گُلِ یاسمیں کیا ایسا ہی ہے؟
جی بالکل ایسا ہی ہے۔
ناروے، سویڈن، ڈنمارک، اٹلی، جرمنی سب جگہ ایسا ہی ہے۔ آنے والے سالوں میں روزے کا دورانیہ کم ہوتا جا رہا ہے ۔ جون جولائی میں تو نماز تراویح اور سحری کے درمیان صرف تین گھنٹے ہوتے ہیں۔
واقعی میں ٹائم ٹیبل پورے رمضان میں ایسا بن جاتا ہے کہ روٹین لائف ہی تبدیل ہو جاتی ہے ایک ماہ کے لئے۔
ہمسایوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ خاس طور پر اس صورت میں جب کہ آپ کے ہمسائے غیر مسلم ہوں۔ کیونکہ فلیٹس اس طرح سے ہیں کہ رات میں اگر پانی کھولیں تو آواز ہسایہ گھر میں بھی جاتی ہے۔
الحمد للہ کہ ہمارا فلیٹ جس بلڈنگ میں ہے وہاں 4 گھر ہیں۔ جن میں صرف ایک جوڑا غیر مسلم ہے جو اپریل سے اکتوبر تک وہاں ہوتے ہی نہیں۔ اس کا فائدہ اس طرح اٹھاتے ہیں کہ اگر کسی ایک گھر سے کھٹ پٹ کی آواز نہیں آ رہی تو انھیں بھی جگا دیا جاتا ہے کہ ان کا سحری کا ٹائم نکل نہ جائے۔
افطاری کے لوازمات کا تبادلہ بھی کیا جاتا ہے اکثر۔ جو خوشی کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ وطن سے دوری کی کمی کا احساس بھی قدرے کم کرنے میں معاون ہے۔
حال ہی میں ایک ترکی دکان دریافت ہوئی ہے جہاں بیسن ،بھنڈی مطلب کہ ہر چیز کے ساتھ ساتھ املی تک مل جاتی ہے۔ ( یاد رہے کہ اسی شاپ سے ہمارے سر پہ پہلی چوٹ لگی) یہ ہم ڈنمارک کا ذکر کر رہے کیونکہ گھر مکمل ہونے کے بعد ہم یہاں واپس آ چکے ہیں۔
اس سال اور پچھلے سال میں کووڈ کی وجہ سے مسجد میں سحری اور افطاری کا انتظام تھوڑا بدل دیا ہے۔ 2019 تک یہ ہوتا تھا کہ مسلم مل جل کر مسجد میں افطاری کا انتظام کرتے تھے۔ اور جو لوگ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھتے تھے، ان کے لئے سحری کا انتظام مل جل کر کرنا بہت اچھا تھا۔ گھر سے قریب ترین مسجد 6 کلو میٹر اور دوسری بڑی مسجد 15 کلو میٹر ہے۔ وہیں پاس ایک پناہ گزین سینٹر ہے تو اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ وہاں رہنے والے مسلمانوں کے لئے سحری و افطاری کی آسانی رہے۔ وطن سے بھلے دور ہیں، مقدور بھر کوشش رہتی ہے ہم سب لوگوں کی کہ مل جل کر اس ماہ کی برکتیں سمیٹ سکیں۔
اس سال کا ٹائم ٹیبل یہ ہے