راحیل فاروق
محفلین
کسی دانا کا فرمان ہے:
تو صاحبو، کپڑے تو ہمارے پاس اتنے فالتو ہیں نہیں کہ ان سے بیکاری کا قتل کیا جائے۔ بقولِ سعدیؒ، جامہ ندارم دامن از کجا آرم۔ لے دے کے یہی ٹوٹے پھوٹے اشعار ہیں جن پر تکیہ کیا جا سکتا ہے۔
سو ملاحظہ فرمائیے ایک پرانی غزل۔
بیکار مباش، کچھ کیا کر---
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر !
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر !
سو ملاحظہ فرمائیے ایک پرانی غزل۔
عشق کا حصہ ہیں کھلی آیات
وسوسوں تک ہیں عقل کی برکات
بھولتا جا رہا ہوں خود کو میں
کر رہا ہوں تلافئِ ما فات
سوچتے سوچتے خیال آیا
آپ تک سوچ کی کہاں اوقات
ہیں تمھارے فراق کے تحفے
عشق پر ہیں جنون کے اثرات
روز بنتی ہے کائنات نئی
روز اترتی ہیں نت نئی آیات
مسکرا کر شعور والوں پر
دل نے کر دی بڑے پتے کی بات
گئے کس بارگاہ میں راحیلؔ
تم نے خود کو بھی کر دیا خیرات
وسوسوں تک ہیں عقل کی برکات
بھولتا جا رہا ہوں خود کو میں
کر رہا ہوں تلافئِ ما فات
سوچتے سوچتے خیال آیا
آپ تک سوچ کی کہاں اوقات
ہیں تمھارے فراق کے تحفے
عشق پر ہیں جنون کے اثرات
روز بنتی ہے کائنات نئی
روز اترتی ہیں نت نئی آیات
مسکرا کر شعور والوں پر
دل نے کر دی بڑے پتے کی بات
گئے کس بارگاہ میں راحیلؔ
تم نے خود کو بھی کر دیا خیرات
1 مارچ، 2011ء