سو پیاز ، سو جوتے… جرگہ
SMS: #SSA (space) message & send to 8001
saleem.safi@janggroup.com.pk
یہ سطور یوم پاکستان کے موقع پر سپرد قلم کی جارہی ہیں۔ لیکن میں آپ کو سات ماہ پیچھے یعنی13 اگست 2014 میں لے جاتا ہوں۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے غازی اپنے سپریم کمانڈروں یعنی عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد پر یلغار کے لئے رخت سفر باندھ رہے تھے ۔ سب کچھ چونکہ قوم کے وسیع تر مفاد میں ہورہا تھا ‘ اس لئے اسلام آباد کے حاکموں کے پائوں کانپ رہے تھے ۔ بعض زبان دراز وزراء نے دفتروں میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ سول سروس کے وزیراعظم کے بعض چہیتے بیوروکریٹ بیرون ملک فرار ہو گئے تھے ۔اسی فضاء میں شام کے وقت وزیراعظم میاں محمد نوازشریف قوم سے خطاب کیلئے ٹی وی پر نمودار ہوئے۔ انہوں نے عمران خان کے دھاندلی سے متعلق الزامات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کااعلان کیا۔ پیشکش کی کہ یہ کمیشن سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ہوگا اور اگر دھاندلی ثابت ہوئی تو حکومت تحلیل ہوجائے گی لیکن خان صاحب کوا سکرپٹ رائٹرز نے یقین دلایا تھا کہ کسی صورت نہ مانیں ۔انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ وہ ایک بار لائو ولشکر کے ساتھ اسلام آباد پہنچ جائیں تو بہر صورت نوازشریف کی چھٹی کراکر ان کو تخت نشین کرادیا جائے گا۔ ہم جیسے تو کیا اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے قائدین بھی ان سے درخواست کرتے رہے کہ وہ دھرنا ملتوی کرکے کمیشن کے قیام پر راضی ہوجائیں لیکن وہ بضد رہے ۔ وہ الگ بات کہ تعداد ‘ قربانی ‘ ڈرامہ بازی اور مرنے مارنے سمیت تمام حوالوں سے ڈاکٹر طاہرالقادری بازی لے گئے ۔ اسلام آباد پہنچنے سے قبل انہوں نے ایکسیڈنٹ کی صورت میں اپنے دو کارکنوں کی قربانی دی لیکن جب رات کو پرویز خٹک اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماا سٹیج پر جھو م رہے تھے تو کسی کو ان کے لئے فاتحہ خوانی کی توفیق بھی نصیب نہ ہوئی۔ دھرنے کا یہ ڈرامہ لمبے عرصے تک جاری رہا ۔ اسٹیٹ کی رہی سہی رٹ بھی باقی نہیں رہی ۔ اداروں کے درمیان بدگمانیاں مزید بڑھ گئیں ۔ عدلیہ اور میڈیا کو بے وقعت کرنے کی پوری کوشش ہوئی ۔ پارلیمنٹ پر حملے ہوئے ۔خیبرپختونخوا اسمبلی کےا سپیکر اسد قیصر اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سرکاری گاڑیوں میں اسلام آباد آکر اس کنٹینر پر کھڑے رہتے جہاں سے پارلیمنٹ کو گالیاں دی جاتی تھیں ۔پھر اسمبلیوں سے استعفوں کا ڈرامہ بھی رچایا گیا اور تین درجن حلقوں کے عوام کو حق نمائندگی سے محروم رکھا گیا ۔ سرکاری ٹی وی پر ایسی یلغار کی گئی جس طرح طالبان افغانستان میں امریکی اڈوں پر کرتے ہیں ۔ پولیس افسروں کے سر پھاڑے گئے ۔ تاثر ہے کہ اس پورے ڈرامے کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے ہزاروںسیکورٹی اہلکار بھی ڈیوٹی دیتے رہے ۔ امن وامان کو برقرار رکھنے پر کئی ارب روپے خرچ ہوئے ۔ معیشت کو کھربوں روپے کا ٹیکہ لگا ۔ چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا اور پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی ہوئی ۔ گالم گلوچ کا کلچر عام ہوا ۔ ٹی وی ا سکرینوں سے تہذیب یافتہ اور سیاسی افق سے سنجیدہ سیاستدان غائب ہوگئے جبکہ دوسری طرف شیخ رشید احمد ‘ طلا ل چوہدری ‘ عابد شیر علی‘ مراد سعید اور علی محمد خان جیسے لوگوں کو اہمیت ملنے لگی ۔ پی ٹی آئی اپنے صفوں میں موجود ایک کریڈیبل سیاستدان یعنی جاوید ہاشمی کی رفاقت سے محروم ہوئی ۔کیمروں کا رخ وزیرستان کے دس لاکھ متاثرین اور آپریشن ضرب عضب سے مڑ کر دھرنے کے ڈرامے کی طرف ہونے لگا ۔ اس پورے عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست اور جمہوریت بے وقعت ہوگئی ۔ لیکن جب ا سکرپٹ رائٹرز کے مقاصد حاصل ہوگئے اور حکمران اسلام آباد کو پنڈی کے قدموں میں بٹھانے پر آمادہ ہوئے تو دھرنوں کی ضرورت ختم ہوگئی ۔ پھر قادری صاحب دھرنے کےخاتمے کے لئے بہانہ ڈھونڈ رہے تھے ۔ وہ اپنی اس ریاضت کا اجر وصول کرکے رخصت ہوگئے تو تحریک انصاف کے لئے چند سو لوگوں کا دھرنا برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہا ۔ اوپر سے سردی آگئی اور ظاہر ہے کہ تحریک انصاف کے نازک مزاج رہنمائوں کے لئے اسلام آباد کی سردی کو برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ دھرنے کے خاتمے کے لئے بہانے کا انتظار ہونے لگا۔ سانحہ پشاور کی صورت میں نہ صرف بہانہ ہاتھ آگیا بلکہ مقتدر حلقوں کی طرف سے بھی واضح پیغام دیا گیا کہ اب اس ڈرامے کو ختم کردیا جائے ۔ اس کے بعد تحریک انصاف اسمبلیوں میں واپس جانے کا بہانہ ڈھونڈتی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ ممبران قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ لاجز نہیں چھوڑے ہیں اور اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب ان کو واپسی کی اجازت ملتی ہے ۔ پھر جب سینیٹ کے انتخابات میں نہ صرف حصہ لیا گیا بلکہ تحریک انصاف کے ممبران صوبائی اسمبلی بھیڑ بکریوں کی طرح بکنے لگے اور جواب میں پرویز خٹک صاحب کو وہ تمام حربے استعمال کرنے پڑے جو زرداری صاحب اور نوازشریف صاحب کا خاصہ ہیں تو قومی اسمبلی سے باہر رہنے کا رہا سہا جواز بھی باقی نہیں رہا۔ اب پہلے قدم کے طور پر حکومت کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اتفاق کیا گیا اور بہت جلد اسمبلی میں واپسی کیلئے بھی بہانہ تلاش کرلیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اتنی تباہی اور رسوائی کے بعد اگر اسی جوڈیشل کمیشن پر رضامند ہونا تھا جو13اگست2014 کو آفر کی گئی تھی تو پھر اس وقت کیوں نہیں مانا گیا ۔ شاید اسے کہتے ہیں کہ سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی ۔ عمران خان اور میاں نوازشریف جلد ایک ایوان میں بیٹھ جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ لوگ بھی واپس آجائیں گے جو دھرنوں کے دوران اور ملتان جلسے میں اپنی زندگیاں قربان کرگئے ؟ پولیس کا گرا ہوا مورال اب کیسے بحال ہوگا؟ اور اب جو محمد علی نیکوکارہ جیسے لوگوں کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے تو ان کو اس قربانی سے کیا خان صاحب بچاسکیں گے ۔ یہی قیادت کے وژن کا امتحان ہوتا ہے۔ خان صاحب اگر سات ماہ قبل حکومت کی تجویز مان لیتے تو نہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بے توقیری ہوتی ‘ نہ میڈیا تقسیم ہوتا اور اسی کی دہائی کے غلامانہ دور میں واپس جاتا ‘ نہ چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوتا ‘ نہ آپریشن ضرب عضب سے توجہ ہٹتی ‘ نہ ہم وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی بددعائیں لیتے ‘ نہ سیاست کے میدان میں موجود رہی سہی اخلاقیات رخصت ہوتیں ‘ نہ پولیس فورس کا مورال گرتا ‘ نہ سانحہ یوحنا آباد جیسے واقعات رونما ہوتے ‘ نہ جاوید ہاشمی پی ٹی آئی چھوڑتے ‘ نہ ملک کو کھربوں کا نقصان پہنچتا ‘ نہ جہانگیر ترین ‘ اعظم سواتی اور علیم خان جیسوں کے اربوں روپے ضائع ہوتے اور شاید نہ خان صاحب کی ذاتی خامیاں اس قدر کھل کر سامنے آتیںاور نہ ایس ایس پی محمد علی نیکوکارہ جیسے دیانتدار اور اچھے پولیس افسروں کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا۔
SMS: #SSA (space) message & send to 8001
saleem.safi@janggroup.com.pk
یہ سطور یوم پاکستان کے موقع پر سپرد قلم کی جارہی ہیں۔ لیکن میں آپ کو سات ماہ پیچھے یعنی13 اگست 2014 میں لے جاتا ہوں۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے غازی اپنے سپریم کمانڈروں یعنی عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد پر یلغار کے لئے رخت سفر باندھ رہے تھے ۔ سب کچھ چونکہ قوم کے وسیع تر مفاد میں ہورہا تھا ‘ اس لئے اسلام آباد کے حاکموں کے پائوں کانپ رہے تھے ۔ بعض زبان دراز وزراء نے دفتروں میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ سول سروس کے وزیراعظم کے بعض چہیتے بیوروکریٹ بیرون ملک فرار ہو گئے تھے ۔اسی فضاء میں شام کے وقت وزیراعظم میاں محمد نوازشریف قوم سے خطاب کیلئے ٹی وی پر نمودار ہوئے۔ انہوں نے عمران خان کے دھاندلی سے متعلق الزامات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کااعلان کیا۔ پیشکش کی کہ یہ کمیشن سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ہوگا اور اگر دھاندلی ثابت ہوئی تو حکومت تحلیل ہوجائے گی لیکن خان صاحب کوا سکرپٹ رائٹرز نے یقین دلایا تھا کہ کسی صورت نہ مانیں ۔انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ وہ ایک بار لائو ولشکر کے ساتھ اسلام آباد پہنچ جائیں تو بہر صورت نوازشریف کی چھٹی کراکر ان کو تخت نشین کرادیا جائے گا۔ ہم جیسے تو کیا اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے قائدین بھی ان سے درخواست کرتے رہے کہ وہ دھرنا ملتوی کرکے کمیشن کے قیام پر راضی ہوجائیں لیکن وہ بضد رہے ۔ وہ الگ بات کہ تعداد ‘ قربانی ‘ ڈرامہ بازی اور مرنے مارنے سمیت تمام حوالوں سے ڈاکٹر طاہرالقادری بازی لے گئے ۔ اسلام آباد پہنچنے سے قبل انہوں نے ایکسیڈنٹ کی صورت میں اپنے دو کارکنوں کی قربانی دی لیکن جب رات کو پرویز خٹک اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماا سٹیج پر جھو م رہے تھے تو کسی کو ان کے لئے فاتحہ خوانی کی توفیق بھی نصیب نہ ہوئی۔ دھرنے کا یہ ڈرامہ لمبے عرصے تک جاری رہا ۔ اسٹیٹ کی رہی سہی رٹ بھی باقی نہیں رہی ۔ اداروں کے درمیان بدگمانیاں مزید بڑھ گئیں ۔ عدلیہ اور میڈیا کو بے وقعت کرنے کی پوری کوشش ہوئی ۔ پارلیمنٹ پر حملے ہوئے ۔خیبرپختونخوا اسمبلی کےا سپیکر اسد قیصر اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سرکاری گاڑیوں میں اسلام آباد آکر اس کنٹینر پر کھڑے رہتے جہاں سے پارلیمنٹ کو گالیاں دی جاتی تھیں ۔پھر اسمبلیوں سے استعفوں کا ڈرامہ بھی رچایا گیا اور تین درجن حلقوں کے عوام کو حق نمائندگی سے محروم رکھا گیا ۔ سرکاری ٹی وی پر ایسی یلغار کی گئی جس طرح طالبان افغانستان میں امریکی اڈوں پر کرتے ہیں ۔ پولیس افسروں کے سر پھاڑے گئے ۔ تاثر ہے کہ اس پورے ڈرامے کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے ہزاروںسیکورٹی اہلکار بھی ڈیوٹی دیتے رہے ۔ امن وامان کو برقرار رکھنے پر کئی ارب روپے خرچ ہوئے ۔ معیشت کو کھربوں روپے کا ٹیکہ لگا ۔ چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا اور پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی ہوئی ۔ گالم گلوچ کا کلچر عام ہوا ۔ ٹی وی ا سکرینوں سے تہذیب یافتہ اور سیاسی افق سے سنجیدہ سیاستدان غائب ہوگئے جبکہ دوسری طرف شیخ رشید احمد ‘ طلا ل چوہدری ‘ عابد شیر علی‘ مراد سعید اور علی محمد خان جیسے لوگوں کو اہمیت ملنے لگی ۔ پی ٹی آئی اپنے صفوں میں موجود ایک کریڈیبل سیاستدان یعنی جاوید ہاشمی کی رفاقت سے محروم ہوئی ۔کیمروں کا رخ وزیرستان کے دس لاکھ متاثرین اور آپریشن ضرب عضب سے مڑ کر دھرنے کے ڈرامے کی طرف ہونے لگا ۔ اس پورے عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست اور جمہوریت بے وقعت ہوگئی ۔ لیکن جب ا سکرپٹ رائٹرز کے مقاصد حاصل ہوگئے اور حکمران اسلام آباد کو پنڈی کے قدموں میں بٹھانے پر آمادہ ہوئے تو دھرنوں کی ضرورت ختم ہوگئی ۔ پھر قادری صاحب دھرنے کےخاتمے کے لئے بہانہ ڈھونڈ رہے تھے ۔ وہ اپنی اس ریاضت کا اجر وصول کرکے رخصت ہوگئے تو تحریک انصاف کے لئے چند سو لوگوں کا دھرنا برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہا ۔ اوپر سے سردی آگئی اور ظاہر ہے کہ تحریک انصاف کے نازک مزاج رہنمائوں کے لئے اسلام آباد کی سردی کو برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ دھرنے کے خاتمے کے لئے بہانے کا انتظار ہونے لگا۔ سانحہ پشاور کی صورت میں نہ صرف بہانہ ہاتھ آگیا بلکہ مقتدر حلقوں کی طرف سے بھی واضح پیغام دیا گیا کہ اب اس ڈرامے کو ختم کردیا جائے ۔ اس کے بعد تحریک انصاف اسمبلیوں میں واپس جانے کا بہانہ ڈھونڈتی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ ممبران قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ لاجز نہیں چھوڑے ہیں اور اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب ان کو واپسی کی اجازت ملتی ہے ۔ پھر جب سینیٹ کے انتخابات میں نہ صرف حصہ لیا گیا بلکہ تحریک انصاف کے ممبران صوبائی اسمبلی بھیڑ بکریوں کی طرح بکنے لگے اور جواب میں پرویز خٹک صاحب کو وہ تمام حربے استعمال کرنے پڑے جو زرداری صاحب اور نوازشریف صاحب کا خاصہ ہیں تو قومی اسمبلی سے باہر رہنے کا رہا سہا جواز بھی باقی نہیں رہا۔ اب پہلے قدم کے طور پر حکومت کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اتفاق کیا گیا اور بہت جلد اسمبلی میں واپسی کیلئے بھی بہانہ تلاش کرلیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اتنی تباہی اور رسوائی کے بعد اگر اسی جوڈیشل کمیشن پر رضامند ہونا تھا جو13اگست2014 کو آفر کی گئی تھی تو پھر اس وقت کیوں نہیں مانا گیا ۔ شاید اسے کہتے ہیں کہ سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی ۔ عمران خان اور میاں نوازشریف جلد ایک ایوان میں بیٹھ جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ لوگ بھی واپس آجائیں گے جو دھرنوں کے دوران اور ملتان جلسے میں اپنی زندگیاں قربان کرگئے ؟ پولیس کا گرا ہوا مورال اب کیسے بحال ہوگا؟ اور اب جو محمد علی نیکوکارہ جیسے لوگوں کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے تو ان کو اس قربانی سے کیا خان صاحب بچاسکیں گے ۔ یہی قیادت کے وژن کا امتحان ہوتا ہے۔ خان صاحب اگر سات ماہ قبل حکومت کی تجویز مان لیتے تو نہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بے توقیری ہوتی ‘ نہ میڈیا تقسیم ہوتا اور اسی کی دہائی کے غلامانہ دور میں واپس جاتا ‘ نہ چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوتا ‘ نہ آپریشن ضرب عضب سے توجہ ہٹتی ‘ نہ ہم وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی بددعائیں لیتے ‘ نہ سیاست کے میدان میں موجود رہی سہی اخلاقیات رخصت ہوتیں ‘ نہ پولیس فورس کا مورال گرتا ‘ نہ سانحہ یوحنا آباد جیسے واقعات رونما ہوتے ‘ نہ جاوید ہاشمی پی ٹی آئی چھوڑتے ‘ نہ ملک کو کھربوں کا نقصان پہنچتا ‘ نہ جہانگیر ترین ‘ اعظم سواتی اور علیم خان جیسوں کے اربوں روپے ضائع ہوتے اور شاید نہ خان صاحب کی ذاتی خامیاں اس قدر کھل کر سامنے آتیںاور نہ ایس ایس پی محمد علی نیکوکارہ جیسے دیانتدار اور اچھے پولیس افسروں کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا۔