سچائی اور کہانی کا قصہ

ایک قدیم عبرانی لوک حکایت
کسی بہت پرانے زمانے کی بات ہے ،ایسی کہانیاں بس انہی وقتوں میں ہوتی تھیں ۔ایک بہت دور دراز گاؤں میں دو انتہائی حسین و جمیل سہیلیاں رہتی تھیں ۔ان کا گھر گاؤں کے ایک نکڑ پر تھا۔ایک ننھی منھی سے وادی نے اس گاؤں کے باسیوں کو اپنی آغوش میں لیا ہوا تھا ،تو پہاڑ ایک گھنے سایہ دار درخت کی طرح چاروں طرف ایستادہ تھے ،اونچے پربتوں کے دامن سے میٹھے،لہراتے اور اٹھکیلیاں کرتے جھرنے اور چشمے اس قصبے کو سیراب کرتے تھے ۔ غرض کہ ایک ہر بھرا ،پر سکون اور پر امن گاؤں تھا ۔اسی وادی میں وہ دو حسین ترین سہیلیاں ،جن میں سے ایک کا نام ’’سچائی‘‘ اور دوسری کا’’ کہانی‘‘ تھا ہنسی خوشی اپنے دن گزار رہی تھیں ۔ایک دن یوں ہوا کہ وہ دونوں اپنے گھر بیٹھیں باتیں کر رہی تھیں کہ اچانک بات بحث و مباحثے میں بدل گئی ۔ بات بس اتنی سی تھی کے ان دونوں میں سے کون زیادہ پسندیدہ ہے ؟کس کے زیادہ دوست ہیں؟کس کو لوگ زیادہ اچھا سمجھتے ہیں ؟اب دونوں نے سوچا کے چلو پھر مقابلہ ہی ہو جائے کے کون زیادہ مقبول اور اچھا ہے؟دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کے گاؤں والوں سے پوچھا جائے کے ہم دونوں میں سے کون زیادہ اچھا اور پسندیدہ ہے اور کس کے دوست زیادہ ہیں؟اس کا طریقہ کار یہ طے ہوا کہ دونوں باری باری گاؤں کے مرکزی بازاراور گلیوں سے گزر کر گاؤں سے گزریں گی اور جس کے ساتھ زیادہ لوگ کھڑے ہوئے وہ فاتح ہو گا ۔ پہلی باری سچائی کی تھی۔جوں ہی سچائی نے چلنا شروع کیا تو جہاں سے سچائی گزرتی وہاں سے لوگ آہستہ آہستہ سرکنا شروع کر دیتے ،جو لوگ اپنے گھروں کے بالکونیوں پر کھڑے تھے وہ بھی چپکے چپکے سے اپنے گھروں میں گھسنا شروع ہو گئے ،لوگ گلیوں سے غائب ہونے لگے ،کھڑکیوں کے پردے بند ہونے لگے اور جب سچائی تھک ہار کر گاؤں کے دوسرے کونے پر پہنچی تو اسکے ساتھ انتہائی قلیل تعداد میں چند ہی لوگ تھے ۔سچائی بے چاری گھبرا گئی اور اس نے سوچا کہ میں تو ہار جاؤں گی ،تو اس نے سوچا کہ اب میں کیا کروں کے لوگ مجھے زیادہ پسند کریں تو اس کے ایک ساتھ اور حمایتی نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو زیادہ مقبول بنانے کے لئے خود کو کپڑوں کے بوجھ سے آزاد کر دے یوں زیادہ لوگ اسے پسند کریں گے۔ سچائی اسکے جھانسے میں آ گئی اور برہنہ ہو کر اپنے واپسی کے سفر پر چل پڑی ۔اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بجائے کے زیادہ لوگ اس کے ساتھ ہوتے جو لوگ تھوڑے بہت لوگ تھے وہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے ۔سچائی جب گھر پہنچی تو کہانی نے پوچھا کے بتاؤ کیسا رہا ؟تو سچائی نے اسے پورا قصہ سنا دیا۔ کہانی بولی ٹھہرو میں بھی اپنی باری پوری کر لوں پھر تفصیل سے بات کرتے ہیں ۔ اب ’’کہانی‘‘ کی باری تھی ۔کہانی جہاں سے بھی گزرتی لوگوں کا رش لگ جاتا اور ان میں سے کافی لوگ اس کے ساتھ ہو لیتے ،لوگ اپنی بالکونیوں اور کھڑکیوں سے جھانک کر اسکا دیدار کرتے ،اور یوں جب کہانی گاؤں کے آخر تک پہنچی تو اسکے ساتھ کافی لوگ موجود تھے ۔ سچائی، کہانی کی اس کامیابی پر حیران تھی ۔ جب کہانی واپس گھر پہنچی تو اس نے سچائی کو کہا کے میں تمہیں بتاتی ہوں کہ تم کیوں ناکام رہیں اور میں کیوں کامیاب رہی؟سچائی بولی ہے مجھے بتاؤ میں بھی تو جانوں کے آخر مجھ میں اور تم میں کیا فرق ہے؟کہانی بولی کے دیکھو میری دوست ’’سچائی‘‘ کو کوئی بھی زیادہ پسند نہیں کرتا ،تمہیں اس بات کا احساس تو ہو ہی گیا ہو گا اور ’’برہنہ سچائی‘‘ کو تو بہت ہی اکا دکا لوگ ہی پسند کرتے ہیں اس لئے اسکا حل یہ ہے کہ تم یہ میرا یعنی ’’کہانی‘‘ کا لبادہ پہن لو لوگ تمہیں زیادہ پسند کریں گے ۔اب سچائی نے اس بات کو آزمایا تو ’’کہانی‘‘ کی بات کو بالکل درست پایا اب کی بار ’’سچائی‘‘ کے ساتھ پہلے سے بہت زیادہ لوگ تھے وہ اسکی باتوں کی تائید بھی کر رہے تھی اور زیادہ ذوق و شوق سے اسکا ساتھ بھی دے رہے تھے ۔
بشکریہ :دنیا
 
بہت اچھی تحریر ہے حسیب
آج کل تو سچائی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی :)
پاکستان میں کافی سال سے سچائی بسترِ مرگ پر پڑی ہے تاہم کچھ لوگ ابھی بھی اس کا خیال کررہے ہین لیکن کب تک۔ایک دن آئیگا کہ بیچاری وفات پا جائیگی(اللہ نہ کرے ایسا ہو)
 
Top