سچے خواب تو آسکتے ہیں غزل نمبر21 برائے تبصرہ و اصلاح شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم اساتذہ کرام جناب
دنیا چاہےجھوٹ ہی سمجھے
سچے خواب تو آسکتے ہیں

خود کو اونچا کہنے والے
زیرِ آب تو آسکتے ہیں

اس امید پہ بھیجے نامے
کبھی جواب تو آسکتے ہیں

سچائی کے جذبوں سے
انقلاب تو آسکتے ہیں

مشکل وقت میں میرے کام
کچھ احباب تو آسکتے ہیں

ہنسنے والی آنکھوں میں
غم سیلاب تو آسکتے ہیں

غم کے ساتھ خوشیاں بھی ہیں
کانٹوں میں گلاب تو آسکتے ہیں

شارؔق خوشی ملے شاید پر
غم دستیاب تو آسکتے ہیں
 
میاں اکیسویں غزل میں بھی وہی غلطیاں کر رہے ہو جو پہلی غزل میں کی تھیں، یہ تو اچھی علامات نہیں :)

خود کو اونچا کہنے والے
زیرِ آب تو آسکتے ہیں
یہاں زیر آب تو کے بجائے ’’زیر آب بھی آسکتے ہیں‘‘ کا محل تھا، جب ہی مفہوم کا درست ابلاغ ہو پاتا، مگر آپ کی زمین میں ایسا ممکن نہیں۔

سچائی کے جذبوں سے
انقلاب تو آسکتے ہیں

مشکل وقت میں میرے کام
کچھ احباب تو آسکتے ہیں

ہنسنے والی آنکھوں میں
غم سیلاب تو آسکتے ہیں

اوپر مقتبس تمام اشعار میں پہلا مصرع بحر سے خارج ہے۔
تیسرے شعر میں ’’غم سیلاب‘‘ مہمل ترکیب ہے۔ یا سیلابِ غم کہیں یا غم کا سیلاب۔
آنکھیں بھی ہنستی ہیں؟؟؟

غم کے ساتھ خوشیاں بھی ہیں
کانٹوں میں گلاب تو آسکتے ہیں

شارؔق خوشی ملے شاید پر
غم دستیاب تو آسکتے ہیں
دونوں شعر بحر میں نہیں ہیں۔
کوئی بھی چیز دستیاب ’’ہوتی‘‘ ۔۔۔ ’’آتی‘‘ نہیں۔
 
محترم اساتذہ کرام جناب
سید عاطف علی
محمد خلیل الرحمٰن
محمد احسن سمیع: راحل
دنیا چاہےجھوٹ ہی سمجھے
سچے خواب تو آسکتے ہیں

خود کو اونچا کہنے والے
زیرِ آب تو آسکتے ہیں

اس امید پہ بھیجے نامے
کبھی جواب تو آسکتے ہیں

سچائی کے جذبوں سے
انقلاب تو آسکتے ہیں


مشکل وقت میں میرے کام
کچھ احباب تو آسکتے ہیں

ہنسنے والی آنکھوں میں
غم سیلاب تو آسکتے ہیں

غم کے ساتھ خوشیاں بھی ہیں
کانٹوں میں گلاب تو آسکتے ہیں

شارؔق خوشی ملے شاید پر
غم دستیاب تو آسکتے ہیں

شارق بھائی ،آپ کی خواہش پر غزل چیک کر رہی ہوں جبکہ میں خود کو اس کی اہل نہیں سمجھتی ۔
معذرت کے ساتھ کہوں گی کہ جہاں تک میں سمجھ پائی ہوں پوری غزل میں اوزان کی کمی ہے ۔ پہلے ہی مصرعے میں " ہی " اضافی ہے ۔
بمشکل تین شعر درست کیئے ہیں اپنی سمجھ کے مطابق لیکن جہاں تک میں سمجھی ہوں وہاں میرے درست کیئے گئے دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں " زیرِ آب بھی آ سکتے ہیں " ہونا چاہیئے لیکن آپ کے ردیف کی بدولت یہ ممکن نہیں ۔۔
میں نے جن اشعار کو درست کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے وہ یہ ہیں ۔۔

دنیا چاہے جھوٹ کہے
سچے خواب تو آسکتے ہیں

قد آور جو بنے وہ کبھی
زیرِ آب بھی آسکتے ہیں

اس امید پہ بھیجے ہیں خط
واپس نامے تو آسکتے ہیں
 
Top