نوید ناظم
محفلین
انسانوں کی دنیا میں انسانوں سے بے نیاز ہو کر نہیں رہا جا سکتا' زندگی گزارنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے دکھ سانجھے کرنے پڑتے ہیں' ایک دوسرے کی خوشیاں بانٹنی پڑتی ہے۔ یہ انسان کی وہ مجبوری ہے' جو ضروری ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے دم سے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ہیں۔ فطرت نے ہمیں مہربان بنایا اور ہم نے خود کو خواہشات کے حوالے کر دیا' آپس میں محبت کرنے کی بجائے' مقابلہ شروع کر دیا۔ ہم نے دولت کو زندگی سمجھ لیا اور زندگی کی دولت ہاتھ سے نکلتی رہی۔۔۔ مکان کی دیواریں پکی ہو گئیں' مگر مکین اندر سے ریزہ ریزہ ہو گیا۔۔۔ ہمارا کاروبار وسیع ہو گیا' مگر وسعتِ دل نہ رہی۔ ہم نے جو سوچا تھا وہ نہ ہوا اور جو ہوا وہ سوچا بھی نہ تھا۔۔۔۔۔۔ ایجادات بڑھتتی گئیں اور ساتھ مفادات بھی بڑھتے گئے۔۔۔۔ ہماری عمارتیں بلند اور خیالات پست ہو گئے۔۔۔ انسان نے آسمان میں اڑنا سیکھ لیا اور اس کا قد زمین کے برابر ہو گیا۔ بڑے بڑے کام کرنے والا' دل بڑا نہ کر سکا۔۔۔ دنیا کو مسخر کرنے والا کسی کا ہو سکا نہ کسی کو اپنا کر سکا۔۔۔۔ انسان کی ترقی کا عروج یہ ہے کہ اس نے فیصلہ کیا کہ دکھ اپنے اپنے ہوں گے۔۔۔ مہنگا چشمہ پہننے والے آدمی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھوک سے مرتا آدمی نہیں دیکھے گا۔۔۔۔ وہ کمائے گا' کھائے گا اور پھر چلا جائے گا۔۔۔ اپنی بے حسی کو ساتھ لے کر۔۔۔۔ کیا بے بسی ہے۔۔۔۔ ہم انسان ہیں اور انسانوں سے دور ہیں' ہم اک دوسرے کے ساتھ ہیں' مگر اک دوسرے کے خلاف ہیں۔۔۔ کیا زندگی یوں ہی گزر جائے گی۔۔۔ اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے۔۔۔۔ کیا انسان کبھی انسان کا نہ ہو سکے گا۔۔۔۔۔۔ خدا نہ کرے !!