سوچ رہا ہوں
سوچنے والا
کون ہے مجھ میں
کیا میں ہوں
یا میرا بھیجا
میری آنتیں
میرا معدہ
میرا سینہ
میرے اعضا
اعضائے رئیسہ
دل اک عضوِ رئیس ہے کیا؟
عضوِ رئیس فقیر ہے کیا؟
سوچ رہا ہوں
سوچ کے پیچھے سوچ آتی ہے
سوچ کا محور
سوچ سے لے کر
سوچ تلک ہے
اکمل زیدی
میرے بھائی
سوچ کو لے کر الجھ گئے ہیں
پوچھ رہے ہیں
سوچ اور خیال
خیال اور سوچ
سوچ اور دل
دل اور سوچ
انتر کیا ہے
ان تینوں میں
میں سوچیلا
میں پھرتیلا
جھٹ سے پہلے
پہنچ گیا ہوں
اُتّر دینے
میں تو پنڈت گیانی ہوں نا
میں تو گیانی دھیانی ہوں نا
میں تو عالم فاضل ہوں نا
میں تو فاضل عاقل ہوں نا
لیکن سچ میں جاہل ہوں نا
سوچ رہا ہوں
سوچ کے پیچھے سوچ آتی ہے
سوچ کے آگے کیا آتا ہے؟
کیا ایسی منزل ہے کوئی؟
جس پہ سب سوچیں رک جائیں
یا سوچوں میں ہم کھو جائیں
لیکن ہم تو کھوئے ہوئے ہیں
پہلے ہی سے
جو کھویا ہو
کیسے کھوئے
کہتے ہیں کہ بھٹکتا وہ ہے
جس نے کہیں جانا ہوتا ہے
ہم نے کہاں جانا ہے بھائی
بنشین مادر بیٹھ ری مائی
سوچ رہا ہوں
اس لڑکی سے
پیار جتا کر غلطی کی ہے
اب وہ میرے پیچھے پڑی ہے
وہ کہتی ہے
بیاہ رچاؤ
مجھ کو اپنے گھر میں لاؤ
بچے پالو
سوچ رہا ہوں
اتنے پیسے
کہاں سے لاؤں
اتنے بچے
کیسے پالوں؟
میں بنجارہ
میں آوارہ
خانہ بدوشی میری فطرت
پیار کیا تو آ گئی شامت
طفل کے پیچھے طفل آتا ہے
بازیچہ
اطفال کا دنیا
میرے آگے
تیرے آگے
آبادی
دنیا والوں کی
دگنی ہو گئی
چگنی ہو گئی
کوئی تو روکے
کوئی تو ٹوکے
پولیو والے
گھر گھر پہنچے
شک نے ڈالے
گھر گھر ڈیرے
قطروں میں کیا زہر ملا ہے
ہم سائے میں رہنے والا
ٹیرس ہی سے بول رہا ہے
گھر میں کوئی طفل نہیں ہے
پولیو والے لوٹ گئے ہیں
لیکن گھر میں ڈھیر لگا ہے
چھوٹے بچے
دو دو ماہ کے
چھ چھ ماہ کے
بلک رہے ہیں
دودھ نہیں ہے
نہ ڈبے کا
نہ چھاتی کا
سوکھی ماتا
روکھی دھرتی
تیلی ساگر
دودی سانسیں
آب و ہوا
خشکی تری
سب زہریلے
سب پتھریلے
دو نمری کا جال بچھا ہے
لمبر ومبر میں نہ لکھوں گا
گنت میں اتنا طاق نہیں ہوں
سوچ رہا ہوں
سوچ کا پنچھی
کہیں تو ٹھہرے
کہیں تو بیٹھے
پات ہرے ہیں
پھول کھلے ہیں
لیکن پاگل کود رہا ہے
پھدک رہا ہے
پھڑک رہا ہے
اڑتے اڑتے
چور ہوا ہے
بیٹھ جا بھائی
میرے بھائی
میں تیرا صیاد نہیں ہوں
تو ہو میرا صید تو ہو
تو ہو مجھ میں قید تو ہو
سوچ رہا ہوں
عمر کے اِن پچیس برس میں
کیا کھویا ہے
کیا پایا ہے
کچھ پانے جیسا نہیں پایا
سب کھونے جیسا پایا ہے
سوچ رہا ہوں
سوچ بھی کھو دوں
تب شاید آرام ملے
انہد میں وسرام ملے
سوچنے والا
کون ہے مجھ میں
کیا میں ہوں
یا میرا بھیجا
میری آنتیں
میرا معدہ
میرا سینہ
میرے اعضا
اعضائے رئیسہ
دل اک عضوِ رئیس ہے کیا؟
عضوِ رئیس فقیر ہے کیا؟
سوچ رہا ہوں
سوچ کے پیچھے سوچ آتی ہے
سوچ کا محور
سوچ سے لے کر
سوچ تلک ہے
اکمل زیدی
میرے بھائی
سوچ کو لے کر الجھ گئے ہیں
پوچھ رہے ہیں
سوچ اور خیال
خیال اور سوچ
سوچ اور دل
دل اور سوچ
انتر کیا ہے
ان تینوں میں
میں سوچیلا
میں پھرتیلا
جھٹ سے پہلے
پہنچ گیا ہوں
اُتّر دینے
میں تو پنڈت گیانی ہوں نا
میں تو گیانی دھیانی ہوں نا
میں تو عالم فاضل ہوں نا
میں تو فاضل عاقل ہوں نا
لیکن سچ میں جاہل ہوں نا
سوچ رہا ہوں
سوچ کے پیچھے سوچ آتی ہے
سوچ کے آگے کیا آتا ہے؟
کیا ایسی منزل ہے کوئی؟
جس پہ سب سوچیں رک جائیں
یا سوچوں میں ہم کھو جائیں
لیکن ہم تو کھوئے ہوئے ہیں
پہلے ہی سے
جو کھویا ہو
کیسے کھوئے
کہتے ہیں کہ بھٹکتا وہ ہے
جس نے کہیں جانا ہوتا ہے
ہم نے کہاں جانا ہے بھائی
بنشین مادر بیٹھ ری مائی
سوچ رہا ہوں
اس لڑکی سے
پیار جتا کر غلطی کی ہے
اب وہ میرے پیچھے پڑی ہے
وہ کہتی ہے
بیاہ رچاؤ
مجھ کو اپنے گھر میں لاؤ
بچے پالو
سوچ رہا ہوں
اتنے پیسے
کہاں سے لاؤں
اتنے بچے
کیسے پالوں؟
میں بنجارہ
میں آوارہ
خانہ بدوشی میری فطرت
پیار کیا تو آ گئی شامت
طفل کے پیچھے طفل آتا ہے
بازیچہ
اطفال کا دنیا
میرے آگے
تیرے آگے
آبادی
دنیا والوں کی
دگنی ہو گئی
چگنی ہو گئی
کوئی تو روکے
کوئی تو ٹوکے
پولیو والے
گھر گھر پہنچے
شک نے ڈالے
گھر گھر ڈیرے
قطروں میں کیا زہر ملا ہے
ہم سائے میں رہنے والا
ٹیرس ہی سے بول رہا ہے
گھر میں کوئی طفل نہیں ہے
پولیو والے لوٹ گئے ہیں
لیکن گھر میں ڈھیر لگا ہے
چھوٹے بچے
دو دو ماہ کے
چھ چھ ماہ کے
بلک رہے ہیں
دودھ نہیں ہے
نہ ڈبے کا
نہ چھاتی کا
سوکھی ماتا
روکھی دھرتی
تیلی ساگر
دودی سانسیں
آب و ہوا
خشکی تری
سب زہریلے
سب پتھریلے
دو نمری کا جال بچھا ہے
لمبر ومبر میں نہ لکھوں گا
گنت میں اتنا طاق نہیں ہوں
سوچ رہا ہوں
سوچ کا پنچھی
کہیں تو ٹھہرے
کہیں تو بیٹھے
پات ہرے ہیں
پھول کھلے ہیں
لیکن پاگل کود رہا ہے
پھدک رہا ہے
پھڑک رہا ہے
اڑتے اڑتے
چور ہوا ہے
بیٹھ جا بھائی
میرے بھائی
میں تیرا صیاد نہیں ہوں
تو ہو میرا صید تو ہو
تو ہو مجھ میں قید تو ہو
سوچ رہا ہوں
عمر کے اِن پچیس برس میں
کیا کھویا ہے
کیا پایا ہے
کچھ پانے جیسا نہیں پایا
سب کھونے جیسا پایا ہے
سوچ رہا ہوں
سوچ بھی کھو دوں
تب شاید آرام ملے
انہد میں وسرام ملے