سو پیاز اور سو جوتے!!!۔۔۔۔حرف سادہ ۔۔۔۔ہمراز احسن

انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے اورہمارے نئے اور پرانے سیاستدان ایک بار پھر یہ گھسی پٹی رٹ لگا رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ کر ہمیں نیا پاکستان دیں گے۔ اگر رحم کی کوئی گنجائش نکلے تو عرض ہے کہ آپ براہ مہربانی یہ تکلف نہ فرمائیں اور ہمیں نیا پاکستان دینے کی بجائے پرانا پاکستان ہی لوٹا دیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقین کریں کہ ہم کیا، ہماری آنے والی کئی نسلیں نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کی اگلی نسلوں کو دعائیں دیں گی۔ پرانے پاکستان میں بزرگ یہ دعا مانگتے تھے کہ رب سب کو تھانے ، کچہری اور ہسپتال سے محفوظ رکھے۔پاکستان میں آج جو کسی بھی سطح پر زندہ ہیں یعنی اُن کی سانس اور نبض چل رہی ہے، اُن کے لیے بزرگوں کی یہ دعا کسی تسلی و تشفی کا سبب نہیں بن سکتی کہ بات اب دور، بہت دور تک چلی گئی ہے۔ تھانہ، کچہری اور ہسپتال تو اب وہ مقاماتِ آہ و فغاں ہیں جہاں جان بچنے کے کچھ امکانات بدستور باقی ہیں۔ آج کی دعا تو یہ ہے یا اگر نہیں، تو ہونی چاہیے کہ رب سب کو دہشت گردوں ، خود کش حملہ آوروں ، ریموٹ کنٹرول بموں، ٹارگٹ کلرز، لینڈاور ڈرگ مافیاز اور ایسی ہی دیگر بلاؤں سے بچائے اور جواِ ن بلاؤں سے بچ جائیں انہیں انتہا پسند مذہبی جنونیوں سے محفوظ رکھے کیوں کہ انہوں نے تو آپ پرصرف توہین مذہب کا جھوٹاالزام لگانا ہے ، اگلا کام تو گذشتہ دہائیوں میں اُن کی پھیلائی ہوئی جنونیت کا شکار ہجوم نے اپنے’ جذبہ ایمانی‘ کے سر پرکرنا ہے اور آپ کو چیڑ پھاڑ کر رکھ دینا ہے۔ اگر بدقسمتی سے آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور کسی سرکاری کالج یا یونیورسٹی میں لیکچرار یا پروفیسر ہیں اور آپ اسلامیات نہیں بلکہ انگریزی ادب، فلسفہ، نفسیات، یا کوئی سائنسی مضمون پڑھاتے ہیں تو پھرپاکستان میں آپ سے زیادہ غیر محفوظ شخص کوئی نہیں کیوں کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی کسی بات کو توہین مذہب کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ نزدیکی مدرسوں کے طلبہ کو فوری طور پر آپ کا گھیراؤ کرنے کے لیے طلب کیا جا سکتا ہے اور پولیس کی یہ جرأت نہیں کہ وہ آپ کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے پہلے ضروری قانونی کارروا ئی پوری کر سکے۔ بزرگوں کو آج یہ دعا بھی مانگنی چاہیے کہ ربِ کریم سب کو میڈیا کے اُن خدائی فوجداروں کے غیض و غضب سے بھی محفوظ رکھے جو اپنے تئیں ماہر قانون ، مذہب و اخلاقیات سے ماہر تعلیم تک بنے بیٹھے ہیں۔ انجام گلستان تو سامنے نظر آ رہا ہے جب ہر شاخ پر ایک نہیں کئی کئی اُلو بیٹھے ہوں گے۔ پنجاب میں اردو کے دسویں جماعت کے نصاب میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں تو ایک مخصوص گروہ نے طوفان برپا کر دیا گیا جیسے اسلام کے خلاف کوئی سازش ہو گئی ہو۔ کیا سرکاری سکولوں میں پڑھائی جانے والی اردو کی دسویں جماعت کی کتاب کوئی ایسا آسمانی صحیفہ ہے جس میں قیامت تک کوئی رد وبدل نہیں ہو سکتا۔ پوری دنیا میں نصاب وقت کے تقاضوں، نئی دریافتوں اور نئی تحقیق کی روشنی میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ نئی دعا یہ ہونی چاہیے کہ رب ہمیں ایسے لوگوں سے بچائے جو ہمارے حصولِ علم و دانش کی راہ میں مذہب کو استعمال کرتے ہوئے پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔پنجاب میں سرکاری سکولوں میں انگریزی کو نصاب کے سائنسی اور تیکنیکی مضامین کے لیے ذریعہ تعلیم بنانے کے فیصلہ پر بھی بہت لے دے ہوئی لیکن جہلا سے کون لڑ سکتا ہے؟ ہمارے ایک مرحوم دانشور بزرگ کہا کرتے تھے کہ انہیں جہلاء پر یا تو غصہ آتا ہے یا پھرترس ۔ میں نے پوچھا کہ ترس کیوں؟ تو بولے کیوں کہ اُن کی حالت اپاہجوں جیسی ہوتی ہے۔ پرانے پاکستان میں لاہور کے لکشمی چوک میں ڈھابے پر بکنے والے دال، چاول اور بیڈن روڈ پر بابا ظہیر کاشمیری کے گھر والی گلی کے تندور پر چنے کی دال اور تندروی روٹیوں کا ذائقہ بدستور دہن میں ہے۔ بد ذائقہ میں چند سال پہلے ہوا جب لاہور میں میرے گھر پر کام کرنے والی مائی نے مجھ سے ایک عدد لہسن کی فرمائش کی۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ ”لہسن کا کیا کرو گی؟“ تو وہ بولی کہ ایک ماہ سے ہم نے گھر میں دال کو تڑکا نہیں لگایا کیوں کہ لہسن بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ پرانے پاکستان میں پیاز اور لہسن تو سب کو میسر تھا۰ پیاز اور لہسن سے یاد آیا کہ عمران خان اور جماعت اسلامی کے درمیان انتخابی اتحاد و تعاون پر ہمیں خوش ہونا چاہیے کیوں کہ جماعت اسلامی نے 1980 کی دہائی میں ہمیں جو ’نیا اسلامی پاکستان ‘ دیا تھا وہ ہمارے گلے میں پھنس چکا ہے ۔ شایدہم جس عطار کے سبب بیمار ہوئے ، اُسی عطار کے لونڈے کی دوا سے کچھ آرام پائیں! ورنہ سو پیاز اور سو جوتے تو کہیں نہیں گئے!!۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 

عاطف بٹ

محفلین
ہمراز صاحب میرے لئے انتہائی قابلِ احترام ہیں اور اس کی واحد وجہ صرف یہ ہے کہ وہ شاہد ملک صاحب کے بہت قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں مگر جہاں بات میرے مذہب اور ملک کی ہو وہاں میں کسی کا بھی کوئی لحاظ نہیں کرتا۔
کوئی ان سے یہ پوچھے کہ جناب آپ تو ایک عرصے سے لندن میں مقیم ہیں اور پاکستان کو بدلنے یا سنوارنے کی کوئی کوشش اگر کبھی ہوئی ہے تو اس میں آپ کا سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں، پھر آپ اس ملک کی معاشرت اور حالات پر اعتراض کرنے کا کیا حق رکھتے ہیں؟ مجھے تو ایسے سٹھیائے ہوئے دانشوروں کی سمجھ نہیں آتی جو ساری زندگی دوسرے میں ممالک میں ڈالرز اور پاؤنڈز اکٹھے کرنے میں گزار دیتے ہیں اور جیسے ہی وہ ہر حوالے سے ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں تو ان کے دل میں پاکستان کا درد جاگ اٹھتا ہے!
 
Top