سید زبیر
محفلین
سچ بیتی لکھنے کے دو مقاصد ہیں نمبر 1 . پرانےدھاگہ کا احیا تھا تا کہ نئےمحفلیں بھی لکھیں دوسرا اہم مقصد اپنے ان محفلین کو جو کبھی اپنے بچوں کو کیڈٹ کالج میں تعلیم و تربیت میں داخل کرنے کاسوچتے ہوں ان کو حقیقت معلوم ہو جائے۔
اگرچہ ملٹری کالج جہلم 1922 میں قائم ہو چکا تھا مگر پاکستان میں کیڈٹ کالجز کا قیام جنرل محمد ایوب خان کے دور میں ہوا ۔ ان کالجز کا بنیادی مقصد پاکستان کی مسلح افواج کے لئے افسران کی آغاز عمر ہی سے تربیت تھا ۔ جب پاکستان کے کاروباری افراد کو آگہی ہوئی کہ تعلیم کے کاروبار میں تیل سے زیادہ منافع ہے ۔ سرکاری تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہو گئے ہیں اور ایسا طبقہ جو محرومی کا دریا عبور کر کے خوشحالی کی منزل پا چکا تھا ۔اپنی اولاد کو بہترین اداروں میں تعلیم دینے کا خواہشمند تھا تو سرمایہ داروں نے تعلیم میں پیسہ لگانا شروع کیا ۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن WTO کی زبان میں سروس مہیا کرنی شروع کی جس میں طالب علم ، کنزیومر ۔ اساتذہ، سیلزمین اور نصاب پراڈکٹ کہلائی جانے لگی ۔ جا بجا تعلیمی ادارے کھلنے لگے ، اس منظر نامے میں پرائیویٹ کیڈٹ کالج ایک پر کشش کاروبار تھا ۔ سرمایہ داروں نے یہ کاروبار شروع کیا ۔ پوٹھوہار اور مری کا خطہ بہت جاذب نظر تھا ۔ سرمایہ داروں نے مری کے پرانے ہوٹلوں ، عمارات کی تزئین کی جبکہ پوٹھوہار خطہ میں پرانے پولٹری فارم ، اور فارم ہاوسز کا انتخاب ہوا ۔ معمولی سی تبدیلی سے پولٹری فارم بچوں کے ہاسٹل میں بدل گئے ۔ مالکان نے نمود و نمائش کے لئے مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کو ملازمتیں دیں جس سے دہرا فائدہ ہوا ایک طرف ان ملازمین کے نظم و ضبط سے کالج پر اچھا اثر پڑا ۔ دوسرے والدین بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے کہ شائد اس کا تعلق بھی مسلح افواج کے کسی ادارے سے ہے ۔ صرف چند پرائیویٹ کیڈٹ کالجز کے مالکان کا تعلق فوج سے رہا ہے ورنہ اکثریت کے مالکان صرف کاروباری افراد ہیں ۔ بے شک کوئی بھی کاروباری شخص نفع ہی کے لئے کاروبار کرتا ہے ۔ مگر صرف نفع ہی کے لئے نہیں ، جو ایسا کرتا ہے وہ لٹیرا تو ہو سکتا ہے مگر کاروباری نہیں۔
ایسے ہی ایک کیڈٹ کالج میں گذشتہ دنوں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ۔ اس کیڈٹ کالج کی تین شاخیں قائم ہیں ۔ جو ائر فاونڈیشن سے منسلک ہیں ۔ ائر فاوندیشن ایک ایسا ہی نام ہے جیسے بحریہ ٹاون ۔ اس نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے طول و عرض میں کئی چھوٹے سکولوں نے اس کی فرنچائز بھی حاصل کر رکھی ہے جس کا اچھا خاصا معاوضہ ائر فاونڈیشن وصول کرتی ہے ۔ اس کا دفتر اسلام آباد میں واقع ہے جس کا معیار کسی تحصیل سطح کے ڈاکخانے سے زیادہ بلند نہیں ہے ۔ مذکورہ کیڈٹ کالج میں صوبائی وزرا اور مقتدر شخصیات بطور مہمان تشریف لاتے ہیں ۔ جن کو بچے باقاعدہ گارڈ آف آنر دیتے ہیں اور ان کی تصاویر مختلف اخبارات میں شائع ہوتی ہیں ۔ کیڈٹ کالج میں پی ٹی آئی جسے ایڈجوٹنٹ کہا جاتا ہے سمیت کل دس اساتذہ ہیں ۔ 55 طلبا اور پانچ کلاسز ہیں ۔کالج کی انفرادیت یہ ہے کہ کالج اور ہاسٹل میں کوئی ڈسٹ بن نہیں تھا مسلسل اصرار پر کلاس رومز میں اب مہیا کئے گئے ہیں ، گٹر ابل رہے ہوتے ہیں اکثر اوقات واش رومز میں پانی نہیں ہوتا جس میں لوڈ شیڈنگ بھی بے شک بہت اہم وجہ ہے مگر لا پرواہی کا بھی عمل دخل ہے ۔کوئی باقاعدہ کلرک نہیں ہے ۔ کوئی پرنٹد سٹیشنری ، کوئی فیس بل بُک،کوئی رسید بُک نہیں ہے ۔ بچوں کی فیسیں اور جیب خرچ کی رقوم نقد یا ایزی پیسے سے وصول کی جاتی ہیں ۔جس کی رسید کمپیوٹر سے نکالی جاتی ہے ۔
یہاں اس قسم کے بچے آتے ہیں جنہیں کوئی مقامی سکول لینے کو تیار نہیں ہوتا ۔ایک مثال دیکھنے کو ملی کہ ایک بچہ جس کی عمر 18 یا 19 برس ہوگی دسویں جماعت میں انٹری ٹیسٹ میں صرف اور صرف اپنا نام لکھ سکا اس کو بھی داخلہ میں کامیابی کی نوید سنادی ۔ پانچویں جماعت میں ایک ہی خاندان کے تین بچوں کو داخلہ دیا گیا جن کی عمریں تیسری جماعت کے بچوں کے برابر تھی کیونکہ کیڈٹ کالج میں پانچویں جماعت سے کم کوئی جماعت نہ تھی اس لئے ان کو پانچویں جماعت میں داخلہ دے دیا گیا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ان تینوں بچوں نے کبھی سکول میں داخلہ نہیں لیا تھا ۔ سوائے پشتو کے انہیں کوئی بولی نہیں سمجھ میں آتی تھی ۔ اتنے کمسن بچے ، نہائت بھولے ڈرے ڈرے سہمے سہمے اکٹھے پھرتے تھے۔کچھ بچے کراچی سے تھے ان میں سے تین بچے ایسے تھے کہ وہ نہ انگریزی لکھ سکتے تھے نہ گزارے والی اردو ۔ اردو تو پڑھ بھی نہیں سکتے تھے حالانکہ اردو ان کی مادری زبان تھی اور آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے ۔ اسی طرح لورا لائی ، چترال ، گلگت ، ہنگو، پارا چنار گوجر خان ، اسلام آباد سے آئے ہوئے بچے ہیں ۔ ان سب کے والدین خوشحال کاروباری ، زمیندار ہیں ۔ داخلہ کے وقت لگ بھگ ایک لاکھ روپیہ مختلف مد میں وصول کیا جاتا ہے ۔ ماہانہ فیس 17000 سے 18000 تک وصول کی جاتی ہے ۔
تعلیم پر بالکل توجہ نہیں ۔ امتحانات کے دوران میوزیکل گالا اور تفریحی دورے تھے کیونکہ مہمان خصوصی صوبائی وزیر تھے ان کو گارڈ آف آنر دینے کی تیاریاں اور دیگر سرگرمیاں امتحانات کے دوران ہی ہوتی رہیں ۔ جس بچے نے آٹھ میں سے سات مضامین میں تیس فیصد سے کم اور ایک مضمون میں چالیس فیصد نمبر لئے اُس کی رپورٹ پر An Excellent hardworking کے ریمارکس تعلیم میں انتظامیہ کی دلچسپی کی عکاس ہے
رہائشی سہولیات جیسا کہ پہلے بتایا ہے پولٹری فارم اور گھوڑوں کے اصطبل کو ہاسٹل میں تبدیل کیا گیا ۔ ٹھنڈے پانی کا کولر بالکل خراب ہوتا ہے ۔ قریبی کارخانے سے کچی برف آتی ہے جو بالکل نا کافی ہوتی ہے ۔ پینے کے پانی میں باقاعد کیڑے انتظامیہ کو دکھائے گئے ۔ کھانے میں چیونٹیاں ، مچھر ہونا عام ہے ۔ بچے بیمار ہو جائیں تو چند گھنٹوں تک تو یہی کہا جاتا ہے کہ یہ بہانے کر رہا ہے ورنہ جو دوائیاں موجود ہوتی ہیں وہ دے دی جاتی ہیں پیٹ کے درد کے لئے پیناڈول دے دی جاتی ہے ۔ اپینڈکس کے درد میں مبتلا طالب علم کو اتنی سزا دی کہ وہ گر پڑا اور پھر اس کے والدین کو بلا کر ان کے حوالے کردیا کہ اس کا آپریشن کروالیں ۔ بچوں کے والدین کو بار بار یہ کہہ کر ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ یہ کیڈٹ کالج کے نظم و ضبط سے بھاگ کر گھر جانا چاہتا ہے اور والدین اپنے بچوں اور ان کی صحبت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اس لئے وہ بچوں کی بات پر یقین نہیں کرتے ۔
بچوں کا روزمرہ معمول صبح فجر کی نماز اور بیس منٹ کی تلاوت کے بعد ایک گھنٹہ پی ٹی 7 بجے ناشتہ ساڑھے سات بجے اسمبلی کے بعد کلاسز ساڑھے بارہ بجے چھٹی ، ایک بجے دوپہر کا کھانا، ڈیڑھ بجے ظہر کی نماز ،ساڑھے چار بجے Preparatory کلاس ساڑھے پانچ بجے نماز عصر،6 بجے پی ٹی ،ساڑھے سات بجے نماز مغرب ،8 بجے دوسری Preparatory کلاس 9 بجے رات کا کھانا، ساڑھے نو بجے عشا، 11 بجے تک Self study کے بعد لائٹ آف۔ چھوٹے بچے جن کی عمریں آٹھ سے چودہ برس کی ہوتی ہے عشا اور فجر کی نماز میں سورہے ہوتے ہیں ۔
کھانے اور تعلیم کا معیار تو بتا دیا ۔ اب کردار سازی کی سنیں ۔ ایک رات ایک سترہ سال کا چترالی بچہ اسلام آباد کے ایک 12 سال کے بچے کے ساتھ رات کو اُس کے بستر پر پایا گیا ۔ دونوں بچوں کو شدید سزا دی گئی ۔ دو لڑکوں نے ایک دوسرے کو دانتوں سے اتنی زور سے کاٹا کہ دانت کھال میں گھس گئے ۔ ڈانٹ ڈپٹ کے بعد چھوڑ دیا گیا ۔ جبکہ بعض اوقات معمولی سی شرارتوں پر کڑی سزائیں دی جاتی ہیں ۔ میس میں کھانے کے دوران ایک لڑکے نے پانی کا گلاس سے میز کے نیچے سے سامنے بیٹھے ہوئے ساتھی پر پھینک دیا ۔کھانے کے بعد جب پتہ چلا تو فوراً قانون حرکت میں آیا دونوں کو میس میں bend down کرایا گیا اور پیچھے سے لاتیں رسید کی گئیں ۔ بیشتر معصوم چودہ سال سے کم عمر بچوں پر مار کے نشانات موجود ہوتے ہیں ۔پانچویں جماعت کاایک بارہ سالہ بچہ چھٹی پر گیا تو اُس کی والدہ نے نشانات دیکھے تو انتظامیہ سے احتجاج کیا ۔ مگر لا حاصل ۔۔جب دو ہفتے بعد والدین دوبارہ ملنے آئے تو بچے نے دوبارہ نشانات دکھائے تو والدین بچے کو لے گئے ۔ والدین سے کہا جاتا ہے کہ لانڈری مفت ہوگی دھوبی ہفتہ میں ایک دفعہ آتا ہے ۔ پچھلے ہفتے کے کپڑے دے جاتا ہے اور اگلے ہفتے کے لیے لے جاتا ہے اب چھوٹے بچے بھی مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے کپڑے خود دھوئیں ایک کمرے میں استری موجود ہے بچے اُلٹی سیدھی خود ہی استری کر لیتے ہیں ۔ کھانے میں گھی انتہائی گھٹیا قسم ، باسی ڈبل روٹی ، ہفتہ میں ایک بار پھل ،کھانے میں چیونٹیاں ، مچھر ۔ پانی میں کیڑے یہ خوراک مہیا ہوتی ہے ۔ کھانے کے دوران پی ٹی آئی المعروف ایڈجوٹنٹ ڈنڈی لئے سر پر کھڑا رہتا ہے ۔ یہ ایڈجوٹنٹ صاحب میٹرک پاس ہیں ، کوئی بھی شریف خاندان ان کا انداز تکلم اپنے بچوں کو سکھانا نہیں چاہے
اب ذرا انتظامیہ کا ملازمین سے سلوک کا ذکر ہو جائے ۔ خاص طور پر درجہ چہارم کے ملازمین کا ، سیکورٹی گارڈ صبح سات بجے سے شام صات اؤڑ اسی طڑح شام سات سے صبح سات بجے تک ڈیوٹی کرتا ہے ، گیٹ پر نہ پنکھا ہے اور نہ ٹھنڈے پانی کا بندوبست، دوپہر گیارہ بجے سے سہ پہر پانچ بجے تک کا وقت گزارنا ایک صبر آزما کام ہے ۔ اسی طرح تقریباً ہر ملازم چوبیس گھنٹے کا ملازم ہے ۔ نائی پلبر بھی ہے ، دھوبی بھی ہے اور لکڑیاں بھی چیرتا ہے اس لئے کوئی کام بھی ڈھنگ کا نہیں ہوتا ۔ تنخوہ مہینے کی دس سے اٹھارہ تاریخ کے درمیان ملتی ہے کیونکہ تنخواہ پہلی تاریخ تک کی ملتی ہے اس طرح ہر ملازم کی دس پندرہ ادارے کی طرف رہتی ہے اور بیشتر ملازمین یہ رقم چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔
سرکاری کیڈٹ کالجز میں ہزاروں بچوں میں سے ہر سال 60 سے 100 بچے تک منتخب ہوتے ہیں جبکہ پرائیویٹ کیڈٹ کالجز میں جو بھی درخواست دیتا ہے برائے نام انٹری ٹیسٹ کے بعد کامیاب ہو جاتا ہے ۔ چند پرائیویٹ کالجز معیار بھی قائم رکھتے ہیں اس لئے اب جو ساتھی کیڈٹ کالجز میں اپنے بچوں کو داخل کرانا چاہیں وہ پہلے تو اُس کالج کا کچن ، واش روم ، سابقہ تعلیمی ریکارڈ ضرور دیکھیں مگر یہ حقیقت مد نظر رہے کہ کیا والدین سے بہتر کوئی دوسرا فرد آپ کی زندگی کے سرمائے کی حفاظت کر سکتا ہے ۔ کیا ایک ایسا فرد جس کا آپ کی خاندانی روایات ، تہذیب سے کوئی تعلق نہ ہو آپ کے بچے کی بہتر تربیت ، دیکھ بھال کر سکے گا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اپنے بچے سے اُس کی گیارہ سال کی عمر میں ہی دور ہوجائیں ۔
مضمون خاصا طویل ہے ، بہت کوشش کی مختصر ہو ۔۔ مگر ہو نہ سکا ۔۔۔ جن محفلین نے پڑھا اُن کا شکر گزار ہوں
اگرچہ ملٹری کالج جہلم 1922 میں قائم ہو چکا تھا مگر پاکستان میں کیڈٹ کالجز کا قیام جنرل محمد ایوب خان کے دور میں ہوا ۔ ان کالجز کا بنیادی مقصد پاکستان کی مسلح افواج کے لئے افسران کی آغاز عمر ہی سے تربیت تھا ۔ جب پاکستان کے کاروباری افراد کو آگہی ہوئی کہ تعلیم کے کاروبار میں تیل سے زیادہ منافع ہے ۔ سرکاری تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہو گئے ہیں اور ایسا طبقہ جو محرومی کا دریا عبور کر کے خوشحالی کی منزل پا چکا تھا ۔اپنی اولاد کو بہترین اداروں میں تعلیم دینے کا خواہشمند تھا تو سرمایہ داروں نے تعلیم میں پیسہ لگانا شروع کیا ۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن WTO کی زبان میں سروس مہیا کرنی شروع کی جس میں طالب علم ، کنزیومر ۔ اساتذہ، سیلزمین اور نصاب پراڈکٹ کہلائی جانے لگی ۔ جا بجا تعلیمی ادارے کھلنے لگے ، اس منظر نامے میں پرائیویٹ کیڈٹ کالج ایک پر کشش کاروبار تھا ۔ سرمایہ داروں نے یہ کاروبار شروع کیا ۔ پوٹھوہار اور مری کا خطہ بہت جاذب نظر تھا ۔ سرمایہ داروں نے مری کے پرانے ہوٹلوں ، عمارات کی تزئین کی جبکہ پوٹھوہار خطہ میں پرانے پولٹری فارم ، اور فارم ہاوسز کا انتخاب ہوا ۔ معمولی سی تبدیلی سے پولٹری فارم بچوں کے ہاسٹل میں بدل گئے ۔ مالکان نے نمود و نمائش کے لئے مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کو ملازمتیں دیں جس سے دہرا فائدہ ہوا ایک طرف ان ملازمین کے نظم و ضبط سے کالج پر اچھا اثر پڑا ۔ دوسرے والدین بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے کہ شائد اس کا تعلق بھی مسلح افواج کے کسی ادارے سے ہے ۔ صرف چند پرائیویٹ کیڈٹ کالجز کے مالکان کا تعلق فوج سے رہا ہے ورنہ اکثریت کے مالکان صرف کاروباری افراد ہیں ۔ بے شک کوئی بھی کاروباری شخص نفع ہی کے لئے کاروبار کرتا ہے ۔ مگر صرف نفع ہی کے لئے نہیں ، جو ایسا کرتا ہے وہ لٹیرا تو ہو سکتا ہے مگر کاروباری نہیں۔
ایسے ہی ایک کیڈٹ کالج میں گذشتہ دنوں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ۔ اس کیڈٹ کالج کی تین شاخیں قائم ہیں ۔ جو ائر فاونڈیشن سے منسلک ہیں ۔ ائر فاوندیشن ایک ایسا ہی نام ہے جیسے بحریہ ٹاون ۔ اس نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے طول و عرض میں کئی چھوٹے سکولوں نے اس کی فرنچائز بھی حاصل کر رکھی ہے جس کا اچھا خاصا معاوضہ ائر فاونڈیشن وصول کرتی ہے ۔ اس کا دفتر اسلام آباد میں واقع ہے جس کا معیار کسی تحصیل سطح کے ڈاکخانے سے زیادہ بلند نہیں ہے ۔ مذکورہ کیڈٹ کالج میں صوبائی وزرا اور مقتدر شخصیات بطور مہمان تشریف لاتے ہیں ۔ جن کو بچے باقاعدہ گارڈ آف آنر دیتے ہیں اور ان کی تصاویر مختلف اخبارات میں شائع ہوتی ہیں ۔ کیڈٹ کالج میں پی ٹی آئی جسے ایڈجوٹنٹ کہا جاتا ہے سمیت کل دس اساتذہ ہیں ۔ 55 طلبا اور پانچ کلاسز ہیں ۔کالج کی انفرادیت یہ ہے کہ کالج اور ہاسٹل میں کوئی ڈسٹ بن نہیں تھا مسلسل اصرار پر کلاس رومز میں اب مہیا کئے گئے ہیں ، گٹر ابل رہے ہوتے ہیں اکثر اوقات واش رومز میں پانی نہیں ہوتا جس میں لوڈ شیڈنگ بھی بے شک بہت اہم وجہ ہے مگر لا پرواہی کا بھی عمل دخل ہے ۔کوئی باقاعدہ کلرک نہیں ہے ۔ کوئی پرنٹد سٹیشنری ، کوئی فیس بل بُک،کوئی رسید بُک نہیں ہے ۔ بچوں کی فیسیں اور جیب خرچ کی رقوم نقد یا ایزی پیسے سے وصول کی جاتی ہیں ۔جس کی رسید کمپیوٹر سے نکالی جاتی ہے ۔
یہاں اس قسم کے بچے آتے ہیں جنہیں کوئی مقامی سکول لینے کو تیار نہیں ہوتا ۔ایک مثال دیکھنے کو ملی کہ ایک بچہ جس کی عمر 18 یا 19 برس ہوگی دسویں جماعت میں انٹری ٹیسٹ میں صرف اور صرف اپنا نام لکھ سکا اس کو بھی داخلہ میں کامیابی کی نوید سنادی ۔ پانچویں جماعت میں ایک ہی خاندان کے تین بچوں کو داخلہ دیا گیا جن کی عمریں تیسری جماعت کے بچوں کے برابر تھی کیونکہ کیڈٹ کالج میں پانچویں جماعت سے کم کوئی جماعت نہ تھی اس لئے ان کو پانچویں جماعت میں داخلہ دے دیا گیا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ان تینوں بچوں نے کبھی سکول میں داخلہ نہیں لیا تھا ۔ سوائے پشتو کے انہیں کوئی بولی نہیں سمجھ میں آتی تھی ۔ اتنے کمسن بچے ، نہائت بھولے ڈرے ڈرے سہمے سہمے اکٹھے پھرتے تھے۔کچھ بچے کراچی سے تھے ان میں سے تین بچے ایسے تھے کہ وہ نہ انگریزی لکھ سکتے تھے نہ گزارے والی اردو ۔ اردو تو پڑھ بھی نہیں سکتے تھے حالانکہ اردو ان کی مادری زبان تھی اور آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے ۔ اسی طرح لورا لائی ، چترال ، گلگت ، ہنگو، پارا چنار گوجر خان ، اسلام آباد سے آئے ہوئے بچے ہیں ۔ ان سب کے والدین خوشحال کاروباری ، زمیندار ہیں ۔ داخلہ کے وقت لگ بھگ ایک لاکھ روپیہ مختلف مد میں وصول کیا جاتا ہے ۔ ماہانہ فیس 17000 سے 18000 تک وصول کی جاتی ہے ۔
تعلیم پر بالکل توجہ نہیں ۔ امتحانات کے دوران میوزیکل گالا اور تفریحی دورے تھے کیونکہ مہمان خصوصی صوبائی وزیر تھے ان کو گارڈ آف آنر دینے کی تیاریاں اور دیگر سرگرمیاں امتحانات کے دوران ہی ہوتی رہیں ۔ جس بچے نے آٹھ میں سے سات مضامین میں تیس فیصد سے کم اور ایک مضمون میں چالیس فیصد نمبر لئے اُس کی رپورٹ پر An Excellent hardworking کے ریمارکس تعلیم میں انتظامیہ کی دلچسپی کی عکاس ہے
رہائشی سہولیات جیسا کہ پہلے بتایا ہے پولٹری فارم اور گھوڑوں کے اصطبل کو ہاسٹل میں تبدیل کیا گیا ۔ ٹھنڈے پانی کا کولر بالکل خراب ہوتا ہے ۔ قریبی کارخانے سے کچی برف آتی ہے جو بالکل نا کافی ہوتی ہے ۔ پینے کے پانی میں باقاعد کیڑے انتظامیہ کو دکھائے گئے ۔ کھانے میں چیونٹیاں ، مچھر ہونا عام ہے ۔ بچے بیمار ہو جائیں تو چند گھنٹوں تک تو یہی کہا جاتا ہے کہ یہ بہانے کر رہا ہے ورنہ جو دوائیاں موجود ہوتی ہیں وہ دے دی جاتی ہیں پیٹ کے درد کے لئے پیناڈول دے دی جاتی ہے ۔ اپینڈکس کے درد میں مبتلا طالب علم کو اتنی سزا دی کہ وہ گر پڑا اور پھر اس کے والدین کو بلا کر ان کے حوالے کردیا کہ اس کا آپریشن کروالیں ۔ بچوں کے والدین کو بار بار یہ کہہ کر ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ یہ کیڈٹ کالج کے نظم و ضبط سے بھاگ کر گھر جانا چاہتا ہے اور والدین اپنے بچوں اور ان کی صحبت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اس لئے وہ بچوں کی بات پر یقین نہیں کرتے ۔
بچوں کا روزمرہ معمول صبح فجر کی نماز اور بیس منٹ کی تلاوت کے بعد ایک گھنٹہ پی ٹی 7 بجے ناشتہ ساڑھے سات بجے اسمبلی کے بعد کلاسز ساڑھے بارہ بجے چھٹی ، ایک بجے دوپہر کا کھانا، ڈیڑھ بجے ظہر کی نماز ،ساڑھے چار بجے Preparatory کلاس ساڑھے پانچ بجے نماز عصر،6 بجے پی ٹی ،ساڑھے سات بجے نماز مغرب ،8 بجے دوسری Preparatory کلاس 9 بجے رات کا کھانا، ساڑھے نو بجے عشا، 11 بجے تک Self study کے بعد لائٹ آف۔ چھوٹے بچے جن کی عمریں آٹھ سے چودہ برس کی ہوتی ہے عشا اور فجر کی نماز میں سورہے ہوتے ہیں ۔
کھانے اور تعلیم کا معیار تو بتا دیا ۔ اب کردار سازی کی سنیں ۔ ایک رات ایک سترہ سال کا چترالی بچہ اسلام آباد کے ایک 12 سال کے بچے کے ساتھ رات کو اُس کے بستر پر پایا گیا ۔ دونوں بچوں کو شدید سزا دی گئی ۔ دو لڑکوں نے ایک دوسرے کو دانتوں سے اتنی زور سے کاٹا کہ دانت کھال میں گھس گئے ۔ ڈانٹ ڈپٹ کے بعد چھوڑ دیا گیا ۔ جبکہ بعض اوقات معمولی سی شرارتوں پر کڑی سزائیں دی جاتی ہیں ۔ میس میں کھانے کے دوران ایک لڑکے نے پانی کا گلاس سے میز کے نیچے سے سامنے بیٹھے ہوئے ساتھی پر پھینک دیا ۔کھانے کے بعد جب پتہ چلا تو فوراً قانون حرکت میں آیا دونوں کو میس میں bend down کرایا گیا اور پیچھے سے لاتیں رسید کی گئیں ۔ بیشتر معصوم چودہ سال سے کم عمر بچوں پر مار کے نشانات موجود ہوتے ہیں ۔پانچویں جماعت کاایک بارہ سالہ بچہ چھٹی پر گیا تو اُس کی والدہ نے نشانات دیکھے تو انتظامیہ سے احتجاج کیا ۔ مگر لا حاصل ۔۔جب دو ہفتے بعد والدین دوبارہ ملنے آئے تو بچے نے دوبارہ نشانات دکھائے تو والدین بچے کو لے گئے ۔ والدین سے کہا جاتا ہے کہ لانڈری مفت ہوگی دھوبی ہفتہ میں ایک دفعہ آتا ہے ۔ پچھلے ہفتے کے کپڑے دے جاتا ہے اور اگلے ہفتے کے لیے لے جاتا ہے اب چھوٹے بچے بھی مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے کپڑے خود دھوئیں ایک کمرے میں استری موجود ہے بچے اُلٹی سیدھی خود ہی استری کر لیتے ہیں ۔ کھانے میں گھی انتہائی گھٹیا قسم ، باسی ڈبل روٹی ، ہفتہ میں ایک بار پھل ،کھانے میں چیونٹیاں ، مچھر ۔ پانی میں کیڑے یہ خوراک مہیا ہوتی ہے ۔ کھانے کے دوران پی ٹی آئی المعروف ایڈجوٹنٹ ڈنڈی لئے سر پر کھڑا رہتا ہے ۔ یہ ایڈجوٹنٹ صاحب میٹرک پاس ہیں ، کوئی بھی شریف خاندان ان کا انداز تکلم اپنے بچوں کو سکھانا نہیں چاہے
اب ذرا انتظامیہ کا ملازمین سے سلوک کا ذکر ہو جائے ۔ خاص طور پر درجہ چہارم کے ملازمین کا ، سیکورٹی گارڈ صبح سات بجے سے شام صات اؤڑ اسی طڑح شام سات سے صبح سات بجے تک ڈیوٹی کرتا ہے ، گیٹ پر نہ پنکھا ہے اور نہ ٹھنڈے پانی کا بندوبست، دوپہر گیارہ بجے سے سہ پہر پانچ بجے تک کا وقت گزارنا ایک صبر آزما کام ہے ۔ اسی طرح تقریباً ہر ملازم چوبیس گھنٹے کا ملازم ہے ۔ نائی پلبر بھی ہے ، دھوبی بھی ہے اور لکڑیاں بھی چیرتا ہے اس لئے کوئی کام بھی ڈھنگ کا نہیں ہوتا ۔ تنخوہ مہینے کی دس سے اٹھارہ تاریخ کے درمیان ملتی ہے کیونکہ تنخواہ پہلی تاریخ تک کی ملتی ہے اس طرح ہر ملازم کی دس پندرہ ادارے کی طرف رہتی ہے اور بیشتر ملازمین یہ رقم چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔
سرکاری کیڈٹ کالجز میں ہزاروں بچوں میں سے ہر سال 60 سے 100 بچے تک منتخب ہوتے ہیں جبکہ پرائیویٹ کیڈٹ کالجز میں جو بھی درخواست دیتا ہے برائے نام انٹری ٹیسٹ کے بعد کامیاب ہو جاتا ہے ۔ چند پرائیویٹ کالجز معیار بھی قائم رکھتے ہیں اس لئے اب جو ساتھی کیڈٹ کالجز میں اپنے بچوں کو داخل کرانا چاہیں وہ پہلے تو اُس کالج کا کچن ، واش روم ، سابقہ تعلیمی ریکارڈ ضرور دیکھیں مگر یہ حقیقت مد نظر رہے کہ کیا والدین سے بہتر کوئی دوسرا فرد آپ کی زندگی کے سرمائے کی حفاظت کر سکتا ہے ۔ کیا ایک ایسا فرد جس کا آپ کی خاندانی روایات ، تہذیب سے کوئی تعلق نہ ہو آپ کے بچے کی بہتر تربیت ، دیکھ بھال کر سکے گا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اپنے بچے سے اُس کی گیارہ سال کی عمر میں ہی دور ہوجائیں ۔
مضمون خاصا طویل ہے ، بہت کوشش کی مختصر ہو ۔۔ مگر ہو نہ سکا ۔۔۔ جن محفلین نے پڑھا اُن کا شکر گزار ہوں