سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ
شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کی سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بینچ نے اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری سے متعلق اٹھارہویں آئینی ترمیم اور اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق دائر تمام درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
بدھ کو چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا سترہ رکنی بینچ نے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ان درخواستوں کو کثرتِ رائے سے مسترد کر دیا۔ 11 ججز نے فوجی عدالتوں کے حق میں اور چھ ججز نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔
واضح رہے کہ فوجی عدالتوں نے شدت پسندی کے مقدمات میں چھ افراد کو موت کی سزا سنائی تھی جسے سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران ان سزاوں پر عمل درآمد روک دیا تھا، اب ان پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔
سترہ رکنی بینچ نے اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری سے متعلق اٹھارہویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستیں بھی مسترد کر دی گئیں، اس فیصلے میں 14 ججر نے اس کے حق میں اورتین ججز نے اس سے اختلاف کیا۔
ان درخواستوں میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمنٹ کے کردار، آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اس سے متعلق پارلیمنٹ کو آئین سازی کے اختیار سے متعلق سوالات اُٹھائے گئے تھے۔
اس کے علاوہ آئین میں درج انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق بھی نکات اُٹھائے گئے تھے۔
ان درخواستوں میں پارلیمنٹ کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کرنے کے اختیار کے علاوہ سپریم کورٹ کے ایسے آئینی معاملات میں مداخلت کرنے کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہوں۔
خیال رہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے علاوہ متعدد وکلا تنظیموں نے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت ملک بھر میں شدت پسندی کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کیا تھا اور ان تنظیموں کا موقف ہے کہ فوجی عدالتیں ایک متوازی نظام عدل ہے اور یہ موجودہ عدلیہ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
موجودہ حکومت نے گذشتہ برس دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملوں کے بعد پارلیمنمٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم منظور کروا کر اس کے تحت ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کر دی ہیں۔ اب تک ملک بھر میں نو فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں جس میں اب تک ساٹھ سے زائد مقدمات بھیجے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کو پارلیمان میں کی جانے والی قانون سازی میں مداخلت کا اختیار نہیں رکھتی جبکہ سپریم کورٹ کا موقف ہے کہ عدالت عظمیٰ کو آئین کی تشریح کا اختیار ضرور حاصل ہے جس سے وہ دستبردار نہیں ہوسکتی۔
شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کی سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بینچ نے اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری سے متعلق اٹھارہویں آئینی ترمیم اور اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق دائر تمام درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
بدھ کو چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا سترہ رکنی بینچ نے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ان درخواستوں کو کثرتِ رائے سے مسترد کر دیا۔ 11 ججز نے فوجی عدالتوں کے حق میں اور چھ ججز نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔
واضح رہے کہ فوجی عدالتوں نے شدت پسندی کے مقدمات میں چھ افراد کو موت کی سزا سنائی تھی جسے سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران ان سزاوں پر عمل درآمد روک دیا تھا، اب ان پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔
سترہ رکنی بینچ نے اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری سے متعلق اٹھارہویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستیں بھی مسترد کر دی گئیں، اس فیصلے میں 14 ججر نے اس کے حق میں اورتین ججز نے اس سے اختلاف کیا۔
ان درخواستوں میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمنٹ کے کردار، آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اس سے متعلق پارلیمنٹ کو آئین سازی کے اختیار سے متعلق سوالات اُٹھائے گئے تھے۔
اس کے علاوہ آئین میں درج انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق بھی نکات اُٹھائے گئے تھے۔
ان درخواستوں میں پارلیمنٹ کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کرنے کے اختیار کے علاوہ سپریم کورٹ کے ایسے آئینی معاملات میں مداخلت کرنے کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہوں۔
خیال رہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے علاوہ متعدد وکلا تنظیموں نے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت ملک بھر میں شدت پسندی کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کیا تھا اور ان تنظیموں کا موقف ہے کہ فوجی عدالتیں ایک متوازی نظام عدل ہے اور یہ موجودہ عدلیہ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
موجودہ حکومت نے گذشتہ برس دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملوں کے بعد پارلیمنمٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم منظور کروا کر اس کے تحت ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کر دی ہیں۔ اب تک ملک بھر میں نو فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں جس میں اب تک ساٹھ سے زائد مقدمات بھیجے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کو پارلیمان میں کی جانے والی قانون سازی میں مداخلت کا اختیار نہیں رکھتی جبکہ سپریم کورٹ کا موقف ہے کہ عدالت عظمیٰ کو آئین کی تشریح کا اختیار ضرور حاصل ہے جس سے وہ دستبردار نہیں ہوسکتی۔