سپیشل بچوں کے لیے سپیشل کالم

سپیشل بچوں کے لیے سپیشل کالم
گل نوخیز اختر

بچے ہمیشہ سے میرے فیورٹ دوست رہے ہیں، میں نے کئی دفعہ لکھا ہے کہ میری مزاح نگاری کی ساری انسپریشن بچے ہیں۔ آج بھی بے شمار بچوں سے میری پکی دوستی ہے۔ یہ بچے بعض اوقات روانی میں ایسا ایسا شگفتہ جملہ کہہ جاتے ہیں کہ مجھے اپنے مزاح نگار ہونے پر شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان بچوں کو لطیفے بھی بڑے ٹاپ کلاس یاد ہیں۔

میں ایک ادارہ ہے جہاں سپیشل بچوں کو رکھا جاتا ہے ۔ ان بچوں سے میری خاص دوستی ہے۔ یہ میرے باس ہیں…. بادشاہ ہیں ….. مزاح نگاری میں جو نظر انتخاب ان کی ہے میں تو اس کو چھو بھی نہیں سکتا ۔ ان بچوں کے والدین اپنے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں دیکھتے ہیں اوراپنے آنسو پونچھتے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس جس کو سپیشل بچے سے نوازا ہے یقیناًبہت بڑے امتحان میں ڈالا ہے اور یہ امتحان ہی سپیشل بچوں کے والدین کی نجات کا ذریعہ بنے گا، انشاء اللہ۔۔۔!!!

اِس سنٹر کے کافی سارے بچے ہنسنے ہنسانے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، انہیں اپنی کسی کمی کا احساس نہیں بلکہ ان کو مل کر میں خود احساس کمتری کا شکار ہوجاتاہوں کیونکہ یہ ہر لحاظ سے مجھ سے بہتر ہیں۔میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ یہ جو لطیفہ بھی سنائیں گے وہ میں ان کے نام کے ساتھ اپنے کالم میں شائع کروں گا۔

پہلی بچی جس کا نام عائشہ علیم ہے ….. یہ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے ….. اس کی عمر 11 سال ہے ….. بہت پیارا ہنستی ہے ….. اس کا نام میں نے ماسی مصیبتے رکھا ہوا ہے ….. اور میں جب بھی اسے ماسی مصیبتے کہہ کر بلاتا ہوں ….. یہ چیخ چیخ کو آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے ۔ اس نے یہ والا لطیفہ سنایا کہ !ایک جگہ تین بچے بیٹھے گپ مار رہے تھے ….. پہلا بچہ کہنے لگا کہ میرے ابو ایک دفعہ پہلی منزل سے گر گئے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے ….. انہوں نے گھوڑے کے لگوا لیے ….. اور آج کل 160 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتے ہیں ۔ دوسرا بچہ کہنے لگا کہ میرے ابو دوسری منزل سے گر گئے تھے ….. ان کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے تو انہوں نے چیل کے لگو الیے ….. آج کل 90 میٹر کی بلندی پر اڑتے ہیں….. تیسرا بچہ بولا ….. یہ کیا بڑی بات ہے ….. میرے ابو پچھلے دنوں تیسری منزل سے گر گئے تھے اور ان کا پیٹ پھٹ گیا تھا ….. انہوں نے آپریشن کے ذریعے بھینس کا پیٹ لگوا لیا تھا ….. آج کل ماشا ء اللہ روزانہ 7 کلو دودھ دے رہے ہیں۔

دوسری بچی کا نام ثروت ہے ….. یہ گڑیا سی بچی پولیو کا شکار ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر ہے ….. پانچویں کلاس میں پڑھتی ہے ….. کہتی تھی کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ اخبار میں میرا نام آجائے ….. لو بھئی ….. اب تو خوش….. ؟تمہارا نام بھی آگیا اور کام بھی ۔ ثروت گڑیا کا لطیفہ سنئیے !ایک شاگرد نے استاد سے پوچھا ….. ماسٹر جی ! کیا بچے قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں؟
ماسٹر نے کہا ….. ہاں…..!!!
شاگرد نے کہا ….. تو پھر حکومت اس سرمائے میں اضافے سے پریشان کیوں ہے؟

تیسرا بچہ ہے علی عدنان خواجہ….. اس نے بڑے پیارے پیارے بال رکھے ہوئے ہیں….. عمر 10 سال ہے ….. ریڑھ کی ہڈی کا کوئی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہے ….. یہ بڑا دہشت گرد بچہ ہے ….. بھارت کی طرح دھمکیاں دیتا ہے ….. اس بار بھی کہنے لگا کہ. اگر اخبار میں میرا پورا نام نہ دیا تو آئندہ کبھی کسی گیم میں تمہارا ساتھی نہیں بنوں گا….. میری جان نکل گئی ….. میرے لیے واقعی یہ بہت بڑی دھمکی تھی ….. علی عدنان خواجہ صاحب ! ظل الٰہی ….. !!! چیک کر لیجئے ….. میں نے آپ کا پورا نام دیا ہے ….. تو جناب ! علی عدنان خواجہ نے اپنی زنبیل سے یہ لطیفہ آپ کے لیے عنایت کیا ہے ۔
ایک بچے نے اپنی ماں سے پوچھا….. امی امی ….. کیا ابو چوہے ہیں؟
ماں نے غصے سے کہا ….. نہیں
بچے نے معصومیت سے کہا ….. تو پھر وہ ہر وقت یہ کیوں کہتے رہتے ہیں کہ مجھے تنگ مت کرو ….. میں بِل بنا رہا ہوں…..؟

چونکہ کالم میں جگہ کم ہوتی ہے اس لیے ….. سارا ، نبیلہ، آمنہ، شکیل، سنی، راجہ، گڈو، مانو….. اور بے شمار دیگر دوستوں سے معذرت۔میرے یہ سب شہزادے سپیشل ضرور ہیں لیکن آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ اور ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ آنکھیں نہ ہوتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں….. ہم دیکھتے ہوئے بھی بند کر لیتے ہیں….. یہ لوگ نہ بولنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بولتے نظر آتے ہیں….. ہم بولنے کی صلاحیت کے باوجود گونگے لگتے ہیں….. ان کی آنکھوں میں حرارت ہے، شرارت ہے ….ہماری آنکھوں میں جو کچھ بھی ہے غارت ہے ….. ان کے لہجوں میں ملنساری ہے ….. ہمارے لہجوں میں شرمساری ہے ….. ان کی سوچوں میں انقلاب ہے ….. ہماری سوچوں میں اضطراب ہے ….. ان کے رکے ہوئے قدم بھی فاصلے طے کر رہے ہیں ….. ہم پوری قوت سے دوڑ رہے ہیں، پھر بھی ایک قدم بھی طے نہیں کر پا رہے ۔

یہ سپیشل بچے عجیب و غریب امراض کا شکار ہیں، ان کے والدین دن رات اپنے بچوں کی صحت یابی کے لیے دعا گو رہتے ہیں، کئی والدین کو میں نے یہاں اپنے بچوں کے لیے زارو قطار روتے دیکھا ہے، یہاں ایک بچہ ایسا بھی ہے جس کے منہ سے ہر وقت رالیں ٹپکتی رہتی ہیں لیکن اس بچے کی ماں اور باپ اپنے کپڑوں سے بار بار اس کا منہ صاف کرتے ہیں۔کچھ بچے ذہنی امراض کا شکار ہیں ، ان کے والدین اپنی جان کے بدلے اپنی اولاد کی صحت یابی مانگتے ہیں لیکن خدا کا نظام ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی امتحان میں ضرور رہے۔

میں ان بچوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ بھی تو زندہ رہنے کی تمنا کرتے ہیں، انہیں بھی تو شوق ہوگا کہ کوئی انہیں کچھ نہ کہے اور یہ اپنی مرضی سے اٹکھیلیاں کرتے پھریں۔ آئیے ایسے تمام بچوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا کریں جن کے والدین انہیں عام بچوں کی طرح دیکھنے کی خواہش میں روز جیتے اور رو ز مرتے ہیں۔ یہ سپیشل بچے پاکستان کا مان ہیں، یہ خدا کا عذاب نہیں ہوتے بلکہ امتحان کی شکل میں ایک انعام ہوتے ہیں، جس گھر میں بھی ایسا کوئی بچہ ہے ان کے والدین کو میرا سلام۔۔۔

یاد رکھئے ان بچوں کو علاج کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ آئیے ان سے دوستیاں کریں….. چھیڑخانیاں کریں ….. پیار کریں….. محبت کریں ……یہ محبتوں کے امین ہوتے ہیں، کسی کا برا نہیں چاہتے۔۔۔ انہی میں سے ایک بچہ شاہ میر بھی ہے جونہ ٹھیک طرح سے بول سکتا ہے نہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہے، میں اٹھنے لگا تو اس نے میری شرٹ پکڑ لی اور اپنے انداز میں بولتے ہوئے ایک لطیفہ سنا دیا۔

دو مکھیاں فلم کا آخری شو دیکھ کر سینما سے نکلیں….. پہلی مکھی دوسری کو کہنے لگی !اے بہن ! پیدل ہی چلیں یا کوئی کتا کر لیں۔‘‘ میں اس لطیفے پر بہت ہنسا ہوں، ہر دفعہ شاہ میر مجھے یہی لطیفہ سناتاہے اورمیں پہلے سے زیادہ قہقہے لگاتا ہوں،اتنا ہنستا ہوں ، اتنا ہنستاہوں کہ ہنس ہنس کر میری آنکھوں سے پانی نکلنے لگتاہے۔۔۔
 
Top