہم اگر تعمیر کے حوالے سے ایک سرسری جائزہ لیں تو موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے لے کر بارہویں صدی کی آخر تک فن تعمیر کی تقریباً پانچ ہزار برس کی شاندار تاریخ موجود ہے۔ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ آریوں کے آنے کے بعد فنِ تعمیر ایک جمود کا شکار ہوئی اس کے اسباب یہ تھے کہ آریہ مقامی لوگوں سے زیادہ تیز مزاج، مسلح اور جھگڑالو تھے۔
تیرہ سو سے پانچ سو قبلِ مسیح تک مٹی سے بنی اینٹوں اور لکڑیوں سے عمارتیں تعمیر ہوتی رہیں، گھر اور عبادت گاہیں بنتی رہیں، مگر اب ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ اشوک کے زمانے میں فن تعمیر کو ایک نیا راستہ ملا۔ پہلے جو عمارت سازی تھی، وہ سادہ تھی مگر اس زمانے میں باریک اور نفیس پھول اور بوٹوں کی سنگ تراشی کا فن اپنے کمال کو پہنچا۔
ڈاکٹر احمد حسن دانی لکھتے ہیں: "سندھ، ہندوستان کا وہ حصہ رہی جہاں انسانی تہذیب نے سب سے پہلے آنکھ کھولی، جیسا کہ سندھ میں بدھ مت، جین مت اور برہمنوں کے اثرات موجود تھے، اس لیے ان سب کا اثر اسلامی فن تعمیر پر بھی ہوا۔ اگر ہم مسجدوں کی تعمیر کو دیکھیں تو ترکی، ایران، مصر اور ہند کی تعمیر کا اثر ہمیں نظر آئے گا۔''
ٹھٹھہ سے حیدرآباد جانے والے راستے پر 35 کلومیٹر کا سفر کر کے میں اس پہاڑی پر پہنچا جس کے جنوب میں سونڈا کا چھوٹا سا شہر اور پہاڑی کے مغرب میں سونڈا کے نام سے پکارے جانے والا وہ وسیع قبرستان پھیلا ہوا تھا۔ ہزاروں قبریں ہیں جو پیلے رنگ میں ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ تیز دھوپ ہو، بارشیں ہوں یا ٹھنڈی چاندنی کی راتیں یہ قبریں صدیوں سے آنکھیں موندے یہیں پڑی ہیں۔ اور ان قبروں پر سنگ تراشی کا نازک و نفیس اپنی خوبصورتی اور نزاکت میں لاجواب ہے۔ قبروں پر پیلے پتھر کی سلوں پر جنگ کے مناظر کندہ ہیں۔
جنگ میں مارے جانے والوں کی قبروں کی نشاندہی کے لیے پتھروں کے ستون گاڑے گئے ہیں.
ایک قبر پر جنگ کا منظر کندہ کیا گیا ہے.
ایک قبر پر جنگ کا منظر کندہ کیا گیا ہے.
قبرستان کی زیادہ تر قبریں زبوں حالی کا شکار ہیں.
قبرستان کی زیادہ تر قبریں زبوں حالی کا شکار ہیں.
ہر قبر اپنی کہانی خود سناتی ہے، بس آپ کے پاس دل سے سننے والے کان اور آنکھیں ہونی چاہیئں جو صدیوں کے آرپار دیکھ سکیں۔ قبر کی سنگ تراشی آپ کو بتا دے گی کہ یہ قبر کسی سردار کی ہے، کسی عورت کی ہے یا کسی جنگجو کی۔ ڈاکٹر غلام علی الانا اس سلسلے میں تحریر کرتے ہیں کہ "قبرستان میں پتھر کی بنی ہوئی کچھ قبروں کے دائیں طرف نچلی طرف گھڑ سوار کی تصویریں بھی تراشی گئی ہیں، جن کے ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں نیزہ ہے۔ کچھ قبروں پر دستار کی شبیہ تراشی گئی ہے جن کے متعلق کارٹر کا خیال ہے کہ یہ سرداروں کے قبروں کی نشانیاں ہیں۔ عورتوں کی قبروں کی پہچان کے لیے تاڑ کی ڈالیوں کی شکلیں تراشی گئی ہیں۔ وہ قبریں جن پر سات فٹ اونچے پتھر کے ستون گاڑے گئے ہیں، وہ قبریں جنگ میں مارے جانے والوں کی ہیں۔"
سردار، جنگجو اور عورتوں کی قبریں.
جنگجو اور عورت کی قبریں.
جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی نشاندہی کے لیے پتھر کے ستون گاڑے گئے ہیں.
جنگ میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی قبر.
سندھ اور بلوچستان میں اس طرز کے سینکڑوں قبرستان ہیں۔ سلمان رشید ان قبرستانوں کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ "ہم اگر سرسری طور پر ایک اندازہ لگائیں تو سندھ اور بلوچستان میں مکلی، سونڈا، جھرک، راج ملک، شاہ کپور، چوکنڈی، میمن گوٹھ، تونگ جیسے ایک سو سے بھی زائد قبرستان ہیں۔" تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ، کلمتی، جوکھیا اور نومڑیا (برفت)، مغلوں کے زمانے میں طاقتور قبیلے تھے۔ ان قبیلوں کا ذکر ہمیں سمہ دور میں بھی ملتا ہے۔ یہ اکثر مغلوں سے لڑتے اور گزرتے ہوئے تجارتی قافلوں پر حملے کرتے۔ اگر کلہوڑا دور پر نظر ڈالی جائے تو گبول، لاشاری، پنھور، جاکھرا بھی ان کے مددگار رہے۔ ان قبیلوں کی یادگار قبریں اور قبرستان ہیں جو اس حوالے سے ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
سارے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ فن تعمیر سمہ دور میں یہاں آیا اور اس فن تعمیر پر گجرات کی عمارت سازی کا مکمل اثر تھا۔ سندھ میں سمہ دور فن تعمیر کے لیے ایک انتہائی شاندار دور ثابت ہوا۔ مکلی اور ٹھٹھہ میں زیادہ تر تعمیرات اس دور کی یادگار ہیں۔
سترہویں صدی میں قبرستانوں پر سنگ تراشی کا یہ فن بڑی تیزی سے پھلا پھولا۔ پتھروں کے تختوں پر گھڑ سواروں اور دوسری چیزوں کی تصویریں بننا شروع ہوئی۔ سمہ سردار اس فن کو گجرات سے لائے، ارغونوں، ترخانوں اور بلوچ سرداروں نے اس فن کو عروج پر پہنچایا مگر پھر وہ ہی ہوا جو ہر کمال کے ساتھ ہوتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں یہ فن اپنے کمال کے زوال کی آخری سانسیں لینے لگا۔ اسباب بہت ہوسکتے ہیں مگر حرفِ آخر یہ کہ اس فن پر زوال کی شام آگئی۔
سونڈا کے اس قدیمی قبرستان کے حوالے سے ٹھٹھہ کے آرکیالاجی کے ماہر اور محقق ڈاکٹر محمد علی مانجھی سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ: "اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک قدیمی قبرستان ہے۔ سمہ دور کا جب ہم کہتے ہیں تو یقیناً یہ صدیوں پرانا قبرستان ہے جہاں سنگ تراشی کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ مگر ایک بات ضرور ذہن میں رکھںی چاہیے کہ یہ کسی ایک مخصوص ذات یا قبیلے کا قبرستان نہیں ہے۔ یہاں اردگرد جو قومیں اور قبیلے آباد ہیں ان سب کی قبریں یہاں ہیں۔ یہاں جنگوں میں شہید ہونے والے مرد اور عورتوں کی قبریں ہیں، سرداروں کی قبریں ہیں اور عام لوگوں کی بھی قبریں ہیں۔"
میں نے جب قبرستان کی خستہ اور ناگفتہ حالت کے متعلق ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تو جواب آیا: "بہت پہلے یہاں چوکیدار تھا مگر اب شاید دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اب یہ قومی شاہراہ پر ایک قدیم آرکیالاجی سائیٹ ہے مگر جو حالت ہے وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔ بس کیا کیا جائے۔" ایک بے بسی اور دکھ تھا جو ڈاکٹر صاحب کے جواب میں تھا۔
میں نے اپنی زندگی کے جتنے بھی دن، صبحیں اور شامیں ان قبرستانوں، مقبروں اور قلعوں میں گذاری ہیں، چاہے وہ سخت سردیاں ہوں یا جون جولائی کی چلچلاتی دھوپ، میں جب بھی یہاں آیا، خود کو ایک عجیب سے سحر میں جکڑا ہوا محسوس کیا۔ میں سوچتا ہوں کہ آج سے صدیوں پہلے جب یہ منظر تراشے گئے ہوں گے، تب وہ پل کیسے ہوں گے؟ سردی کا موسم ہوگا یا گرمی کا؟ وہ سنگ تراش جب یہ تراش رہا ہوگا تو اس کے چہرے کی کیفیت کیسی ہوگی؟ چار سو دور دور تک وہ کیا دیکھتا ہوگا؟ ان لمحوں میں کون سے پرندے بولتے ہوں گے؟ یا اس وقت کون سی سیاسی شورشوں کی باتیں شہر کی گلیوں میں گردش کرتی ہوں گی؟
یہ فقط قبرستان، مقبرے یا قلعے نہیں ہیں بلکہ ان میں صدیوں کے موسم اور لمحے قید ہیں۔ اور ان میں ایک سحر چھپا ہوا ہے جو آپ کو بار بار بلاتا ہے اور آپ اس سحر میں جکڑے پھر ان قبرستانوں اور مقبروں پر چلے جاتے ہیں۔ اور یہ سحر ہمارا ماضی ہے جو ہم کو نظر نہ بھی آئے مگر اس سے ہمارا ایک رشتہ ہے جس کو ہم اپنے آپ سے الگ نہیں کرسکتے۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
حوالہ جات:
۔ "لاڑ جی ادبی ائیں ثقافتی تاریخ" از ڈاکٹر غلام علی الانا۔ انسٹیٹیوٹ آف سندھالاجی
۔ "ٹھٹھے جا قدیم اسلامی یادگار" از ڈاکٹر احمد حسن دانی۔ سندھی ادبی بورڈ
۔ "کراچی سندھ جی مارئی" از گل حسن کلمتی۔ کاچھو پبلیکیشن
(Riders on the wind by Salman Rashid (Sang-e-meel Publications
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔
ماخذ
زیک فاتح محمد وارث حسان خان
ابوبکر شیخ
جب ہم گزرے وقت کا ذکر کرتے ہیں تو ہم پر ایک عجیب سی کیفیت کی چادر تن جاتی ہے، اور ماضی کا تصور جتنا قدیم ہوتا جاتا ہے ایک دھند چھانے لگتی ہے۔ اس دھند میں ایک سحر پوشیدہ ہوتا ہے جو آپ کو ماضی کے ان دنوں میں لے جاتا ہے، جو ہم نے کبھی نہیں دیکھے، بس کتابوں کے اوراق پر جمے الفاظ ہمیں سناتے ہیں اور ہم ذہن میں ان دنوں کو بننے لگ پڑتے ہیں۔
تھوڑا تصور کریں جب رچرڈ برٹن سخت سردیوں کے موسم میں اس علاقے "سونڈا" سے گزرا تھا، تب شب و روز کیسے ہوں گے؟ وہ تحریر کرتا ہے کہ: "ہم صبح سے تین بار راستہ بھول چکے ہیں۔ سخت سردی ہے اور ہم پہاڑیوں سے اترتے ہیں تو زرخیز زمین آجاتی ہے۔ چار سو خاموشی ہے اور بس مختلف پرندوں کی بولیاں سن رہے ہیں۔ کہیں کہیں گندم کے کھیت بھی نظر آتے ہیں۔"
لیکن اب اس علاقے میں کوئی خاموشی نہیں ہے۔ راستے ہیں کہ آتی جاتی گاڑیوں کے شور سے بھرے پڑے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ 'تحفتہ الکرام' کے مصنف کی بات میں کتنی صداقت ہے کہ اس شہر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس خطے میں ایک کامل بزرگ رہتے تھے جو 'سر سونڈر' کے راگ کو بے حد پسند کرتے تھے اور خوش ہوکر حاجت مندوں کی مرادیں پوری کیا کرتے تھے۔ چنانچہ عام لوگوں کی زبان پر یہ خطہ اسی راگ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ جب جام تماچی نے اس شہر کی بنیاد رکھی تو اس نے بھی اس کا یہ ہی نام رکھا۔
طغی، جو ایک موچی اور غلام تھا، ترقی کرتا اچھے عہدوں پر پہنچ گیا۔ اور جب اسے ذمہ داری دے کر 1347 میں گجرات بھیجا گیا تو اس نے وہاں قتلغ خان سے مل کر اپنے محسن محمد تغلق سے بغاوت کر دی، مگر 'کاڈی' کی جنگ ہار کر 'کچھ' کی طرف بھاگ گیا، جہاں 'سمہ جاڑیجوں' کا راج تھا اور ان کے سندھ کے سومروں اور سموں سے اچھے تعلقات تھے، جس کی وجہ سے طغی کو ٹھٹھہ پہنچانے کے لیے کچھ کے 'جاڑیجوں' نے مدد کی۔
محمد تغلق طغی کو سبق سکھانے اور ٹھٹھہ پر حملہ کرنے کے جنون میں سونڈا آکر پہنچا۔ بارشوں کا موسم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مچھلی کھانے کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور 20 مارچ 1350 میں اس کا انتقال ہوگیا، جس کے ساتھ ہی سومرا سرداروں کا زمانہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔
ہر دور کی اپنی خوبصورتیاں اور بدصورتیاں ہوتی ہیں، کچھ زمانوں کی جھولیوں میں مثبت عملوں کے پھول زیادہ ہوتے ہیں اور کچھ زمانوں کی جھولیوں میں کانٹے بہت ہوتے ہیں۔ ہم اگر تعمیر کے حوالے سے ایک سرسری جائزہ لیں تو موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے لے کر بارہویں صدی کی آخر تک فن تعمیر کی تقریباً پانچ ہزار برس کی شاندار تاریخ موجود ہے۔ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ آریوں کے آنے کے بعد فنِ تعمیر ایک جمود کا شکار ہوئی اس کے اسباب یہ تھے کہ آریہ مقامی لوگوں سے زیادہ تیز مزاج، مسلح اور جھگڑالو تھے۔
تیرہ سو سے پانچ سو قبلِ مسیح تک مٹی سے بنی اینٹوں اور لکڑیوں سے عمارتیں تعمیر ہوتی رہیں، گھر اور عبادت گاہیں بنتی رہیں، مگر اب ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ اشوک کے زمانے میں فن تعمیر کو ایک نیا راستہ ملا۔ پہلے جو عمارت سازی تھی، وہ سادہ تھی مگر اس زمانے میں باریک اور نفیس پھول اور بوٹوں کی سنگ تراشی کا فن اپنے کمال کو پہنچا۔
ڈاکٹر احمد حسن دانی لکھتے ہیں: "سندھ، ہندوستان کا وہ حصہ رہی جہاں انسانی تہذیب نے سب سے پہلے آنکھ کھولی، جیسا کہ سندھ میں بدھ مت، جین مت اور برہمنوں کے اثرات موجود تھے، اس لیے ان سب کا اثر اسلامی فن تعمیر پر بھی ہوا۔ اگر ہم مسجدوں کی تعمیر کو دیکھیں تو ترکی، ایران، مصر اور ہند کی تعمیر کا اثر ہمیں نظر آئے گا۔''
ٹھٹھہ سے حیدرآباد جانے والے راستے پر 35 کلومیٹر کا سفر کر کے میں اس پہاڑی پر پہنچا جس کے جنوب میں سونڈا کا چھوٹا سا شہر اور پہاڑی کے مغرب میں سونڈا کے نام سے پکارے جانے والا وہ وسیع قبرستان پھیلا ہوا تھا۔ ہزاروں قبریں ہیں جو پیلے رنگ میں ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ تیز دھوپ ہو، بارشیں ہوں یا ٹھنڈی چاندنی کی راتیں یہ قبریں صدیوں سے آنکھیں موندے یہیں پڑی ہیں۔ اور ان قبروں پر سنگ تراشی کا نازک و نفیس اپنی خوبصورتی اور نزاکت میں لاجواب ہے۔ قبروں پر پیلے پتھر کی سلوں پر جنگ کے مناظر کندہ ہیں۔
ہر قبر اپنی کہانی خود سناتی ہے، بس آپ کے پاس دل سے سننے والے کان اور آنکھیں ہونی چاہیئں جو صدیوں کے آرپار دیکھ سکیں۔ قبر کی سنگ تراشی آپ کو بتا دے گی کہ یہ قبر کسی سردار کی ہے، کسی عورت کی ہے یا کسی جنگجو کی۔ ڈاکٹر غلام علی الانا اس سلسلے میں تحریر کرتے ہیں کہ "قبرستان میں پتھر کی بنی ہوئی کچھ قبروں کے دائیں طرف نچلی طرف گھڑ سوار کی تصویریں بھی تراشی گئی ہیں، جن کے ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں نیزہ ہے۔ کچھ قبروں پر دستار کی شبیہ تراشی گئی ہے جن کے متعلق کارٹر کا خیال ہے کہ یہ سرداروں کے قبروں کی نشانیاں ہیں۔ عورتوں کی قبروں کی پہچان کے لیے تاڑ کی ڈالیوں کی شکلیں تراشی گئی ہیں۔ وہ قبریں جن پر سات فٹ اونچے پتھر کے ستون گاڑے گئے ہیں، وہ قبریں جنگ میں مارے جانے والوں کی ہیں۔"
سندھ اور بلوچستان میں اس طرز کے سینکڑوں قبرستان ہیں۔ سلمان رشید ان قبرستانوں کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ "ہم اگر سرسری طور پر ایک اندازہ لگائیں تو سندھ اور بلوچستان میں مکلی، سونڈا، جھرک، راج ملک، شاہ کپور، چوکنڈی، میمن گوٹھ، تونگ جیسے ایک سو سے بھی زائد قبرستان ہیں۔" تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ، کلمتی، جوکھیا اور نومڑیا (برفت)، مغلوں کے زمانے میں طاقتور قبیلے تھے۔ ان قبیلوں کا ذکر ہمیں سمہ دور میں بھی ملتا ہے۔ یہ اکثر مغلوں سے لڑتے اور گزرتے ہوئے تجارتی قافلوں پر حملے کرتے۔ اگر کلہوڑا دور پر نظر ڈالی جائے تو گبول، لاشاری، پنھور، جاکھرا بھی ان کے مددگار رہے۔ ان قبیلوں کی یادگار قبریں اور قبرستان ہیں جو اس حوالے سے ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
سارے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ فن تعمیر سمہ دور میں یہاں آیا اور اس فن تعمیر پر گجرات کی عمارت سازی کا مکمل اثر تھا۔ سندھ میں سمہ دور فن تعمیر کے لیے ایک انتہائی شاندار دور ثابت ہوا۔ مکلی اور ٹھٹھہ میں زیادہ تر تعمیرات اس دور کی یادگار ہیں۔
سترہویں صدی میں قبرستانوں پر سنگ تراشی کا یہ فن بڑی تیزی سے پھلا پھولا۔ پتھروں کے تختوں پر گھڑ سواروں اور دوسری چیزوں کی تصویریں بننا شروع ہوئی۔ سمہ سردار اس فن کو گجرات سے لائے، ارغونوں، ترخانوں اور بلوچ سرداروں نے اس فن کو عروج پر پہنچایا مگر پھر وہ ہی ہوا جو ہر کمال کے ساتھ ہوتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں یہ فن اپنے کمال کے زوال کی آخری سانسیں لینے لگا۔ اسباب بہت ہوسکتے ہیں مگر حرفِ آخر یہ کہ اس فن پر زوال کی شام آگئی۔
سونڈا کے اس قدیمی قبرستان کے حوالے سے ٹھٹھہ کے آرکیالاجی کے ماہر اور محقق ڈاکٹر محمد علی مانجھی سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ: "اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک قدیمی قبرستان ہے۔ سمہ دور کا جب ہم کہتے ہیں تو یقیناً یہ صدیوں پرانا قبرستان ہے جہاں سنگ تراشی کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ مگر ایک بات ضرور ذہن میں رکھںی چاہیے کہ یہ کسی ایک مخصوص ذات یا قبیلے کا قبرستان نہیں ہے۔ یہاں اردگرد جو قومیں اور قبیلے آباد ہیں ان سب کی قبریں یہاں ہیں۔ یہاں جنگوں میں شہید ہونے والے مرد اور عورتوں کی قبریں ہیں، سرداروں کی قبریں ہیں اور عام لوگوں کی بھی قبریں ہیں۔"
میں نے جب قبرستان کی خستہ اور ناگفتہ حالت کے متعلق ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تو جواب آیا: "بہت پہلے یہاں چوکیدار تھا مگر اب شاید دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اب یہ قومی شاہراہ پر ایک قدیم آرکیالاجی سائیٹ ہے مگر جو حالت ہے وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔ بس کیا کیا جائے۔" ایک بے بسی اور دکھ تھا جو ڈاکٹر صاحب کے جواب میں تھا۔
میں نے اپنی زندگی کے جتنے بھی دن، صبحیں اور شامیں ان قبرستانوں، مقبروں اور قلعوں میں گذاری ہیں، چاہے وہ سخت سردیاں ہوں یا جون جولائی کی چلچلاتی دھوپ، میں جب بھی یہاں آیا، خود کو ایک عجیب سے سحر میں جکڑا ہوا محسوس کیا۔ میں سوچتا ہوں کہ آج سے صدیوں پہلے جب یہ منظر تراشے گئے ہوں گے، تب وہ پل کیسے ہوں گے؟ سردی کا موسم ہوگا یا گرمی کا؟ وہ سنگ تراش جب یہ تراش رہا ہوگا تو اس کے چہرے کی کیفیت کیسی ہوگی؟ چار سو دور دور تک وہ کیا دیکھتا ہوگا؟ ان لمحوں میں کون سے پرندے بولتے ہوں گے؟ یا اس وقت کون سی سیاسی شورشوں کی باتیں شہر کی گلیوں میں گردش کرتی ہوں گی؟
یہ فقط قبرستان، مقبرے یا قلعے نہیں ہیں بلکہ ان میں صدیوں کے موسم اور لمحے قید ہیں۔ اور ان میں ایک سحر چھپا ہوا ہے جو آپ کو بار بار بلاتا ہے اور آپ اس سحر میں جکڑے پھر ان قبرستانوں اور مقبروں پر چلے جاتے ہیں۔ اور یہ سحر ہمارا ماضی ہے جو ہم کو نظر نہ بھی آئے مگر اس سے ہمارا ایک رشتہ ہے جس کو ہم اپنے آپ سے الگ نہیں کرسکتے۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
حوالہ جات:
۔ "لاڑ جی ادبی ائیں ثقافتی تاریخ" از ڈاکٹر غلام علی الانا۔ انسٹیٹیوٹ آف سندھالاجی
۔ "ٹھٹھے جا قدیم اسلامی یادگار" از ڈاکٹر احمد حسن دانی۔ سندھی ادبی بورڈ
۔ "کراچی سندھ جی مارئی" از گل حسن کلمتی۔ کاچھو پبلیکیشن
(Riders on the wind by Salman Rashid (Sang-e-meel Publications
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔
ماخذ
زیک فاتح محمد وارث حسان خان